لاہور (ویب ڈیسک) زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر صاحب نے ویلنٹائن ڈے کو مسلمان کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے اسے سسٹرز ڈے کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انگریزی عیسائیوں کی زبان ہے اور برصغیر میں ایک دور میں اس کے خلاف خاصے فتوے بھی جاری کئے جاتے رہے ہیں۔ نامور کالم نگار ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ہمیں وائس چانسلر کے اسلام پر کوئی شبہ نہیں ہے، لیکن اگر وہ سسٹرز ڈے کے لئے کوئی عربی یا فارسی اصطلاح استعمال کرتے تو بہت سے لوگ انہیں اس دور کا ولی قرار دے دیتے۔ امریکی آئین کی بنیاد تین اصولوں پر ہے، جنہیں ہر انسان کا پیدائشی حق قرار دیا جاتا ہے،یعنی ہر فرد کی زندگی کو تحفظ حاصل ہونا چاہئے۔ اسے آزادی کی گارنٹی ہو اور اسے خوشی کی جستجو سے کوئی نہ روکے۔ ہمارے ہاں ٹریفک کے حادثات، جعلی ادویات، دہشت گردی کے علاوہ بے شمار عوامل زندگی کو غیر محفوظ رکھتے ہیں۔ آزادی کا تصور اکثر نعروں تک محدود نظر آتا ہے، جبکہ خوشی کی جستجو کو تو باقاعدہ حرام سمجھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ ممتاز مفتی صاحب اس سلسلے میں نیک خواتین سے خاصے شاکی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے شوہروں کی زندگی میں جب بھی کوئی خوشی کا لمحہ آتا ہے ان کی نیک بیویاں بروقت انہیں عذاب قبر یاد دلا دیتی ہیں۔ یوں انہیں عین وقت پر جہنم میں گرنے سے بچا لیتی ہیں۔ وائس چانسلر صاحب کی طرح ہم بھی ویلنٹائن ڈے کے سخت خلاف ہیں، کیونکہ ان کی طرح ہماری عمر بھی پچاس سے زیادہ ہو چکی ہے۔اس عمر میں انسان اگر خود خوش ہونے سے پرہیز نہ کر سکے تو کم از کم دوسروں کو خوش ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ہم اپنے بچوں کو میر تقی میر اور غالب کی غزلیں پڑھاتے ہیں۔ وہ ریڈیو پر فیض احمد فیض اور پروین شاکر کی رومانویت میں ڈوبی ہوئی شاعری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہالی وڈ اور بالی وڈ کی تقریباً ہر فلم اور گانے میں محبت اور عشق کی عظمت بیان کی جاتی ہے۔ نوجوانوں کو ہر طرح سے باور کرایا جاتا ہے کہ عشق کے بغیر زندگی کا کوئی مطلب نہیں ہے، مگر جب یہ نوجوان عشق کر بیٹھتے ہیں تو اکثر ان کا انجام خاصا عبرتناک ہوتا ہے۔ پنجاب کی رومانوی لوک داستانیں بھی یہی بتاتی ہیں کہ طبعی موت عاشقوں کے حصے میں نہیں آتی ۔ مرزا اور صاحباں کو صاحباں کے بھائیوں نے قتل کر دیا تھا۔ ہیر اور رانجھا نے باعزت طریقے سے جہانِ فانی سے کوچ نہیں کیا۔ سوہنی اور مہینوال کو چناب کی لہروں نے نگل لیا تھا۔ سسی اور پنوں بھی عین جوانی کے عالم میں دُنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔اس ثقافتی پس منظر میں نوجوانوں کی صحت اور زندگی کے لئے لازم ہے کہ انہیں ویلنٹائن ڈے جیسی خرافات سے دور رکھا جائے، کیونکہ اس روز اکثر نوجوان جوڑے عشق و محبت کی قابل اعتراض حرکات کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ان پر اگر ان کے گھر والوں کی نظر پڑ جائے تو اکثر عاشق ہسپتال پہنچ جاتے ہیں اور اگر یہ پولیس کے ہتھے چڑھ جائیں اور مُک مکا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوں تو حوالات یاترا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سو نوجوانوں کا اولین مفاد بھی اِسی میں ہے کہ ویلنٹائن ڈے نہ منایا جائے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ویلنٹائن ڈے کے متعلق ہمارے خیالات وائس چانسلر صاحب سے خاصے ملتے ہیں، مگر ہمیں اس دن کو مسلمان کر کے اسے ’’سسٹرز ڈے‘‘ قرار دینے پر اعتراض ہے۔ ہمارے ہاں سسٹرز زیادہ ترہسپتالوں میں پائی جاتی ہیں۔