لاہور (ویب ڈیسک) شہبازشریف کی گرفتاری کے حوالے سے ان چار دنوں میں بہت کچھ کہا جاچکا۔ احد چیمہ اسی کیس میں آٹھ ماہ سے اور فواد حسن فواد تین ماہ سے زیر حراست ہیں۔ طویل تفتیش کے بعد بھی ان کے خلاف ریفرنس پیش نہیں کیا جاسکا۔ شہبازشریف کو بھی انکوائری کے لیے جب بھی طلب کیا گیا‘
نامور کالم نگار رؤف طاہر روزنامہ دنیا میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ انہوں نے حاضر ی میں کوتاہی نہ کی۔ ان کے بیرون ملک فرار کا بھی کوئی خدشہ نہ تھا‘ تو پھر ان کی گرفتاری(اور ریمانڈ) کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟جتنے منہ اتنی باتیں۔ وہ جو شاعر نے کہاتھا کہ کس کس کی زباں روکنے جائوں تیری خاطر۔ قومی وصوبائی اسمبلی کی تین درجن سے زائد نشستوں کے ضمنی انتخابات سر پر ہیں۔ان میں زیادہ تر پنجاب میں ہیں‘ جہاں دو‘ تین کے سوا باقی نشستوں پر مسلم لیگ(ن) کی کامیابی ‘نوشتہ دیوار‘ ہے (ظاہر ہے اس کے لیے پولنگ سے کائونٹنگ اور پھر نتائج کے اعلان تک‘ سارے عمل کا صاف شفاف ہونا بنیادی شرط ہے)ایوان کے اندر (اور باہر بھی) پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن جماعتوں میں قربت اور اتحاد واشتراک کے امکانات کو بھی مانگے تانگے کی بیساکھیوں پر استوار حکومت اپنے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھ رہی ہے۔ پنجاب میں گورنر چودھری محمد سرور کی سینیٹ کی سیٹ پر ضمنی انتخاب میںپی ٹی آئی کے امید وار کی صرف بارہ ووٹوں سے کامیابی‘ برسراقتدار پارٹی کے لیے تشویش کا ایک اور سبب ہے‘(صرف سات ووٹ دوسری طرف چلے جاتے تو پانسہ پلٹ جاتا)۔ وفاق میں حکومت کے مسائل الگ ہیں‘ اس پر صدقے واری جانے والے تجزیہ کار اور تبصرہ نگار بھی اسے ایک ڈائریکشن لیس گورنمنٹ قرار دے رہے ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ ابھی تک خود اپنے آپ کوبھی یقین نہیں دلاسکے کہ وہ اس منصب پر فائز ہوچکے ہیں ‘ ایسے میں ان کے رفقا انہیں سنجیدگی سے کیوں لیں؟ خود حکمران جماعت کی پارلیمانی پارٹی انہیں ایک ‘پر اکسی‘ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی؛ چنانچہ جناب وزیر اعظم (اور حکمران جماعت کے سربراہ) کو بار بار کہنا پڑتا ہے کہ جب تک پی ٹی آئی کی حکومت ہے‘ بزدار صاحب ہی وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ قومی معیشت کا معاملہ یہ ہے کہ جناب اسد عمر کی تمام تر مہارتیں اور صلاحیتیں اس بے لگام گھوڑے پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہیں اور ووٹر کی امیدیں ہیں کہ مایوسی میںبدلتی جارہی ہیں۔ ایسے میں ملک کی (دوسرے نمبر پر ہی سہی)مقبول ترین جماعت کی قیادت کے ساتھ یہ سلوک حکومت کے علاوہ خود جمہوری نظام کے لیے بھی نیک فال نہیں۔14 اکتوبر کو لاہور میں قومی اسمبلی کی جن دونشستوں پر ضمنی انتخاب ہونے جارہا ہے‘ ان میں شاہد خاقان عباسی والی نشست کا نتیجہ تو اندھوں کو بھی نظر آرہا ہے۔ اب دلچسپی کا حامل حلقہ131ہے جہاں25جولائی کو عمران خان سے صرف680ووٹوں سے ہارنے والے خواجہ سعد رفیق کا مقابلہ اب جنرل اختر عبدالرحمن کے صاحبزادے ہمایوں اختر سے ہے۔
اعجاز الحق کی طرح ہمایوں نے بھی نوازشریف کی رفاقت سے اپنی سیاست کا آغاز کیاتھا اور اسی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے اور جیتتے رہے۔ 12اکتوبر 1999ء کے بعد جنرل مشرف کی اطاعت قبول کرلی۔ اکتوبر2002ء کا الیکشن قاف لیگ کے ٹکٹ پر لڑا۔ ن لیگ کی طرف سے سابق سیکرٹری خارجہ اکرم ذکی امید وار تھے‘ جو رات کو جیت چکے تھے۔ اگلی صبح ان کی ناکامی کا اعلان لائی۔ 2008ء کے الیکشن میں ہمایوںقاف لیگ کے ٹکٹ پر اپنی ضمانت بھی نہ بچا سکے۔2013ء میں وہ مسلم لیگ (ن) کا انتخابی منشور تیار کرنے والی کمیٹی کے رکن تھے‘ لیکن ٹکٹ سے محروم رہے ‘البتہ ان کے چھوٹے بھائی ہارون اختر سینیٹر بن کر نوازشریف حکومت کے اقتصادی امور کے مشیر ہوگئے۔ ہمایوں نے نون لیگ کے ٹکٹ سے مایوس ہو کر الیکشن سے تین ہفتے قبل پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے ان سے حلقہ 131کے ضمنی انتخاب میں ٹکٹ کا وعدہ کرلیا تھا(جہا ں وہ خواجہ سعد رفیق کے مدمقابل تھے) ۔دلچسپ بات یہ کہ خان صاحب یہی وعدہ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کے صاحبزادے ولید اقبال سے بھی کرچکے تھے۔ اس حلقے میں خان صاحب کی انتخابی مہم بھی ولید نے ہی چلائی اور اس کے لیے شب وروز ایک کردیئے‘ لیکن ضمنی الیکشن کے لیے ٹکٹ ہمایوں اختر لے اڑے۔ اس کی تلافی ولید کو گورنر چودھری محمد سرور کی خالی کردہ سینیٹ کی نشست پر ٹکٹ دے کر لی جاسکتی تھی۔ولید اس سے بھی محروم رہے۔ ولید کی پی ٹی آئی سے وابستگی برسوں پر محیط ہے۔ وہ 2013ء کے الیکشن میں حلقہ 124میں شیخ روحیل اصغر کے مقابلے میں قربانی کا بکرا بنے تھے۔ (ایک ایسی سیٹ جس پر ولید اقبال کے جیتنے کا کوئی امکان ہی نہ تھا)