اسلام آباد (ویب ڈیسک) رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) علی امین گنڈا پور کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے 9/11 کے وقت ہی کہا تھا کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے اور پاکستان کو اس میں کسی صورت نہیں جانا چاہیے، اس وقت کی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمیں یہ حالات بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ نجی ٹی وی نیوز چینل کے ہروگرام میں میزبان ندیم ملک سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اب اپنی خارجہ پالیسی آزادانہ انداز میں بنا رہا ہے، پاکستان کلمہ طیبہ کے نام پر بنا ہے اس لیے ہماری خارجہ پالیسی کسی سے ڈر اور خوف کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے۔ رہنما مسلم لیگ ن زبیر عمر کا کہنا تھا کہ تاریخی طور پر ہمیشہ ہمارا جھکاؤ امریکہ کی طرف رہا ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہیں، امریکی امداد اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے باعث ہمیں ہمیشہ امریکہ کی ضرورت رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 9/11 کے بعد ساری دنیا ہم سے یہ توقع کررہی تھی کہ ہم کوئی اہم کردار ادا کریں مگر ہم نے صرف تین ارب ڈالر میں اپنے آپ کو بیچ دیا، پھر ہم نے تین ائیر بیسز اور دیگر مراعاتیں دیں جو کہ کسی صورت بھی مناسب نہیں تھا، ہم نے ہمیشہ اپنی قیمت بہت کم لگائی ہے، سب سے بڑھ کر ہم نے افغان سفیر کو اس دور میں امریکہ کے حوالے کردیا تھا۔ زبیر عمر کے مطابق ہمیں ابھی بھی امریکہ کی ضرورت ہے، امریکہ کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ملٹی نیشنل، ٹیکنالوجی اور انوسٹمنٹ کے حوالے سے امریکہ آج بھی ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ معروف تجزیہ کار جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا تھا کہ 1979 میں جب روس افغانستان آیا تھا تو اس وقت ایک پختونستان کی تحریک چل رہی تھی، اس کے علاوہ نیشنل عوامی پارٹی کے ولی خان اور سندھ میں مقامی قوم پرست پارٹی کے جی ایم سید وغیرہ کا کردار قومی سلامتی کے خلاف تھا اوران ساری تحریکوں کے پیچھے روس موجود تھا، ایسے میں پاکستان کے لیے روس کو روکنا بہت ضروری تھا۔9/11کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ ملا عبدالسلام ضعیف کو پکڑ کر امریکہ کو دینا ایک انتہائی گھٹیا فیصلہ تھا۔ جنرل امجد کا کہنا تھا کہ امریکہ ہمیں ایف اے ٹی ایف میں لے کر چلا گیا ہے، آئی ایم ایف کے معاملات میں مشکلات پیدا کر رہا ہے اور بھارت کو افغانستان میں لاکر بٹھا دیا گیا ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کروارہا ہے۔ دوسری جانب پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران نے بتایا کہ جب میں اور دیگر اساتذہ نیب کی رہائی سے باہر آئے تو اس کے وقت ادارے کے عہدیداروں کو میڈیا پر آکر بیانات دینے پڑے، آخر اس اقدام کی ایسی کیا ضرورت پڑی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک چینل نے بعض معاملات سے متعلق مجھ سے کچھ باتیں منسوب کی تھی یہ ان کی جانب سے بد دیانتی تھی۔ مجاہد کامران نے کہا کہ نیب کے زیر حراست سینئر بیوروکریٹ فواد حسن فواد نے مجھے یہ کہا تھا کہ اگر میں وعدہ معاف گواہ بنتا تو ابھی تک حراست میں کیوں ہوتا۔ سابق وائس چانسلر کے مطابق وہ ابھی بھی اس بات پر قائم ہیں کے نیب کے حوالات کے کمروں اور واش رومز میں بھی سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے نوٹس کے بعد نیب کے رویے میں بہت نرمی آئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ میرے سے متعلق یہ بات کہ میری کمر میں درد ہے بالکل بے بنیاد ہے۔ اپنی اہلیہ کی تعیناتی کے حوالے سے مجاہد کامران کا کہنا تھا کہ اب تو میں ادارے میں نہیں ہوں، اگر میری اہلیہ میرٹ پر لاء کالج کی ڈین نہیں بنی تھیں تو اب ان کو نکال کیوں نہیں دیا جاتا۔