لاہور (ویب ڈیسک) شرم اِس نیب عرف ” عیب “ کو مگر نہیں آتی۔ بوڑھے اور بیمار اساتذہ کو جس طرح ہتھکڑیاں لگا کر رسوا کیا گیا پورے معاشرے کو اُس کی نہ صرف زبانی کلامی مذمت کرنی چاہئے بلکہ عملی طور پر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں آئندہ کسی کو اِس مقدس پیشے کی توہین کی جرات نہ ہو۔
نامور کالم نگار تو فیق بٹ روزنامہ نئی بات میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِن اساتذہ کا اصل جرم یہ نہیں کہ انہوں نے کرپشن کی۔ اُن کا اصل جرم یہ ہے اُن کے ناموں کے ساتھ ریٹائرڈ جسٹس یا ریٹائرڈ جنرل وغیرہ نہیں لگا ہوا۔ محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے اِس واقعے بلکہ اِس سانحے کا از خود نوٹس لیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے ساری خرابیوں کا نوٹس لینے کے لئے اِس ملک میں صرف ایک ہی شخص رہ گیا ہے۔ خرابی یہ ہے اِس کے باوجود خرابیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس لینے سے پہلے یہ نوٹس چیئرمین نیب کو لینا چاہئے تھا۔ اب بعد میں اُن کے نوٹس لینے کا اُنہیں یا اُن کے ادارے کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس لینے سے پہلے ذمہ داران کو معطل کر دیتے نہ صرف اُن کی، اُن کے ادارے کی عزت میں بھی اضافہ ہو جاتا۔ جس میں دِن بدن کمی ہوتی جا رہی ہے۔ بلکہ یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرنے سے نیب کی ساکھ کا جنازہ ہی نکل گیا ہے۔ سچ پوچھیں ہمیں تو اب یوں محسوس ہوتا ہے
نیب کا کام کرپشن کے ملزمان کو پکڑ کر سزا دلوانا نہیں بلکہ کچھ عزت دار لوگوں کو پکڑ کر بے عزت کرنا ہے۔ نیب احتساب کا ایک ادارہ ہے مگر بدقسمتی سے یہ ادارہ خود کو آہستہ آہستہ اُس مقام پر لاتا جا رہا ہے جب خود اِس کے احتساب کی شدت سے ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔ اس کے کئی عیب ‘ محترم چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس میں بھی ہیں۔ مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران وہ کئی بار نیب کے کچھ معاملات اور کارکردگی پر شدید غم و غصے کا اظہار کر چکے ہیں۔ اب بھی وقت ہے نیب اپنا قبلہ درست کر لے۔ ناجائز طور پر لوگوں کی پگڑیاں اُچھال اور اُنہیں بلیک میل کرنا بند کر دے ورنہ یہ نہ ہو اِس ادارے کو ہی بند کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بارے میں لکھا تھا ” یہ ادارہ ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے قانون سب کے لئے برابر نہیں ہوتا۔ اِسی طرح نیب بھی یہ ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے قانون سب کے لیے برابر نہیں ہوتا، ورنہ زرداری ، شہباز شریف اور اِس ٹائپ کے دیگر طاقتور ملزمان کو بھی ایسے ہی ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں پیش کیا جاتا جیسے بوڑھے اور بیمار اساتذہ کو کیا گیا۔
کیا اِن اساتذہ نے اِس ملک کے کچھ جرنیلوں ، ججوں اور افسروں سے زیادہ کرپشن کی ہے؟ اُن سے دوران سروس کچھ بے ضابطگیاں اگر ہوئیں ضرور اُن کا حساب کتاب ہونا چاہئے۔ مگر جِس طرح اُنہیں ذلیل و رسوا کیا گیا یہ اقدام انتہائی تکلیف دہ اور قابل مذمت ہے۔ عدالت میں ہتھکڑیاں لگا کر اُنہیں یوں پیش کیا جا رہا ہے جیسے وہ بہت بڑے ” دہشت گرد “ ہوں۔ بلکہ کچھ دہشت گردوں کو بھی ایسے پیش نہیں کیا جاتا کہ اُن کے خوف سے بہت سے اداروں کے پیشاب نکلتے ہیں۔ یہ اساتذہ اپنا حساب کتاب دینے کے لئے تیار ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے وہ مسلسل نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اُن میں سے کسی کا نام ای سی ایل میں موجود نہیں۔ وہ اگر واقعی قصور وار ہوتے ملک سے فرار ہو جاتے۔ جتنے وہ قابل ہیں باہر کی یونیورسٹیاں اب بھی اُس سے کہیں زیادہ تنخواہ پر اُنہیں رکھ لیتیں جتنی کرپشن کا اُن پر الزام ہے۔ مگر وہ کہیں نہیں بھاگے۔ بے شمار لوگ لوٹ مار کر کے ملک سے فرار ہوگئے۔ نیب اور دیگر ادارے اُن کا کچھ نہیں اُکھاڑ سکے۔ یہاں بس صرف کمزوروں پر چلتا ہے۔ میں دیکھتا اِن بوڑھے اور بیمار اساتذہ میں سے کسی کا کوئی بیٹا کوئی ، جج ہوتا ، کسی کا کوئی بھائی جنرل ہوتا، یا کوئی بڑا افسر ہوتا تو
