لاہور(ویب ڈیسک)انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک میں اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ ہی وہ جوش و جذبہ ٹھنڈا پڑ گیا جو گذشتہ چار برسوں سے ٹیپو سلطان کے یوم ولادت کے جشن کی مخالفت میں نظر آ رہا تھا۔ریاست میں سیاسی بساط کی تبدیلی کے اثرات سکیورٹی انتظامات پر بھی نظر آئے۔ٹپیو سلطان کے یوم ولادت کے موقعے پر امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے 57 ہزار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔ ان میں سے تقریباً تین ہزار پولیس اہلکاروں کو ریاست کے دارالحکومت بنگلور میں تعینات کیا گیا تھا۔
ریاست کے وزیر اعلیٰ اور جنتا دل (سیکولر) کے رہنما ایچ ڈی کمارسوامی اس سلسلے میں سیکرٹریٹ میں منعقدہ اہم پروگرام میں شامل نہیں ہوئے۔ انھوں نے اپنی صحت کو غیر موجودگی کا سبب قرار دیا۔پروگرام کے سرکاری دعوت نامے میں بھی ان کا نام نہیں تھا۔کمارسوامی سے پہلے کانگریس رہنما سدھا رمیا کرنٹک کے وزیر اعلیٰ تھے اور وہ ہر سال پروگرام میں شریک ہوتے تھے۔توہم پرستی پر یقین نہیں’:نامہ نگاروں نے کمارسوامی کی غیر موجودگی کے حوالے سے ان کے گذشتہ سال کے بیان کی یاد دلائی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’یوم پیدائش منانے سے سماج کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘بہر حال کمارسوامی نے ٹپیو سلطان کے ترقیاتی کاموں اور نئی دریافت کی کوششوں کے لیے ان کی تعریف کی۔كمارسوامی نے ایک بیان میں کہا: ’(ڈاکٹروں کے مشورے پر پروگرام میں حصہ نہیں لینے کا) کوئی خاص معنی تلاش کرنا غیر ضروری ہے۔ اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ ایسا میں اپنی کرسی کے جانے کے خوف سے کر رہا ہوں۔ میرا توہمات میں یقین نہیں۔‘انڈیا میں برسر اقتدار ہندو قوم پرست پارٹی بی جے پی ہیمشہ ٹپیو سلطان کی سالگرہ کے جشن کی شدومد کے ساتھ مخالفت کرتی رہی ہے لیکن اس بار ان کی مخالفت میں بھی شدت نظر نہیں آئی۔
دارالحکومت بنگلور میں ایک دن پہلے ایک چھوٹا سا مظاہرہ کیا گيا اور بی جے پی کے لیے سیاسی لحاظ سے اہم اضلاع کوڈاگو اور میسور میں بھی امن و امان قائم رہا البتہ چند لوگوں نے ٹیپو سلطان کے خلاف نعرے ضرور لگائے۔ٹپیو سلطان نے سنہ 1766 میں انگریزوں کے خلاف میسور کی پہلی جنگ میں اپنے والد حیدر علی کے ساتھ حصہ لیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر 15 سال تھی۔ سنہ 1799 میں سریرنگاپٹنم کی چوتھی جنگ کے دوران ٹیپو سلطان کی میدان جنگ میں ہی موت واقع ہوئی۔بی جے پی کے ترجمان ایس پرکاش نے کہا: ’مخالفت کے سر دھیمے کرنے کی بات نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم ٹیپو کی مخالفت کرتے ہیں تو ہم ہڑتال کی کال دیں اور نظام کے لیے مشکلات پیدا کریں۔ ہم صرف اس حکومت کے دوہرے معیار کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔اس موقعے پر وزیر اعلیٰ خود موجود نہیں تھے اورکانگریس پارٹی سے آنے والے نائب وزیر اعلیٰ بیرون ملک چلے گئے تھے۔سوال یہ ہے کہ آیا اب سیاسی جماعتوں کے لیے ٹپیو سلطان کا نام ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں رہا؟میسور کے تاریخ دان پرتھوی دتّا چندر شوبی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بظاہر ایسا ہی نظر آ رہا ہے۔‘دھارور یونیورسٹی میں سوشل سائنسز کے پروفیسر ہریش راماسوامی کہتے ہیں کہ ’طرفین تنازعات سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘پہلے ہی فائدہ لے چکے ہیںپرتھوی دتّا نے کہا:
’كمارسوامی اس مسئلے کی مخالفت کر چکے ہیں لہذا جے ڈی ایس کے لیے اس کی اہمیت نہیں رہی۔ اس پارٹی نے کانگریس کی طرح ٹیپو کے پرشکوہ جشن پر بھی زیادہ زور نہیں دیا ہے۔ کانگریس کے ڈاکٹر جی پرمیشور (نائب وزیر اعلی ) کے لیے بھی یہ اس قدر اہم نہیں جتنا یہ سدھا رمیا کے لیے تھا۔‘انھوں نے مزید کہا: ’جس فائدے کی انھیں امید تھی وہ پہلے ہی مل چکی ہے اور اب زیادہ حاصل کرنے کے لیے نہیں ہے۔ اب یہ صرف سیاسی شو کا معاملہ ہوگا۔ جے ایس ڈی اور کانگریس ایک دوسرے سے ہاتھ ملا چکے ہیں اس لیے ووٹ کی تقیسم کا بھی خطرہ نہیں۔ اس صورت حال میں کچھ کرنا سیاسی خطرات مول لینا ہوگا۔‘حکمت عملی میں تبدیلی کیوں؟ہم ہندو نہیں، ہمارا مذہب الگ ہے’لیکن پروفیسر راماسوامی کا اس معاملے پر مختلف موقف ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا نہیں ہے کہ ٹیپو سلطان کے معاملے سے سیاسی جماعتوں کو فائدہ نہ پہنچا ہو۔ اب کانگریس اور جے ڈی ایس دونوں ہی اقلیتوں کی ناز برداری کے الزام سے بچنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی بھی ایسی رائے عامہ نہیں بننے دینا چاہتی ہے کہ وہ لوگوں کو تقسیم کر رہی ہے کیونکہ وہ اکثریت کے ووٹ کو متحد کرنا چاہتی ہے۔ پرانے میسور علاقے کے لوگ جانتے ہیں کہ ٹیپو نے مندروں کی ترقی میں بھی خاصی مدد کی تھی۔ اس لیے ٹیپو مسئلہ نہیں بن سکتے۔‘بی جے پی نے ہمیشہ ہی ٹیپو سلطان کو سخت گیر مذہبی بادشاہ کے طور پر پیش کیا ہے۔لیکن سابق وزیر اعلیٰ سدھارميا نے صحافیوں سے کہا: ’(ٹیپو نے) انگریزوں کے خلاف چار جنگ لڑیں۔ وہ اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے۔ ان کے وزیر اعلی کون تھے؟ ایک برہمن پرنيا۔ ان کا وزیر خزانہ ایک ہندو تھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ہندوؤں کے مخالف تھے جبکہ انھوں نے شریرنگاپٹنم اور شرنگیری کے مندروں کو تعاون دیا اور ریشم بھی انھی کے زمانے میں فروغ پایا۔