تحریر : عماد ظفر
سیکیورٹی ایجنسیوں پر تنقید ہمارے ہاں ایک فیشن بن چکا ہے. یہ تنقید نہ صرف لبرل یا انسانی حقوق کے چیمپیئن کا درجہ دلاتی ہے بلکہ بیرونی فنڈنگ اور پیسے کے دروازے بھی کھول دیتی ہے.شاید ہی ہمارے علاوہ دنیا میں کوئی اور ایسا ملک ہو جہاں ہمہ وقت اپنی ہی سیکیورٹی ایجینسیز کو اس قدر ہدف تنقید بنایا جاتا ہو. پوری دنیا میں سیکیورٹی ایجینسیز اکثر کاروائیاں کر کے ایسے افراد کو اٹھا لیتی ہیں جن کے بارے میں شبہ ہو کہ وہ وطن دشمنی میں ملوث ہیں. ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے .سیکیورٹی ایجنسیاں کبھی بھی کسی بے قصور کو نہ تو اٹھاتی ہیں اور نہ ہی انہیں کسی بے قصور کو اٹھانے کا شوق ہوتا ہے. وطن عزیز میں لاپتہ افراد کے حوالے سے اکثر سیکیورٹی ایجینسیوں کو ہدف تنقید تو بنایا جاتا ہے لیکن ان عوامل کو زیر بحث نہیں لایا جاتا جن کے باعث ایسا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے. ہمارے ہاں اکثر افراد دانستگی یا نا دانستگی میں ملک دشمن قوتوں یا شدت پسند اور دہشت گرد گروہوں کے معانین بن جاتے ہیں.ایسے میں قوانین کے کمزور ہونے اور اکثر ثبوتوں کے عدالتی تقاضوں کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے ایسے افراد کو اٹھانے کی ضرورت پیش آتیں ہے۔
گو اس طریقہ کار سے اختلاف اپنی جگہ پر لیکن سیکیورٹی ایجنسیوں کی مجبوری بھی پیش نظر رکھنی چائیے. ایک زرا سی غلطی ملک میں کسی بھی بڑے سانحے کا باعث بن سکتی ہے اس لیئے سیکیورٹی ایجنسیاں رسک نہیں لیتیں اور مشتبہ افراد افراد پر ہاتھ ڈال دیتی ہیں. زندگی کے کسی بھی شعبے کی طرح اس شعبے میں بھی غلطیوں کا اندیشہ موجود ہوتا ہے جسے ہیومن ایرر کہا جاتا ہے .ٹھیک جیسا کہ صحافت کے پیشے میں کبھی کبھی ہمارے تجزیے یا خبریں غلط ثابت ہو جاتی ہیں. یا کبھی ڈاکٹر سے مرض کی تشخیص غلط ہو جاتی ہے. کوئی بھی جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتا. ملک میں کسی کی بھی پراسرار موت یا گمشدگی کو ایجنسیوں کے کھاتے میں ڈال کر دہائیاں مچانا ہرگز بھی درست اقدام نہیں. ایجنسیوں کے سیاست میں مداخلت کے متعلق سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن وطن کی نگہبانی کے مقصد میں مختلف قوتوں سے برسر پیکار ان اداروں کے خلوص اور محنت پر کوئی بھی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔
چند دنوں قبل بی بی سی پر زینت شہزادی نامی خاتون صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن کی پراسرار گمشدگی سے متعلق خبر کو اچھالا گیا اور سیکیورٹی داروں کو اس کی گمشدگی کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی گئی. لاہور کی اس لاپتہ خاتون جرنلسٹ زینت شہزادی کے بھائی نے کچھ عرصہ قبل خود کشی بھی کر لی.یہ خبر چھوٹی سہ شہ سرخیوں کے ساتھ کہیں کہیں شائع ہوئی اور بس.کسی بھی سچائی کے علمبردار نام نہاد ٹی وی چینل کو توفیق نہ ہوئی کہ اس بیچاری لاپتہ خاتون صحافی کے مسئلے پر ایک پروگرام ہی کر دیتا. زینت شہزادی ایک نوجوان صحافی تھی اور ایک ہندوستانی قیدی کا کیس لڑنے کی حماقت کر بیٹھی.وہ ہندوستانی قیدی جس کا کیس زینت نے لڑا ایک سافٹ ویئر انجینئر تھا اور پاکستان میں ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے ہونے والی یہ محبت اس ہندوستانی کو پاکستان کھینچ لائی اور پھر یہاں اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اٹھا لیا.یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک ہندوستانی غیرقانونی طریقے سے پاکستان آیا تو اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اٹھا لیا.لیکن زینت شہزادی کا جرم کیا تھا اس کی سمجھ نہیں آئی. اور اگر کوئی جرم تھا تو زینت شہزادی کو کسی عدالت میں پیش کرنے کی زحمت کیوں نہ کی گئی. زینت اکیلی نہیں ہے اس جیسے ہزارہا افراد لاپتہ ہیں اور یہ فہرست مزید طویل ہوتی ہی جا رہی ہے. زینت شہزادی پہلی خاتون صحافی ہے جو لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہوئی. زینت انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ بھی وابستہ رہی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا اصرار ہے کہ زینت کو سیکیورٹی ایجنسیوں نے اغوا کیا ہے. زینت زندہ ہے یا مر گئی کوئی نہیں جانتا اور شاید کوئی جاننا بھی نہیں جاتا.کیونکہ لاپتہ افراد کے مقدمات کو لڑنے والے یا ان کے حق میں آواز اٹھانے والے خود لاپتہ ہو جاتے ہیں۔
