کراچی (ویب ڈیسک )سندھ کے صحرائے تھر میں ریباری قبیلے کی خواتین گذشتہ سات صدیوں سے سوگ منا رہی ہیں۔یہ سوگ انھوں نے اپنے محسن حکمران دودو سومرو کی ہلاکت پر شروع کیا تھا جو سنہ 1300 عیسوی میں علاءالدین خلجی کے ساتھ جنگ میں مارے گئے۔ اس کے بعد سے ان خواتین نے سیاہ لباس پہن لیا
نامور صحافی ریاض سہیل اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور یہ روایت آج بھی جاری و ساری ہے۔ریباری کون ہیں؟ریباری قبائل اس وقت انڈین ریاست گجرات اور راجستھان کے علاوہ صوبہ سندھ کے ننگر پارکر، بدین اور عمر کوٹ اضلاع میں آباد ہیں، تاریخی حوالوں کے مطابق وہ راجپوت ہیں اور راجستھان کے رہائشی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ نے شکار کے دوران ایک ریباری لڑکی دیکھ لی اور قبیلے پر دباؤ ڈالا کہ اس کا رشتہ دیا جائے لیکن ریباری برادری نے انکار کر دیا اور رات کی تاریکی میں نقل مکانی کر گئے۔’ہندو اور مسلمان ووٹروں میں کوئی تفریق نہیں‘ریگستانی نخلستان زین آبادکچرے سے چاندی گھرتھرپارکر کی خواتین ڈمپر ڈرائیورزریباریوں کی سندھ آمدراجستھان سے نکل کر ریباری سندھ کے رن کچھ اور ننگر پارکر کے علاقے میں آئے، جہاں سومرا خاندان کے دودو سومرو کی حکومت تھی۔بدین کے رہائشی سومو بھگت کے مطابق دودو سومرو نے اس قبیلے کو تحفظ دیا جس کے بعد وہ اس کے راج میں بس گئے۔ادھر علاءالدین نے دودو سومر سے اس کی بہن باگھل بائی کا رشتہ مانگا۔ جب دودو سومرو نے انکار کر دیا تو علاءالدین نے اس پر چڑھائی کر دی۔ اس جنگ میں ریباری برادری نے دودو سومرو کا بھرپور ساتھ دیا، لیکن دودو سومرو کو شکست ہوئی اور وہ جنگ کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ان کے سوگ میں ریباری خواتین نے سیاہ لباس اوڑھ لیا۔بیراجی علاقوں میں سوگ کا خاتمہ ننگر پارکر کے علاوہ میرپور خاص اور بدین میں بھی ریباری برادری کے لوگ موجود ہیں لیکن وہ سیاہ لباس نہیں پہنتے۔ 1970 میں راجپوت اور سومرا خاندان نے ان کا سوگ ختم کرا دیا تھا۔ننگرپارکر کے چاندو ریباری کا کہنا ہے بیراجی علاقوں میں جو ریباری رہتے ہیں انھوں نے اپنا لباس تبدیل کر لیا ہے لیکن ہم یہیں رہ رہے ہیں، کیونکہ ان دنوں میں یہاں پبلک ٹرانسپورٹ نہیں تھیں اس وجہ سے اطلاع نہیں پہنچی۔’اگر ماں یا باپ مرجائیں تو تین روز بھی سوگ نہیں رہتا۔ لیکن یہ سوگ سینکڑوں سال سے چلا آ رہا ہے۔ ہم نے انھیں کہا کہ یہ سوگ ختم کرو، وہ کہتے ہیں کہ نہیں، یہ ہماری روایت ہے۔‘ننگر پارکر کے پہاڑی علاقوں میں دس کے قریب ریباریوں کے گاؤں ہیں دس سے 12 نوجوان میٹرک تک تعلیم یافتہ ہیں۔ ان میں سے صرف ایک سرکاری ملازم ہے جو پاکستان پوسٹ سروس میں چپڑاسی ہے۔ریباری خواتین کے زیورات اس قدر بھاری ہوتے ہیں کہ کئی بزرگ خواتین کے کان لٹکے ہوئے نظر آتے ہیں ریباری برادری کے لوگ مالی مویشی کا کاروبار کرتے تھے، دودھ، دھی، مکھن کے علاوہ جانوروں کی کھالوں، بھیڑوں کی اون کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، جنگلات کی تعداد میں کمی اور تھر میں مسلسل قحط سالی نے ان سے جانور چھین لیے۔
