لاہور (ویب ڈیسک) جمہوریت کی کتابی تعریف عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ہے۔جمہور کی رائے اور جمہور کی حکمرانی اصل روح تصور ہوتی ہے۔ فاشزم یا فسطائیت لفظ facio سے نکلا ہے جس کا مطلب قدیم اطالوی زبان میں ڈنڈوں کا مجموعہ ہے جن سے عوام پر قابو پا یا جاتا تھا۔ نامور خاتون کالم نگار عاصمہ شیرازی بی بی سی کے لیے اپنے ایک ہفتہ وار کالم میں لکھتی ہیں۔۔۔۔عوامی مقبولیت پر کھڑی سیاسی جمہوریتوں کو فسطائیت اپنانے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل عوامی جمہوریت کے لبادے میں فسطائیت کو اپنانے کا رواج عام ہو رہا ہے۔ گذشتہ برس سابق امریکی سیاستدان اور سفارتکار میڈیلین البرائٹ کی کتاب ’فاشزم اے وارننگ‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ بےحد جاندار دلیلوں کے ساتھ اس کتاب میں دنیا بھر میں فسطائیت پسندی کے رحجانات کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ دنیا میں بہت سی حکومتیں جمہوریت مخالف رویوں کا عملی مظاہرہ کر رہی ہیں لیکن وہ فاشسٹ حکومتیں نہیں ہیں۔ اپنی کتاب میں وہ رجب طیب اردوغان کی حکومت کا حوالہ دیتی ہیں کہ کس طرح سنہ 2002 میں جمہوری طریقوں سے برسراقتدار آنے والی حکومت نے ان تمام اداروں کو یکے بعد دیگرے معطل کر دیا جو اُن پر جمہوری طریقے سے نگرانی رکھتے تھے۔ اُن کی حکومت نے فوج سے لے کر ذرائع ابلاغ اور عدلیہ سے لے کر مقننہ تک اپنے اختیار کو وسیع کیا۔ تمام ذرائع ابلاغ کے وہ ادارے جو ان کے حامی نہیں تھے اُنھیں قومیا لیا گیا۔ قانون سازی کے ذریعے اختیار دیا گیا کہ حامی ججوں کو تعینات کیا جائے۔ 2016 میں ایک حقیقی بغاوت کو ناکام بنا کر سیاسی مخالفین اور صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ ریفرنڈم کرایا گیا جس کے نتیجے میں انھیں اختیار ملا کہ وہ اپنے حکم کے ذریعے قانون تشکیل دے سکیں۔ انھوں نے گرفتاریوں کا حکم دیا اور گرفتار شدگان کو انصاف کی فراہمی سے محروم رکھا۔ یوں آہستہ آہستہ اردوغان مضبوط اور ریاستی ادارے کمزور ہو گئے۔ ایک اور مثال وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بھی دیتی ہیں جہاں ٹرمپ جیسی شخصیت کا ایسی اشخاص کی تعریف کرنا اور انھیں مثال بنا کر پیش کرنا ہے جو امریکہ کے اس نظریے کی ضد ہیں کہ امریکہ دنیا بھر میں جمہوریت اور آزادی کا علمبردار ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ جب ٹرمپ اپنی پریس کانفرنس سے ایک ایسے رپورٹر کو نکال دیتے ہیں جو ٹرمپ کے ناقد ہیں تو اُسی روز کمبوڈیا کی حکومت اپنے ملک میں امریکی رپورٹرز کو نکل جانے کی دھمکی دیتی ہے۔ بہرحال ترکی اور امریکہ جیسے ممالک میں جمہوری رویوں کی کمزوری ناقابل برداشت ہے تاہم ان معاشروں میں معاشی استحکام اس سست روی سے سرایت کر جانے والے رویے کو کسی حد تک قبول کر سکتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں معاشی ابتری اپنے عروج پر ہو، لاقانونیت اور ناانصافی رائج ہو چکی ہو، انصاف کا نظام مطعون ہو رہا ہو۔ بیروزگاری عام ہو، روٹی کپڑا اور مکان کے حصول کی جنگ زندگی سے بڑھ کر ہو وہاں فسطائیت نہیں آمریت جنم لیتی ہے جو خود ایک مسئلہ ہے کسی مسئلے کا حل قطعی طور پر نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا جرمنی میں ہٹلر کے دور میں ہوا۔ نامساعد معاشی حالات، سیاسی قوتوں کی نااہلی، اداروں میں عدم شفافیت، بدعنوانی کے مارے معاشرے میں احتساب کا نعرہ اور لوٹ کھسوٹ سے نجات کا خواب دکھا کر وقتی مقبولیت اور اُس کی آڑ میں فسطائی نظام کی آبیاری سسٹم کو کمزور نہیں بلکہ توڑ پھوڑ کا شکار کر دیتی ہے۔ دنیا بھر میں جمہوریتوں کی آڑ میں فسطائی حربے بےچینی تو بڑھا سکتے ہیں مگر استحکام پیدا نہیں کر سکتے۔ ذرائع ابلاغ کی آزادی، انصاف کی فراہمی، مقننہ کی خودمختاری اور انتظامیہ کی جوابدہی سے ہی نظام کی مضبوطی ہے۔ ہم اگر اسے یقینی نہ بنا سکے تو غیر آئینی فسطائیت حاوی ہوجائے گی جس سے کم از کم اب لڑنا ناممکن ہو گا۔ جمہوریت میں فسطائیت دبے انداز میں آتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ نظام میں سرایت کر جاتی ہے۔ ہمیں ان دبے قدموں پر نظر رکھنا ہو گی۔ وقت اور حالات جمہوریت کے لیے دگرگوں ضرور ہیں تاہم جمہوریت کی بقا میں ہی معاشرے کی بقا ہے۔