اس وقت اعلی عدالتوں میں لاپتہ افراد کے حوالے سے تین ہزار کے لگ بھگ مقدمات قائم ہیں لیکن فیصلہ کسی مقدمے پر نہیں سنایا جاتا. یوں ان ہزارہا مقدمات میں ایک اور مقدمہ عنبرین کا بھی شامل ہے جو عدلیہ کے معزز ججز کے ٹیببل پر پڑی ہوئی ہزارہا فائلوں میں سے محض ایک فائل ہے. ایسی فائل جو جیتے جاگتے انسانوں کی چیخ و پکار کو نگل جاتی ہے. یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زینت کو اگر سیکیورٹی اداروں نے اٹھانا ہوتا تو اس کا مناسب وقت تب تھا جب زینت ایک بھارتی شہری کا کیس میڈیا اور عدلیہ میں اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی تھی.کیس کے اجاگر ہو جانے کے بعد زینت کو اس طرح تحویل میں لے کر کم سے کم سیکیورٹی اداروں کو کسی بھی قسم کا فایده نہیں.دوسری بات سیکیورٹی ادارے ہمارے اپنے وطن کے ہیں نا کہ کسی دشمن ملک کے کہ جو ہر وقت اپنے ہی شہریوں کو اغوا کرنے کے تاک میں بیٹھیں رہیں۔
اکثر ان کیسز میں سیکیورٹی اداروں کو بدنام کرنے کیلئے کوئی تیسری قوت بھی میدان میں سرگرم ہوتی ہے. اور زینت کا کیس بھی کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جس میں شاید کسی تیسرے فریق نے ہمارے سیکیورٹی کے اداروں کو بدنام کرنے کیلئے یہ قدم اٹھایا. لیکن ہمارے انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپیینز نے اول دن سے ہی بنا کسی ٹھوس ثبوت کے سیکیورٹی اداروں پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں. اکثر لاپتہ افراد کے کیسز میں بنا کسی ثبوت کے سیکیورٹی اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.سبین محمود کے قتل کو بھی انہی اداروں کے کھاتے میں ڈالنے کی بھرپور کوشش کی گیی تھی حالانکہ سبین محمود کو اگر خاموش ہی کروانا مقصود ہوتا تو بہت پہلے کروایا جا چکا ہوتا۔
سیکیورٹی ادارے کبھی بھی کسی شہری کو محض اپنے اوپر تنقید کرنے کے جرم میں نہ تو اغوا کرتے ہیں اور نہ ہی مارتے ہیں البتہ اگر ان کو اس امر کا یقین ہو کہ کوئی ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے تو پھر صورتحال مختلف ہوتی ہے. انسانی حقوق کا رونا روتے بیرونی فننڈنگ اپنی جیبوں میں ڈالتے افراد کو لاپتہ افراد کے حوالے سے ان پر لگائے ہوئے سنگین جرائم کی تحقیقات کی بھی اشد ضرورت ہے. بجائے سیکیورٹی اداروں کو بدنام کرنے کے ان جرائم یا شکوک کو زیر بحث لینا چائیے جن کی وجہ سے سیکیورٹی اداروں کو بہ امر مجبوری ایسے کڑوے اقدام کرنے پڑتے ہیں.زینت شہزادی ایک صحافی بھی تھی اور انسانی حقوق کی کارکن بھی۔
کیا وجہ ہے کہ کسی بھی بڑے ٹی وی چینل پر ایک گھنٹے کا ٹاک شو تک کرنے کی بھی کسی بڑے اینکر کو توفیق نہ هوئی اور نہ ہی بیرونی فنڈنگ ہڑپ کرتی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کو توفیق هوئی کہ کوئی دو تین سیمینارز ہی زینت کے حوالے سے متعلق منعقد کرتے.بس تنقید اور بیرونی خبر رساں اداروں کو اپنے ہی سیکیورٹی اداروں کے خلاف بیان داغنے سے یہ مسئلہ حل ہونے کا نہیں ہے. اس ضمن میں ایک ریڈ لائن بنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت سیکیورٹی اداروں پر بلا ضرورت اور غیر ضروری الزامات لگانے پر ممانعت ہو دوسری جانب معزز عدلیہ کو لاپتہ افراد کے حوالے سے مقدمات کو جلد از جلد نبٹانے کی ضرورت ہے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔
لیکن تب تک ہمیں بطور قوم اپنے سیکیورٹی اداروں پر فخر کرنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت ہے نا کہ بلا جواز تنقید کی. کیونکہ ہمارے ان اداروں کے جوان اکثر ایسی جنگیں لڑتے اور جیتتے ہیں جن کا ذکر شاید تاریخ میں تو نہیں ملتا لیکن ان جوانوں کی قربانیوں کی وجہ سے اکثر خاموشی سے تاریخ کا دھارا موڑا جاتا ہے۔
تحریر : عماد ظفر