اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ پچھلے چند دن پاکستان کی سیاست کے لیے تلخ رہے، تاہم جو کچھ عمران خان نے کہا اسے ویلکم کرتے ہیں اور قدر کی نگاہ دیکھتے ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ ’عمران خان نے جو فیصلہ کیا اس میں نہ کسی کی جیت ہے نہ ہار، اگر کسی کی جیت ہوئی ہے تو وہ پاکستان کی ہوئی ہے اور ہمیں اس کا اعتراف کرنا چاہیے اور میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کی پاکستان کی جیت امن، جمہورت، قانون کی بالادستی اور اپنے اداروں پر اعتماد میں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پچھلے چند دن پاکستان کی سیاست کے لیے تلخ رہے، تاہم جو کچھ عمران خان نے کہا اسے ویلکم کرتا ہوں اور قدر کی نگاہ دیکھتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی بیان بازی اور گولہ باری ہوتی رہتی ہے لیکن جب یہ سیاسی دشمنی میں بدلنے لگے اور عوام کا نقصان ہو تو یہ عوام دشمنی میں آتا ہے، میں جڑواں شہروں کے عوام معذرت کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اس سیاسی تلخی سے انہیں روز مرہ معاملات میں مشکلات سامنا کرنا پڑا، موٹروے سے جو لوگ اسلام آباد پر دھاوا بولنا چاہتے تھے ان سے بھی معذرت خواہ ہیں، جبکہ میں انہیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اس رکاوٹ کا سبب حکومت نہیں تھی بلکہ اسلام آباد بند کرنے کے اعلان پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ ’ہم نے کسی جلسے سے لے کر جلسی تک کسی کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہیں کی، تحریک انصاف کے 2014 کے دھرنے میں بھی ہم نے انہیں نہیں روکا، اس بار بھی حکومت نے معاملات صلح صفائی سے حل کرنے کی کوشش کی۔‘
انہوں نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’پرویز خٹک نے غلط روایت قائم کی، اگر کوئی پشاور میں لاؤ لشکر کے ساتھ آکر پرویز خٹک کا استعفیٰ مانگے تو کیا ردعمل ہوگا؟ اگر کوئی پشاور بند کرنے کی بات کرے تو پی ٹی آئی کا کیا ردعمل ہوگا؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس تمام دورانیے میں نہتے پولیس اہلکاروں نے حکومتی رٹ بحال رکھی جس پر ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں، اسلام آباد اور پنجاب کی پولیس نے ثابت کیا کہ وہ قانون نافذ کرنا جانتے ہیں، پولیس مسلم لیگ (ن) کی نہیں پاکستان کی ہے اور سیاسی مخالفین کے خلاف پولیس کا کبھی استعمال نہیں کیا، جو بھی اقدامات اٹھائے وہ اسلام آباد کو مفلوج ہونے سے بچانے کے لیے اٹھائے، جبکہ کاش آنسو گیس استعمال کرنے کی نوبت نہ آتی۔‘
چوہدری نثار نے کہا کہ ’عدالتی فیصلوں پر کبھی عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا، ہم اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، سراج الحق کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے پنجابی اور پختون کی تفریق کے تاثر کو رد کیا اور یہی ایک اچھے سیاستدان کا کام ہوتا ہے کہ وہ جلتی پر تیل ڈالنے کا کام نہیں کرتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان سے 44 سال پرانی دوستی ہے، تاہم گزشتہ دھرنے کے بعد سے عمران خان سے تعلق نہیں رہا، عمران خان مجھے ضمیر کی آواز سننی کی تلقین کرتے ہیں تو میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں ہر کام ضمیر کی آواز پر کرتا ہوں۔‘
پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم نواز شریف نے پہلے دن سے ہی کہا کہ تحقیقات ان سے شروع کی جائیں، انہوں نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کو خط بھی لکھا، لیکن الزام لگانے سے فیصلہ نہیں ہوجاتا، تاہم آج عمران خان کا آج کا فیصلہ ایک سیاستدان کا فیصلہ ہے اور اگر سیاستدان اگر عدالتی فیصلے تسلیم کرنے سے انکار کریں تو تباہی آتی ہے۔‘