لاہور (ویب ڈیسک) ضمنی انتخابات کا مرحلہ بھی اپنے انجام کو پہنچا، شاید پہلی بار ایسا ہورہا ہے حکمران جماعت کو ان ضمنی انتخابات میں وہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی جو عموماً ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کو ہرصورت میں ایسے حاصل ہو جایا کرتی ہے جیسے یہ اس کا ”پیدائشی حق“ ہو۔ میں نے ایک بار لکھا تھا
معروف کالم نگار توفیق بٹ اپنے کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ ہماری حکمران جماعتیں دھونس دھاندلی ، ناجائز ذرائع اور طاقت وغیرہ کے بل بوتے پر ضمنی انتخابات جیتنے کے بجائے ایک ہی بار پارلیمنٹ سے یہ قانون منظور کروالیں کہ ضمنی انتخابات میں عوام صرف حکمران جماعت کے امیدواروں کو ہی ووٹ دینے کے پابند ہوں گے۔ دیگرجماعتوں کو ووٹ دینے والوں پر نیب کو چھوڑ دیا جائے گا، …. اب حکمران جماعت عام انتخابات میں اپنی کچھ جیتی ہوئی نشستیں کھونے کے بعد یہ کریڈٹ لے رہی ہے اس نے چونکہ ضمنی انتخابات میں سرکاری مشینری کا ناجائز استعمال نہیں کیا اس لیے اسے وہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی جو ہونی چاہیے تھی۔ تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے ”سرکاری مشینری“ ابھی تک پوری طرح سابق حکمران جماعت نون لیگ کے قرب میں مبتلا ہے، لہٰذا یہ بھی ممکن ہے سرکاری مشینری نے استعمال ہونے سے انکار کردیا ہو، اس کا اعتراف تو اگلے روز خود عمران خان نے بھی کیا کہ بیوروکریسی ان سے تعاون نہیں کررہی، خود وہ بھی بیوروکریسی سے ویسا ”تعاون“ نہیں کررہے جیسا سابق بددیانت حکمران کرتے تھے ،جس کے جواب میں بیوروکریسی بھی ویساہی تعاون ان سے کرتی تھی، …. سابقہ حکمران کھاتے تھے اور کھلاتے بھی تھے،
موجودہ حکمران اعظم خود کھاتا ہے نہ کسی کو کھانے دیتا ہے۔ ان حالات میں وہ یہ امید نہ کرے بیوروکریسی اس سے تعاون کرے گی۔ یا یہ کہ بیوروکریسی سے اپنے من پسند نتائج وہ حاصل کرلے گا۔ ….ویسے پی ٹی آئی ضمنیانتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرلیتی پھر شاید یہ کریڈٹ لیا جاتاہم نے چونکہ اڑھائی ماہ میں عوام کی خدمت کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، اس لیے عوام نے بھی ضمنی انتخابات میں ہمیں ووٹ دینے کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں،…. پی ٹیآئی کی حکومت فی الحال عوام کو کوئی ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ البتہ تکلیف پہ تکلیف دینے میں مسلسل کامیاب ہورہی ہے۔ اگلے روز وزیراعظم عمران خان فرمارہے تھے ”عوام چھ ماہ کی تکلیف برداشت کرلیں، اس کے بعد حالات ٹھیک ہوجائیں گے“۔ اس پر ہمیں ایک پریشان حال دوست یاد آگئے۔ وہ ایک نجومی کے پاس گئے، نجومی نے ان کا ہاتھ دیکھا اور فرمایا ”چھ ماہ تک تمہارے حالات بہت خراب رہیں گے“۔ دوست نے ایک آہ بھری اور پوچھا ” اس کے بعد کیا ہوگا؟“….اس کے بعد تمہیں اس طرح کے حالات برداشت کرنے کی عادت ہو جائے گی۔ نجومی نے جواب دیا، ….
میرے خیال میں خان صاحب بھی اپنے عوام سے شاید یہی کہنا چاہتے ہیں جو اپنی شرمیلی طبیعت کے باعث کھل کر وہ کہہ نہیں پارہے کہ چھ ماہ کی تکلیف برداشت کرلیں، اس کے بعد آپ کو یہ تکلیف برداشت کرنے کی عادت ہوجائے گی، خود خان صاحب کو بھی یہ تکلیف برداشت کرنے کی عادت ہوگئی ہے کہ وہ اپنے عوام کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں جس میں اپنی نااہل ٹیم کے باعث پوری کوشش کے باوجود وہ کامیاب نہیں ہورہے ہیں، …. بہر حال پی ٹی آئی کو یقیناً یہ کریڈٹ جاتا ہے ضمنی انتخابات جیتنے کے لیے اس نے واقعی ایسے ہتھکنڈے استعمال نہیں کیے جو سابقہ حکمران کرتے آئے ہیں،اور اس کے نتیجے میں ضمنی انتخابات میں ان کے امیدواروں کی جیت یقینی ہوتی تھی ۔…. کچھ عوامل اس کے علاوہ بھی تھے جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے پی ٹی آئی اپنے امیدواروں کو ضمنی انتخابات جتوانے میں کتنی سنجیدہ تھی ؟۔ سچ پوچھیں ہمیں تو یوں محسوس ہورہا تھا ملک کے اصلی فیصلہ سازوں کے ساتھ پی ٹی آئی کا کوئی ”معاہدہ “ ہوا ہے کہ ضمنی انتخابات میں زیادہ تر اپوزیشن امیدواروں کو جتوانے کا مشترکہ اہتمام کیا جائے گا ،….
اس ملک کے اصلی فیصلہ سازوں کا ”قومی فریضہ“ صرف حکمران جماعت کو خوش رکھنا ہی نہیں ہوتا، اپوزیشن جماعتوں کو بھی خوش رکھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ حکمران جماعت کے مقابلے میں کسی بھی وقت ان کی ضرورت محسوس کی جاسکتی ہے، ممکن ہے اس بار دھرنا نون لیگ سے دلوایا جائے۔ ویسے اس بار کچھ ایسا انتظام کیا گیا ہے دھرنے وغیرہ کی شاید ضرورت ہی محسوس نہ ہو، چند ارکان اسمبلی کو ادھر سے اُدھر کردینے سے ہی سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں، بعض اوقات تین تین مہینوں کے دھرنوں سے وہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے جو چند ارکان اسمبلی کو ”لوٹا“ وغیرہ بنا کر حاصل کیے جاسکتے ہیں، اس بار یہی انتظام کیا گیا ہے، البتہ اس انتظام میں اچھی خاصی مشکل یہ آسکتی ہے یہ وزیراعظم بلیک میل ہونے کی تھوڑی بہت ”صلاحیت“ بھی نہیں رکھتا، دوچاراور اسی طرح کے وزیراعظم اس ملک کے اصلی فیصلہ سازوں کی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹی کرواسکتے ہیں، لہٰذا اس حوالے سے اچھی خاصی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، …. جہاں تک پی ٹی آئی کے ضمنی انتخابات میں سنجیدہ ہونے کا تعلق ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے زیادہ تر کمزور امیدواروں کو ٹکٹیں جاری کی گئیں،
لاہور میں قومی اسمبلی کے دونوں حلقے بڑے اہم تھے۔ دونوں نشستیں مسلم لیگ (ن) نے بڑے آرام سے جیت لیں، اس کا کریڈٹ نیب کو بھی جاتا ہے، بلکہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی تمام تر کامیابی کا کریڈٹ نیب ہی کو جاتا ہے۔ ضمنی انتخابات سے عین پہلے شہباز شریف کو گرفتار نہ کیا جاتا نتائج تھوڑے بہت شاید مختلف ہوتے، ہمارے عوام نے اپنے جیسی ”فطرت“ رکھنے والے پنجاب کے سابق حکمران اعلیٰ کی گرفتاری کو شاید اتنا پسند نہیں کیا، اس کا بدلہ انہوں نے کم ازکم لاہور میں ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو شکست دلوا کر لے لیا، لاہور میں پی ٹی آئی نے کچھ زیادہ ہی کمزور امیدواروں کو میدان میں اتارا جس پر شاہد خاقان عباسی اور خواجہ سعد رفیق کو خان صاحب کا خصوصی طورپر شکرگزار ہونا چاہیے، اس سے بھی زیادہ شکرگزار اس بات پر ہونا چاہیے پنجاب میں ایک ایسے وزیراعلیٰ کو انہوں نے اللہ جانے کہاں سے اُٹھا کر بٹھا دیا جسے پنجاب میں پی ٹی آئی کی جانب سے ضمنی الیکشن لڑنے والوں کے نام بھی شاید معلوم نہ ہوں، …. لاہور کے حلقہ این اے 1311 کی نشست عام انتخابات میں
عمران خان نے خواجہ سعد رفیق سے چند سو ووٹوں سے جیتی تھی، ضمنی انتخابات میں سعد رفیق نے پی ٹی آئیکے امیدوار ہمایوں اختر خان کو ہزاروں ووٹوں سے ہرایا۔ خواجہ سعد رفیق کو قومی اسمبلی میں لانے کا کریڈٹ پی ٹی آئی کو ایک تو اس حوالے سے جاتا ہے کچھ مخلص دوستوں نے خان صاحب کو مشورہ دیا تھا یہ نشست وہ اپنے پاس رکھیں۔ یہ چونکہ اچھا مشورہ تھا، شاید اس لیے اسے رد کرنا ضروری تھا۔ اُوپر سے اس حلقے میں ” قدیم ترین سوراخ زدہ لوٹے“ کو ٹکٹ دیا گیا، اس کے بارے میں لوگوں کو خدشہ تھا جماعتیں بدلنے کی جتنی اسے عادت ہے یہ نہ ہو پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن جیت کر پھر کسی اور جماعت میں چلا جائے ، لہٰذا اسے رد کردیا گیا، پی ٹی آئی میں وہ چند روز پہلے اپنی طرف سے شاید صرف الیکشن جیتنے کے لیے ہی شامل ہوا تھا، اب اسے یقین آجانا چاہیے اللہ کو منظور نہ ہو تو پیسہ کام آتا ہے نہ پی ٹی آئی آتی ہے، حتیٰ کہ ”مرحوم جرنیل ابا جی “ کی ”پارٹی“ بھی کام نہیں آتی، کیونکہ اس کا کام صرف ”پارٹی“ کرنا ہے!!