لاہور (ویب ڈیسک) جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے اپنے کسی گزشتہ کالم میں بھی اس کا ذکر کیا تھا۔ آج بارِ دگر اس کا تذکرہ اس لئے کرنا پڑا کہ اس موضوع پر حال ہی میں ایک نئی تحقیق امریکہ میں ایک کتابی صورت میں شائع ہوئی ہے۔ کتاب کا نام ہے : نامور عسکری ماہر اور مشہور کالم نگار لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ’’دِل: ایک تاریخ‘‘ (Heart: A History)۔۔۔ مصنف کا نام ڈاکٹر سندیب جوہر ہے جو ہندو ہیں اور برسوں پہلے جا کر امریکہ میں بس گئے تھے۔اس کتاب کا سرسری مطالعہ کرنے کے بعد اس کالم کو تحریر کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہندو ۔ مسلم آئیڈیالوجی یعنی دو قومی نظریئے کے اس فرق کو واضح کیا جائے جو تخلیقِ پاکستان کا باعث بنا تھا۔ جہاں مسلمان خدا کو قادرِ مطلق مانتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے، وہاں ہندو ابھی تک فیصلہ نہیں کر پایا کہ اس کی موت کا ذمہ دار بھگوان ہے یا وہ خود ہے۔ مغرب نے تو اول روز سے فیصلہ کیا ہوا کہ خدا کا کہیں وجود ہی نہیں۔بس ایک بڑا دھماکہ (Big Bang) تھا جو خود بخود ہو گیا تھا۔۔۔ ’’کُن فیکون‘‘ کہنے والا کوئی نہ تھا خود ہی لفظ ’’کن‘‘ کی آواز کہیں سے آئی تھی اور اس کے بعد آج تک مسلسل ’’فیکون‘‘ چلا آ رہا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے فلاسفر، سائنس دان، دانشور اور طبی ماہرین یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ’’بِگ بینگ‘‘ کی تھیوری کو کس طرح سپوٹ کریں۔ چونکہ اس کتاب کا ہندو مصنف F.Sc کرنے کے بعد امریکہ چلا گیا تھا اور وہیں علمِ طب (میڈیکل سائنس) کی کئی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں اور امراضِ قلب کی تحقیقات کا خصوصی میدان منتخب کیا اس لئے اس پر مغربی فلسفہ ء حیات اور تعلیم و تدریس کا اثر غالب ہے۔ وہ بزعم خود بڑے طمطراق سے استدلال کرتا ہے کہ جب کسی انسان کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کے ’’دل کی صحت‘‘ کمزور پڑ جاتی ہے۔ یہ ’’دل کی صحت‘‘ کوئی نیا خیال نہیں۔۔۔ مشرق کے شعرا کی تو آدھی شاعری ہی دل کی صحت اور بیماری کے گرد گھومتی ہے۔ تاہم ہمارے ان مشرقی شاعروں کے ہاں ’’دل‘‘ کی تشریح (Defination) وہ نہیں جو مغرب کے معالجینِ امراضِ قلب کی ہے۔۔۔ ڈاکٹر سندیپ اسی مغربی فلسفے کا قائل ہے اور اس کتاب میں لکھتا ہے : ’’تقریباً ایک سو سال پہلے ایک جرمن سائنس دان کارل پیرسن (Karl Pearson) ہر روز قبرستان جایا کرتا تھا۔ وہ یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ ایک ہی خاندان کے افراد جب مر جاتے ہیں اور ان کو دفنا دیا جاتا ہے تو بلحاظِ عمران کی اموات میں کتنا فرق ہوتا ہے، کیا کسی خاندان کے بیشتر افرادِ خاندان نو عمری میں مر جاتے ہیں یا وسطانی عمروں میں یا بوڑھے ہو کر اور 80،90 برس تک کی زندگی پا کر موت کا ذائقہ چکھتے ہیں؟ ۔۔۔ کارل پیرسن نے اس سٹڈی کے دوران ایک حیرت انگیز حقیقت یہ بھی نوٹ کی کہ بعض میاں بیوی کی قبروں پر جو کتبے نصب تھے اور جن پر ان کی تاریخِ وفات لکھی ہوئی تھی ان کی عمروں میں زیادہ فرق نہیں تھا، یعنی میاں اگر بیوی کے انتقال کے بعد دو سال تک جی سکا تو بعض بیویاں، شوہروں کے انتقال کے چھ آٹھ ماہ کے اندر اندر ہی خدا کو پیاری ہو گئیں تھیں‘‘۔ ’’کارل نے ان مرنے والوں کے خاندانوں کا سراغ لگایا، ان کے زندہ رشتہ داروں کے انٹرویو کئے اور معلوم کیا کہ مرنے والوں کے درمیان میاں بیوی کے تعلقات کیسے تھے؟۔۔۔ اسے معلوم ہوا کہ ایسے جوڑے (Couples) جن کے عرصہ ء وفات میں زیادہ فرق نہیں تھا، وہ ایک دوسرے کو نہ صرف یہ کہ دل و جان سے چاہتے تھے بلکہ ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ چنانچہ کارل نے اس سٹڈی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ: ’جن دو انسانوں کے درمیان شدید محبت کا رشتہ قائم ہووہ ایک دوسرے کی جدائی کے بعد زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتے۔ ان کے دل اندر سے زخمی ہو جاتے ہیں اور یہ زخمی دل، تندرست دل کے مقابلے میں زیادہ دیر تک جسم کے ساتھ نہیں چل سکتا اور ہمت ہار دیتا ہے۔۔۔ یہ بیماری ء دل صرف دو چاہنے والے انسانوں کی جدائی کا ہی نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ دل کی صحت جن اور اسباب کی وجہ سے نحیف و نزار ہو کر کام کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ غربت، میاں بیوی کے جھگڑے، دو انسانوں یا طبقاتِ آبادی کے درمیان سوچوں کا اختلاف، ذرائع آمدن میں کمی بیشی اور قلبی سکون کا فقدان ہیں‘‘۔ ’’دل۔۔۔ ایک تاریخ‘‘ کا مصنف اس پیش لفظ کے بعد اپنی کتاب میں دل کی بیماریوں کی تفاصیل بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے اپنی طویل پیشہ ورانہ سروس کے دوران ہزاروں مریضوں کو دیکھنے اور ان کا معائنہ کرنے کا اتفاق ہوا جن میں ہر عمر، جنس، رنگ و نسل، عقیدے، تعلیم اور پروفیشن کے لوگ شامل تھے۔ ان سب میں 60فیصد سے زیادہ ایسے لوگ تھے جن میں کسی نہ کسی وجہ سے ان کے دل کی صحت اور کیفیت دگرگوں تھی، وہ کسی بھی وقت آخری سانس لے سکتے تھے۔۔۔ پھر یہی ہوا کہ ڈاکٹر سندیپ کی پیشگوئی کے عین مطابق جلد ہی ان پر دل کا دورہ پڑا اور وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اگر آپ امراضِ قلب کے مغربی اطبّا (فزیشن اور سرجن دونوں) کی سٹڈیز کا مطالعہ کریں تو وہ لوگ یہ تو بتا سکتے ہیں کہ ان کا دل کن وجوہات کے سبب کمزور ہوا اور بالآخر کام کرنا چھوڑ گیا لیکن یہ حکم نہیں لگا سکتے کہ اگر وہ ان امراض (دو طرفہ محبت، عشق، غربت و افلاس، اعصابی دباؤ، اپنے پیاروں کی طرف سے بے وفائی وغیرہ) کا شکار نہ ہوتے تو کیا ان کی عمر طویل تر ہو سکتی تھی؟۔۔۔ کیا اگر ان کی جیب بھری ہوتی، اگر کوئی اعصابی تناؤ نہ ہوتا، اگر قلبی سکون کی فراوانی ہوتی اور اگر اختلاف رائے کا ’’عارضہ‘‘ لاحق نہ ہوتا تو وہ زیادہ طویل عمر پا سکتے تھے؟۔۔۔جب ڈاکٹر سندیپ سے ایک مسلمان امریکی نے ایک انٹرویو میں یہی سوال پوچھا تو سندیپ ٹھٹک کر رہ گیا۔ کہنے لگا: ’’ہم ڈاکٹر لوگ نہ کسی مریض کو بتاتے ہیں اور نہ ہی ہمیں خود معلوم ہوتا ہے کہ کس مریض نے جلدی مرنا ہے اور کس نے تادیر زندہ رہنا ہے‘‘۔۔۔ یہ سن کر امریکی مسلمان نے کہا کہ : ’’آپ ڈاکٹروں سے تو ہمارا یہ عقیدہ ہی کہیں زیادہ امید افزا ہے کہ موت کا چونکہ ایک دن معین ہے اس لئے اس سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ اس نے جب آنا ہے آ جائے گی‘‘۔۔۔ مسلمان کا یہ عقیدہ اور ایمان کسی بھی غیر مسلم کے عقیدے اور ایمان سے زیادہ اطمینان افزاء ہے۔۔۔ حضرت علیؓ کایہ قول کہ : ’’جب تک مقررہ لمحہ نہیں آ جاتا تب تک موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے‘‘ اس بحث میں حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے!