لاہور (ویب ڈیسک) کسی بھی سرکار کے شروع کے سو دن بہت اہم ہوتے ہیں۔ کہنے کو تو سو دن کچھ بھی نہیں تاہم کم از کم سمت کا تعین ہو جاتا ہے۔ کئی سربراہان نے اقتدار میں آنے سے قبل سو دن کا پروگرام اور ایجنڈا عوام کو دیا۔ نامور خاتون صحافی اینکر اور کالم نگار عاصمہ شیرازی اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔سنہ 1933 میں صدارت سنبھالنے والے امریکی صدر روزویلٹ کے سو دن کا پروگرام کافی مقبول ہوا۔ صدر روزویلٹ نے پہلے سو دنوں میں جو قانون سازی کی اسے تاریخی اور امریکی ترقی میں اہم مانا گیا ۔ اُن کے بعد سے اب تک کسی بھی امریکی حکومت کے پہلے سو دنوں کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ تحریک انصاف حکومت کے پہلے سو دن کی کارکردگی کو اگر قانون سازی کے اس سانچے میں تولا جائے تو فی الحال اس کا کہیں شائبہ تک نہیں ملتا۔۔ دوسری اہم مثال ملائشیا کے عظیم اور ہمارے محبوب وزیراعظم کے آئیڈیل مہاتیر محمد کی ہے۔ مہاتیر نے سو دنوں کا ایک منصوبہ اقتدار میں آنے سے قبل پیش کیا تھا مگر بعد میں وہ نامکمل رہ گیا۔ مہاتیر محمد نےتو عوام کے سامنے تسلیم کیا کہ سو دن کے لئے یہ ایک ناقابل عمل ایجنڈا تھا مگر کیا ہمارے محبوب و مقبول وزیراعظم ایسا کریں گے۔ پاکستان میں بھی ایسی ایک مثال موجود ہے یوں تو ذوالفقار علی بھٹو نے سو دن کا کوئی ایجنڈا انتخابات سے قبل عوام کو نہیں دیا تاہم اُن کا ‘روٹی کپڑا اور مکان’ کا نعرہ مقبول عام ہوا۔ بھٹو صاحب کی حکومت کے پانچ سالوں کی کارکردگی اور کامیابیوں کا احاطہ کرنا مشکل ہے
تاہم پہلے چند ماہ میں جو کامیابیاں ایک ٹوٹے پھوٹے اور ادھورے پاکستان نے حاصل کیں انہیں نا سراہنا تاریخ کے ساتھ ایک زیادتی کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ بھٹو صاحب نے 20 دسمبر 1971 میں اُس وقت اقتدار سنبھالا جب پاکستان انتہائی نازک دور سے گزر رہا تھا۔ ملک دو لخت ہو رہا تھا۔ پاکستان کے لگ بھگ 90 ہزار فوجی ہندوستان کی تحویل میں تھے ۔ شکستہ پاکستان کی ذمہ داری بھٹو کو سونپی گئی تو پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے فقط چند ماہ کے اندر یعنی جولائی 1972 میں لگ بھگ 90 ہزار قیدی اور انڈیا کے قبضے سے پانچ ہزار مربع میل قطعہ اراضی کو چھڑوایا ۔ محض پندرہ دن کے اندر صنعتوں کو قومیانے اور نئی لیبر پالیسی کا اجرا کیا جس میں مزدوروں کو پہچان اور اختیار دیا گیا۔ ٹریڈ یونینز کا اجرا، اراضی اصلاحات جس کے تحت دس لاکھ ایکڑ زمین بے زمین ہاریوں کو دینے کا اعلان کیا ۔ دو ہزار سرکاری افسران کو بدعنوانی کے الزامات پر بر طرف کیا۔ تین مارچ 1972 کو اُس وقت کے آرمی چیف کو برطرف کر کے جنرل ٹکا خان کو نیا آرمی چیف مقرر کیا تاکہ وہ صرف فوج کی بحالی کا کام کر سکیں اور سیاست میں مداخلت نہ کریں۔ بھٹو نے فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا اور نئے آئین کی تیاری کا کام نئی اسمبلی کو سونپ دیا۔ پاکستان کا پہلا جمہوری، پارلیمانی اور وفاقی آئین متفقہ منظور کرانا ذوالفقار علی بھٹو کا ایک عظیم کارنامہ تھا۔ جنوری 1972 میں جب ملک جنگ کی تباہ کاریوں سے پوری طرح نہیں نکلا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ملتان میں سائنسدانوں اور انجنئیرز کی کانفرنس بلائی۔۔ بھٹو کا سوال سائنسدانوں سے یہ تھا کہ ‘ہم ایٹم بم بنانے جا رہے ہیں۔۔ بتائیں کتنے وقت میں دستیاب ہوگا ۔ تین سال کی ڈیڈ لائن مقرر کی اور شکستہ قوم کے اس راہنما نے قوم کے اعتماد کو واپس لانے کا عزم کیا۔ ایٹم بم بنانے کا کام پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کو سونپ دیا گیا ۔ یہی نہیں، کراچی نیو کلئیر پاور پلانٹ ون کا سنگ بنیاد بھی بھٹو نے اپنے اقتدار کے پہلے ہی سال کے خاتمے سے پہلے ہی رکھ دیا۔ اور پھر پہلے چند ماہ میں 6 ہزار 5 سو اسکول، 9 سو مڈل اسکول، 407 ہائی اسکول، 21 جونیئر کالجز، فاصلاتی تعلیم کی منفرد یونیورسٹی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، گومل یونیورسٹی، انٹرنیشنل نتھیا گلی کالج برائے فزکس، انسٹیٹوٹ آف فزکس، انجینئرنگ کونسل، کیڈٹ کالج رزمک شمالی وزیرستان، ملتان، بہاولپور، خیر پور یونیورسٹیز، اکادمی ادبیات، وفاقی ادارہ برائے سیلاب، نیشنل ڈوویلپمنٹ فنانس کارپویشن، پورٹ قاسم، پاکستان اسٹیل ملز جیسے ادارے قائم کیے۔۔ ۔ پاسپورٹ اصلاحات، بینکاری سے متعلق اصلاحات۔۔۔ اور ساتھ ہی بہترین خارجہ پالیسی، جس کا احاطہ ایک کالم میں ناممکن ہے۔۔۔ کیونکہ جہاں امریکہ نے آنکھیں دکھائیں بھٹو نے روس اور چین سے قریبی تعلقات قائم کر لیے اور او آئی سی ممالک کو لاہور میں مسلم اُمّہ کو اتحاد کے پرچم تلے اکٹھا کر لیا ۔ بہت سے مسائل اُس دور کے بھی ہوں گے مگر یہ وہ دور تھا جس میں قوم کو ایک سمت ملی، نظریہ ملا، آئین ملا۔ ایک الگ ریاست کی خودمختار شناخت، سویلین بالادستی کا خواب انہی چند سالوں میں تعبیر کو پہنچا ۔ عظیم راہنمائی محض نعروں اور نمائشی کاموں سے نہیں بلکہ ادارجاتی تصور سے مضبوط ہوتی ہے۔ یہ تھی وہ تبدیلی جو ذوالفقار علی بھٹو لے آیا ۔ عمران خان صاحب نے اقتدار میں آنے سے پہلے سو دن کا ایجنڈا متعارف کرایا جس کا اولین موضوع طرز حکومت میں تبدیلی مقرر کیا گیا۔ ان سو دنوں میں طرز حکمرانی میں کیا تبدیلی واقع ہوئی یہ آپ خود جائزہ لیجئے ۔ پنجاب میں ایک سے زائد انتظامی سربراہان، پاکپتن سے لے کر پنجاب اور اسلام آباد کے پولیس چیفس کی تبدیلی، بڑے پیمانے پر پنجاب بھر میں پولیس کے شعبے میں سیاسی مداخلت، خود اپنی حکومت میں بدعنوانی کے الزامات لیے عناصر، تاحال معاشی محاذ پر عدم کامیابی اور یو ٹرن کے متضاد بیانات۔۔ دیگر موضوعات میں وفاق پاکستان کا استحکام، معیشت کی بحالی، سماجی خدمات میں انقلاب، قومی سلامتی کی ضمانت وغیرہ ہیں۔۔۔ مگر اب تک عمل تو دور کی بات سمت کا تعین بھی نظر نہیں آتا۔ احتساب کا اٹل اعلان بھی اپنی جگہ ہے مگر اس بارے بھی پیش رفت کاغذی کارروائی تک محدود ہے البتہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔۔ کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والا جتھہ اس وقت شکنجے میں آ چکا ہے۔ مذہبی جنونیت اور مذہب کے ٹھیکے داروں کے خلاف کاروائی کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ کام صرف کپتان ہی کر سکتا ہے۔ اگر انہوں نے یہ کام کر لیا تو کپتان سو دن تو کیا ہزار دن بھی آپ کے ہوں گے ۔ کپتان کی کامیابی کے لئے میں دعاگو ہوں کیونکہ کپتان کی کامیابی، جمہوری اور پارلیمانی نظام کی بقا ہے ۔ پُرانی کہانیوں میں جیسے بادشاہ کی جان طوطے میں ڈال دی جاتی تھی اب کی بار اس نظام کی جان اس وزیراعظم میں ڈال دی گئی ہے۔۔ لہٰذا آئیے دعا کریں کہ یہ نظام اور یہ کپتان چلتا رہے