انہیں کیسے کوئی ہتھکڑیاں لگانے کی جرا¿ت کرتا۔ اِن اساتذہ کا قصور صرف یہ ہے کوئی جج کوئی جرنیل وغیرہ بننے کے بجائے ایک اُستاد بننے کو اُنہوں نے ترجیح دی۔ اِس معاشرے میں اُستاد کی پہلے ہی کوئی عزت نہیں۔ اب جس طرح اُنہیں ہتھکڑیاں لگا کر بے عزت کیا گیا اُس کے بعد کون اُستاد بننا چاہے گا۔ مہذب معاشروں میں اُستاد کا بڑا مقام ہوتا ہے۔ بلکہ سب سے بڑا مقام ہی اُستاد کا ہوتا ہے۔ ہمارے مشہور دانشور جو گورنمنٹ کالج لاہور میں اُستاد بھی تھے اشفاق احمد کا ایک واقعہ بڑا مشہور ہے۔ وہ اٹلی کے شہر روم میں تھے۔ اک روز ٹریفک قوانین کی وہاں اُن سے خلاف ورزی ہوگئی۔ وہ عدالت میں پیش ہوئے۔ جج کو جب یہ پتہ چلا وہ پاکستان میں ایک اُستاد کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ وہ نہ صرف خود کھڑا ہو گیا بلکہ عدالت میں موجود تمام لوگوں کو یہ کہہ کر کھڑے ہونے کا حکم دیا کہ ” اِس وقت کمرہ عدالت میں ایک استاد موجود ہیں“ اس جج نے یہ نہیں سوچا کہ اس وقت کمرہ عدالت میں وہ ایک ملزم کی حیثیت میں پیش ہوئے ہیں۔ اُس جج کے نزدیک سب سے مقدم اُن کا اُستاد ہونا تھا۔
اللہ نے اِن گورے معاشروں کو ایسے ہی نہیں نواز دیا اور ہمارے مقدر میں غیر مہذب ہونے کا ” اعزاز “ ایسے ہی نہیں لکھ دیا گیا۔ ہمارے مذہب میں ایک اُستاد کو جو مقام حاصل ہے کاش بوڑھے اور بیمار اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگانے والے اُس سے ذرا سا بھی آگاہ ہوتے، ایک اُستاد لاٹھی کے سہارے چل رہے تھے، اُن کے دوسرے ہاتھ میں ہتھکڑی تھی، اِس کے باوجود ایک بے شرم اور بدبخت پولیس ملازم نے اُنہیں اس طرح زور سے بازو سے پکڑ رکھا تھا جیسے وہ اٹھارہ بیس سال کا کوئی نوجوان ہو۔ جو ابھی ہاتھ چھڑوا کر بھاگ جائے گا۔ ذرا شرم اِن پولیس والوں کو نہیں آتی۔ مجھے یقین ہے اُن کی تربیت پولیس کے جے سوریے ، ملا وٹی نام کے حامل سی سی پی او لاہور بی اے ناصر بمطابق اصل نام بشیر احمد ناصر، مشتاق سکھیرا اور ذوالفقار چیمہ جیسے اذیت پسند افسروں نے ہی کی ہوگی۔ ورنہ اساتذہ کی عزت آبرو کا کچھ نہ کچھ خیال یہ پولیس والے ضرور کر لیتے۔ ذوالفقار چیمہ نے تو جب وہ ایس پی سٹی لاہور تھا اساتذہ کے کان تک پکڑوا دیئے تھے۔ پھر اپنی بے چین نمائشی طبیعت کے مطابق کان پکڑے ہوئے اساتذہ کی تصاویر بھی میڈیا کو جاری کر دیں۔
اُس کی زندگی کی آئی جی پنجاب بننے کی سب سے بڑی خواہش پوری نہیں ہوسکی یا اب سرکار نے اُسے اُس کے اصل مقام پر واپس پہنچا دیا ہے اور یہ ایک بڑی ” دلچسپ کہانی “ ہے تو یہ اصل میں اُنہی اساتذہ کی بددعائیں ہیں جو ابھی تک اُس کا پیچھا کر رہی ہیں‘ جس کے نتیجے میں ” ایماندار “ ہونے کے باوجود کوئی عزت مندانہ مقام اُس کے حصے میں نہیں آیا۔ مجھے تو نیب کے اُس جج پر بھی حیرت ہو رہی ہے، بلکہ غصہ آرہا ہے جس نے بوڑھے اور بیمار اساتذہ کو ہتھکڑیوں میں دیکھ کر ذرا نوٹس نہیں لیا ورنہ وہ فوری طور پر اُن کی ہتھکڑیاں کھلوانے کا حکم جاری کر تا۔ سارے کا سارا معاشرہ ہی بے حِس ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس کے از خود نوٹس پر ڈی جی نیب پنجاب عدالت میں حاضر ہوئے، آبدیدہ ہوئے اور چیف جسٹس سے معافی مانگ لی، چیف جسٹس نے اُنہیں معاف بھی کر دیا۔ میرا جی چاہتا ہے جِن ملزمان کے سپریم کورٹ میں مختلف کیسز زیر التوا ہیں اُنہیں یہ مشورہ دوں کسی روز آنکھوں میں آنسوﺅں کی فنکاری بھر کر چیف صاحب کی عدالت میں پیش ہو جائیں۔