جب تک مریض کو دوسری دُنیا میں جانے کا خدشہ ہوتا ہے تو وہ ان سسٹرز کو واقعی بہنیں سمجھتا ہے، مگر جیسے ہی مایوس مریضوں کا زندگی کی طرف سفر شروع ہوتا ہے تو وہ سسٹرز کو قابلِ اعتراض نظروں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک تجربہ کار نرس کے مطابق جب مریض کسی نہ کسی انداز سے اظہارِ عشق کرنا شروع کر دیتا ہے تو اس کے صحت یاب ہونے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔کئی مریض سسٹر نرسوں سے شادی بھی کرلیتے ہیں، جبکہ متعدد ڈاکٹر عشق کے بعد انہی نرسوں سے رشتہ ازدواج میں منسک ہو جاتے ہیں،جنہیں وہ برسوں سسٹر سسٹر کہہ کر پکارنے کی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ایک دور میں پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ خاصی مقبول تھی۔ اس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اگر کوئی شخص ایک مرتبہ جمعیت میں داخل ہو جائے تو وہ جمعیت سے نکل سکتا ہے، مگر جمعیت اس سے نہیں نکل سکتی۔ ہمارے جماعتی دوست لڑکیوں کو بہن کہتے تھے۔ لڑکیاں انہیں بھائی کہہ کر پکارتی تھیں۔ بعض اوقات اچانک خبر ملتی تھی کہ ان میں سے کسی کی شادی ہو گئی ہے اور صاحب سابقہ بہن کو محبت سے بیگم صاحبہ کے لقب سے پکار رہے ہیں۔ہمارے جمعیت کے ایک دوست کو جب شادی کرنے کا مشورہ دیا گیا تو انہوں نے برجستہ کہا ’’بہت سی بہنوں کے رشتے آ رہے ہیں۔ امید ہے اس سال شادی ہو جائے گی‘‘۔ ہمیں اس دور کا ایک مشہور لطیفہ یاد آ رہا ہے کہ ایک ناظم صاحب ایک لڑکی کے ساتھ کسی سینما ہاؤس میں فلم دیکھنے کے لئے گئے۔ بدقسمتی سے اکابرین کو اس کی خبر مل گئی۔ اگلے دن انہیں ایک شوکاز نوٹس ملا، جس میں کہا گیا تھا ’’آپ کے متعلق خبر ملی ہے کہ آپ ایک بہن کے ساتھ سینما ہاؤس میں فلم دیکھتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ کیوں نہ آپ کے خلاف نظم کو نظر انداز کرنے کی بنا پر کارروائی کی جائے‘‘۔اس پر متعلقہ ناظم صاحب نے جواب لکھا ’’میری ایک عزیزہ ملتان سے آئی تھیں اپنے گھر والوں کی خواہش پر میں اسے فلم دکھانے سینما ہاؤس لے گیا تھا۔ جماعت کا نظم اہم ہے، مگر زندگی میں غزل کا اپنا مقام ہے‘‘۔ پاکستان میں عام طور پر ہر شخص اپنے کام کی بجائے دوسروں کے کام کا ماہر ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ وائس چانسلر صاحب پر الزام لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے زرعی مسائل کے حل تلاس کرنے کی بجائے ویلنٹائن ڈے کوپکڑ لیا ہے۔ اِس لئے ہمیں زرعی یونیورسٹی کا وہ گریجوایٹ یاد آ رہا ہے جو مدتوں بعد اپنے گاؤں گیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے والد کے کاشتکاری کے طریقے خاصے فرسودہ ہیں۔ اس نے ایک تعلیم یافتہ ہونہار بچے کی طرح اپنے والد سے کہا کہ آپ کو زراعت کی جدید ٹیکنالوجی سے آگاہی حاصل کرنی چاہئے۔ اس کے بعد اس نے ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’دیکھیں اگر اس درخت کو 20 کلو بھی آم لگ گئے تو مجھے بہت حیرت ہو گی‘‘۔ کسان نے اپنے بیٹے کو حیرت سے دیکھا اور کہا ’’بیٹے اگر اس درخت کو دو کلو بھی آم لگ گئے تو مجھے تم سے بھی زیادہ حیرت ہو گی، کیونکہ یہ جامن کا درخت ہے‘‘۔محترم مجیب الرحمن شامی صاحب اکثر بتاتے ہیں کہ وائس چانسلر کا عہدہ بہت باعزت ہوتا ہے۔ صدر ایوب خان کے آئین کے لئے ایک صاحب نے بہت تگ و دو کی تھی۔ وہ ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اُنہیں کوئی سرکاری عہدہ دینا چاہتے تھے۔صدر ایوب کو بتایا گیا کہ وہ صاحب وائس چانسلر بننا چاہتے ہیں۔ان صاحب کی علمیت اور دیانت میں کوئی شبہ نہیں تھا،مگر اس کے باوجود انہیں ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا، کیونکہ صدر ایوب کا خیال تھا کہ وائس چانسلر کا عہدہ جج کے عہدے سے بھی زیادہ اہم اور معتبر ہوتا ہے۔ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب نے اس عزم کا اظہار نہیں کیا کہ ان کی زرعی تحقیق کی بدولت پنجاب کی زمینوں میں فصلوں کی پیداوار میں ویسا ہی حیرت انگیز اضافہ ہوگا جیسا بھارتی پنجاب میں ہوا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ ضرور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ مستقبل میں اچھے وزیر اطلاعات بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