اب انھوں نے دوسرے کام کاج اختیار کر لیے ہیں۔ریباری لباس بھاؤ ریباری کہتے ہیں کہ یہ لباس ان کے آبا و اجداد پہنتے تھے اب کیسے چھوڑیں جب موت کے قریب پہنچ چکے ہیں یباری خواتین سیاہ گھاگھرہ اور رنگین چولی پہنتی ہیں جبکہ اس پر سیاہ چادر لی جاتی ہے۔ ان کے سوگ کا یہ عالم ہے کہ دلھن کو بھی سیاہ لباس پہنایا جاتا ہے۔ مرد لنگوٹا اور اس پر چھوٹی قمیض پہنتے تھے جس کے کناروں پر لیس لگی ہوئی ہوتی تھی اسے جھلوری کہا جاتا تھا، نوجوانوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنا لباس تبدیل کر لیا ہے جبکہ خواتین کا وہی قدیم لباس ہے۔گدو ریباری کے مطابق یہ مردوں کا لباس بھی خواتین گھروں میں تیار کرتی تھیں لیکن آج کی خواتین کو یہ بنانا نہیں آتا کچھ ہی برزگ خواتین ہیں جو بنا سکتی ہیں۔دس گاؤں کی آبادی میں بزرگ کجو اور ان کے بھائی بھاؤ ریباری سمیت صرف تین لوگ ابھی تک یہ روایتی لباس پہنتے ہیں، کجو کے مطابق نوجوان اس لباس کو پہننا پسند نہیں کرتے اور شلوار قمیض پہنتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’ہم سدھر گئے ہیں بزرگو، تم نہیں سدھرو گے لنگوٹے میں پھرتے رہو گے۔‘بھاؤ ریباری کہتے ہیں کہ یہ لباس ان کے آبا و اجداد پہنتے تھے، اب کیسے چھوڑیں جب موت کے قریب پہنچ چکے ہیں۔خواتین کے جسم پر سانپ بچھو، تاروں اور چاند سمیت مختلف علامات کے ٹیٹوز بنے ہوئے ہوتے ہیں ۔
یباری خواتین گھر گرھستی کے کاموں میں مہارت رکھتی ہیں۔ وہ کڑھائی کرتی ہیں، جو چادروں، تکیوں کے علاوہ کھڑکی کے پردوں پر بھی نظر آتی ہے۔ باورچی خانے کی سجاوٹ سے لے کر کھڑکیوں پر کچی مٹی گوندھ کر نقش و نگار بنائے جاتے ہیں۔ان خواتین کے جسم پر سانپ بچھو، تاروں اور چاند سمیت مختلف علامات کے ٹیٹوز بنے ہوئے ہوتے ہیں، جو بلوغت کی عمر میں بنائے جاتے ہیں جن کا مقصد جادو اور بیماری سے بچنا ہوتا ہے۔ریباری خواتین کے زیورات بھی مخصوص ڈیزائن کے ہوتے ہیں جس میں موتیوں کے بجائے خالص سونا اور چاندی استعمال ہوتی ہے، یہ اس قدر بھاری ہوتے ہیں کہ کئی بزرگ خواتین کے کان لٹکے ہوئے نظر آتے ہیں۔ایک بزرگ سیتا ریبارن نے بتایا کہ پہلے کلو ڈیڑھ چاندی اور حیثیت کے حساب سے سونا دیا جاتا تھا لیکن مسلسل قحط سالی میں ان کے جانور مر گئے اب مشکل سے کپڑے ہی دیے جاتے ہیں۔ریباری سخت پردے کے قائل ہیں۔ اس قدر کہ شادی میں بھی صرف مرد ہی دولہا کے ہمراہ جاتے ہیں جبکہ رخصتی کے وقت دلھن کے ساتھ ماموں یا بھائی آتا ہے جو لڑکی کو چھوڑ کر واپس جاتا ہے۔ بچپن میں کچے رشتے کر لیتے ہیں، لڑکی کے جوان ہوتے ہیں رختصی کر دی جاتی ہے۔تھرپارکر کے قریبی ضلع بدین میں ریباری مرد و خواتین دونوں کا لباس تبدیل ہو چکا ہے۔ تھر میں آنے والے سالوں میں یہ لباس اور روایت تبدیل ہو جائے گی اور ریباری قبیلہ اپنی انفردیت کھو بیٹھے گا۔