واشنگٹن (ویب ڈیسک) امریکہ کی کیپیٹل ہل کی عمارت کے ایک کمرے میں سینیٹرز ایف بی آئی کی رپورٹ پڑھ رہے ہیں جو کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے سپریم کورٹ کے جج کے لیے نامزد بریٹ کیونو کی مبینہ جنسی ہراس کے حوالے سے ہے۔ اس رپورٹ کے مواد کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا
معروف صحافی گیرتھ ایونز بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور تنقید کی جا رہی ہے کہ اس تفتیش کا دائرہ کار وسیع کیا جائے۔ ان تحقیقات کے دوران بریٹ پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ وہ پولی گراف ٹیسٹ یعنی جھوٹ پکڑنے کے امتحان سے گزریں۔ جنسی ہراس کا الزام لگانے والی خواتین میں سے ایک کرسٹین بلیسی فورڈ نے پولی گراف دیا اور سرخرو ہوئیں۔ لیکن پولی گراف ٹیسٹ کتنے صحیح ہوتے ہیں اور یہ ٹیسٹ کیسے کیے جاتے ہیں۔ مختصراً پولی گراف ٹیسٹ کسی سوال کے جواب میں مختلف جسمانی حرکات کو ریکارڈ کرتا ہے جن کو بعد میں تجزیے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں کہ آیا کوئی سچ بول رہے تھا یا جھوٹ۔ پولی گراف ٹیسٹ میں عمومی طور پر بلڈ پریشر، سانس لینے میں تبدیلی یا ہتھیلیوں پر پسینے کو ریکارڈ کرتا ہے ۔ ڈاکٹر سوفی کا کہنا ہے ’انسانوں میں یہ تو ہوتا نہیں کہ کوئی جھوٹ بولے تو پینوکیو کی طرح اس کا ناک لمبا ہوتا جائے۔ لیکن جھوٹ بولنے سے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔۔۔ جھوٹ پکڑنے کی تکنیک سے انسانی نفسیاتی اور برتاؤ میں تبدیلیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا
پولی گراف ٹیسٹ فریب یا جھوٹ کو براہ راست نہیں پکڑتا بلکہ وہ اشارے ریکارڈ کرتا ہے جو اس طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے ۔ ٹیسٹ سے لی گئی معلومات کو پھر اس شخص کے حوالے سے حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ پولی گراف ٹیسٹ دنیا بھر میں استعمال کیے جاتے ہیں لیکن اس کی ٹیکنالوجی اور عمل کم و بیش ایک جیسا ہی ہے ۔ پروفیسر ڈون گربن کا کہنا ہے ’اس ٹیسٹ سے قبل ایک انٹرویو میں کیا جاتا ہے جو تقریباً ایک گھنٹے کا ہوتا ہے۔ اس انٹرویو میں جس کا ٹیسٹ کیا جانا ہوتا ہے اس کی توجہ ان سوالات پر مرکوز کرائی جاتی ہے جو اس سے پوچھنے جانے ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد ایک پریکٹس ٹیسٹ کیا جاتا ہے جس میں سیدھے سوال کیے جاتے ہیں۔ اس ٹیسٹ کا مقصد اس شخص کو ذہنی سکون دینا ہوتا ہو تاکہ وہ سمجھ سکے کہ یہ ٹیسٹ کیسے کیا جائے گا ۔ تمام سوالات پر اتفاق کیا جاتا ہے اور پولی گراف ٹیسٹ کے سامان کو نصب کیا جاتا ہے ۔ پروفیسر گربن کا کہنا ہے ’ٹیسٹ میں کوئی حیران کن سوال نہیں پوچھا کیونکہ ایسا سوال ہی کسی بھی شخص کا بلڈ پریشر وغیرہ تبدیل کر سکتا ہے۔ جو سوال پوچھے ہوتے ہیں وہ اس شخص کو معلوم ہوتے ہیں ۔
مشین کا سازوسامان لگایا جاتا ہے جیسے بلڈ پریشر معلوم کرنے کا آلہ، انگلیوں یا ہتھیلیوں پر الیکٹروڈز لگائے جاتے ہیں اور سینے اور پیٹ پر دو ٹیوبز لگائی جاتی ہیں ۔ پروفیسر گربن کہتے ہیں ’کبھی انگلی پر آلہ لگایا جاتا ہے تاکہ خون کے بہاؤ کو معلوم کیا جا سکے اور کبھی کبھار کرسی پر حرکت کی نشاندہی کرنے والا آلہ لگایا جاتا ہے تاکہ اگر آپ کوئی جواب دیتے ہوئے معمولی سی بھی حرکت کرتے ہیں تو وہ معلوم ہو سکے ۔ ان کا مزید کہنا ہے ’یہ آلات شاید 10 سے 15 منٹ تک لگائے جائیں لیکن آپ کمرے میں کم از کم دو گھنٹے تک رہتے ہیں ۔ ٹیسٹ کے دوران اس شخص سے سوالات پوچھے جاتے ہیں اور پھر اہم سوالات کے وقت اس شخص کے بلڈ پریشر دیگر چیزوں کا موازنہ کرتے ہیں۔ ٹیسٹ کا اختتام ٹیسٹ کے بعد ایک اور انٹرویو سے کیا جاتا ہے جس میں وہ شخص ٹیسٹ کے دوران اپنے ردعمل کی وضاحت پیش کر سکتا ہے ۔ ماہرین کے مطابق، جی ہاں ۔ پروفیسر گربن کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ پولی گراف ٹیسٹ کو ہرا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے آپ کو ٹریننگ حاصل کرنا پڑے گی ۔آپ کو ایسی ویب سائٹس ملیں گی جو آپ کو بتائیں گی کہ یہ کیسے کیا جاتا ہے،
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ آپ جا کر پولی گراف ٹیسٹ دیں گے اور اسے ہرا دیں گے تو ایسا نہیں ہونے والا ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے آرام سے بیٹھ کر ماہر ممتحن کے ساتھ مسلسل پریکٹس کی ضرورت ہے ۔ لیکن جن کے پاس قابل سوال کرنے والا نہیں، ان کے لیے کون سا طریقۂ کار ہوگا؟ پروفیسر گربن کا کہنا ہے کہ ’آپ کو جوتے میں کیل رکھنا پڑ سکتا ہے، جس سے مثال کے طور پر اعضا میں کوئی سرگرمی یا حرکت پیدا ہو کیونکہ آپ کو سیدھا بیٹھنا ہوتا ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسی بہت سی ادویات ہیں جو لوگ استعمال کرتے ہیں لیکن وہ کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔‘تاہم انھوں نے خبردار کیا کہ زیادہ تر ممتحن اس ٹیسٹ سے بچنے کی کسی بھی کوشش کو پکڑ لیتے ہیں ۔ پولی گراف ٹیسٹ پر اس کے سنہ 1921 میں ایجاد ہوتے ہی سوالات اٹھنے لگے تھے اور اس کے نتایج کی صداقت پر اب بھی بحث ہوتی ہے ۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا بنیادی خیال ہی غلط ہے ۔ پروفیسر ایلڈرٹ وریج کا جو اس موضوع پر کھل کے لکھ چکے ہیں کہنا ہے کہ
’یہ فریب کا اندازہ لگاتا ہی نہیں جو اس کا بنیادی مسئلہ ہے۔ خیال یہ ہے کہ یہ ٹیسٹ اہم سوالات کے جوابات کے دوران جھوٹ بولنے والوں میں بےچینی کو دکھاتا ہے، جبکہ سچ بولنے والوں میں نہیں ۔لیکن اس کے جواب میں کوئی ٹھوس منطق نہیں ہے ۔ ڈاکٹر وین ڈر زی کہتی ہیں کہ جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ چونکہ کافی پریشان کن تجربہ ہے، تو اکثر معصوم لوگ بھی مجرم دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جن لوگوں کے پولی گراف کے ذریعے ٹیسٹ ہوتے ہیں وہ کافی دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ لہٰذا جہاں پولی گراف جھوٹ کی شناخت کرنے میں بہت اچھا ہے وہیں سچ کی شناخت کرنے میں یہ اتنا ہی اچھا نہیں ۔ تاہم پروفیسر گربن کا کہنا ہے کہ بہت سی ایسی مختلف وجوہات ہیں کہ کیوں یہ ٹیسٹ غلط ہو سکتا ہے۔ ان وجوہات میں وہ سوالات شامل ہیں جنھیں انتہائی برے طریقے سے تشکیل دیا گیا ہے اور انٹرویو کرنے والے نتائج کو غلط طریقے سے دیکھتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ممتحن تربیت یافتہ ہو، اگر ٹیسٹ صحیح طریقے سے کیا گیا ہو، اور اگر مناسب کولٹی کنٹرول ہو، تو یہ ٹیسٹ کے 80 سے 90 فیصد کے درمیان صحیح ہو سکتا ہے ۔ تاہم ان کے مطابق متاثرین کا انٹرویو کرنے سے الگ مسائل سامنے آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’متاثرین کا ٹیسٹ بالکل ہی الگ چیز ہے کیونکہ جو کچھ ان سے پوچھا جاتا ہے، آپ ویسے ہی بےچینی کی امید کر سکتے ہیں۔‘ اس مطلب ہے کہ متاثرہ فرد، خاص طور وہ جو صدمے سے گزرا ہو، ہو سکتا ہے جھوٹ بولتا دکھائی دے کیونکہ اس میں کافی حد تک جذبات شامل ہوں گے۔