لاہور(ویب ڈیسک)وزیراعظم نہ بھی بتاتے تب بھی صاحبانِ عقل کو علم ہے کہ وہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں اور کون اُنکے ساتھ کھڑا ہے۔ سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہونے سے مراد اسکے فیصلوں کو من و عن تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے قوم پر احسان کیا جو ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔
معروف صحافی پروفیسر خالد محمود ہاشمی اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔وہ اپنے ہر دورۂ لاہور میں عثمان بزدار کی عزت افزائی کرتے اور انہیں تھپکی دیتے ہیں۔ عمران خان کی نظر میں عثمان بزدار بھی وسیم اکرم اور انضمام الحق کی طرح اچھا انتخاب ثابت ہونگے۔ 100 روزہ کارکردگی سامنے نہ بھی رکھیں تب بھی ہر چیز روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بیرونی دبائو اور سیاسی مداخلت سے پاک نہیں، حکومت صرف کرپشن کیسوں کو اُبھار رہی ہے۔ چودھری پرویزالٰہی کی جہانگیر ترین سے گورنر پنجاب چودھری سرور کیخلاف شکایت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا ترین چودھری سرور کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور کیا چودھری سرور بے لگام ہوتے جا رہے ہیں۔ پرویز الٰہی نے اس اندیشے کا اظہار کیونکر کیا ہے کہ گورنر وزیراعلیٰ کو نہیں چلنے دینگے۔ گلے دور نہ ہوں تو غصہ سیکرٹ بیلٹ پر نکلتا ہے۔ پنجاب کا سیاسی محاذ گرم ہونے جا رہا ہے۔ ن لیگ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک کے موڈ میں نہیں۔ ن لیگ چاہتی ہے حکومت اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کے بوجھ تلے دبے۔ احتساب اور مقدمات سے فرصت نصیب ہو گی تو ہی تحریک چلانے کی سوجھے گی۔ فی الحال تو اپوزیشن کو باد مخالف نے گھیر رکھا ہے۔ 100 دنوںکی کامیابیاں یہ گنوائی جائیں کہ مہنگائی کہاں سے کہاں چلی گئی ہے تیل ایک بار پھر 10 سے 15 روپے لٹر مہنگا ہونے جا رہا ہے۔
100 دن سے پہلے اچھی خبر اسد عمر کی زبانی ادائیگیوں کا بحران ختم ہونے کو ہے ۔ 12 ارب ڈالر کا خلاء تھا، 6 ارب سعودیہ باقی رقم چین سے ملنے کے بعد بے قرار معیشت کو چین آ گیا۔ چین پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں دو ارب ڈالر جمع کرائے گا اور پاکستان سے برآمدات میں تین گنا تک اضافہ کریگا تاہم پائیدار حل برآمدات میں اضافہ ہے۔ وزیر خارجہ کا یہ کہنا بجا ہے کہ ہر دورے میں یہ سوال نہیں ہونا چاہئے کیا ملا؟ واقعی ہماری قیادت اور وزراء بھکاری تو نہیں آصف زرداری نے اپنی برأت پیش کرتے ہوئے کہا ہے ہمارے ملک کا وزیراعظم کشکول لیکر دنیا میں گھوم رہا ہے ہم نے اپنے وسائل سے ملک چلایا اورکشکول نہیں اٹھایا۔ زرداری صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کشکول لیکر گلیوں بازاروں میں فقیر گھومتے ہیں۔ قرضہ مانگنے اور گداگری میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دنیا تو بہت بڑی ہے۔ عمران خان تو صرف تین دوست ممالک میں گئے ہیں۔ زرداری صاحب کا کہنا ہے چین سے کرنسی میں تجارت کا معاہدہ اب ہوا ہے۔ ہماری حکومت پہلے ہی 6 ممالک سے ایسا معاہدہ کر چکی تھی۔ اسد عمر کو یقین ہے آئی ایم ایف سے مرضی کے خلاف سمجھوتہ نہیں کرنا پڑیگا۔ 5 یا 6 ارب ڈالر ملیں گے ان کے خیال میں ماضی میں چادر دیکھ کر پیر نہیں پھیلائے جس کی قیمت اب ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ نصف آبادی ناخواندہ اور ایک تہائی آبادی بجلی استعمال نہیں کرتی اور ہم ایٹمی قوت ہونے پر بغلیں بجاتے ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ دھرنے دیتے، قومی اسمبلی میں لفظوں کی گولہ باری کرتے، ڈاکو راج چور چور کے نعرے لگاتے ہیں۔ بعض ارکان کی عقل و دانش گلی کے بچوں سے آگے نہیں گئی۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف ن لیگ میں جبکہ سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف پیپلز پارٹی کی ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری تحریک انصاف کا تیسرا محاذ دھرنے والوں کے خلاف کھلا ہے۔ اتنی مخالفتوں کے ہوتے حکومت کا مستحکم ہونا معجزہ ہی ہو گا۔ سلمان تاثیر اور ممتاز قادری جان سے گئے اور آسیہ کا مقدر کیا ہے یہ دیکھنے کیلئے انتظار کرنا پڑیگا۔ کبھی اسیر اورکبھی وزیر یہی قانون قدرت ہے۔ رشوت خوروں کے پاس کس قدر دولت ہوتی ہے نیب کے چھاپے نے سابق سرکاری افسر کے گھر سے 33 کروڑ روپے برآمد کر لئے جن کے ساتھ انسپکٹر لفظ جڑا ہے ان پر غیر معمولی فضلِ ربیّ ہے۔ ملک بھر میں سالانہ 59 ارب 17کروڑ روپے کی بجلی چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے صرف پنجاب میں 12 ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے نرخ بڑھنے سے ہر ماہ 16 ارب کی بجلی چوری ہونیکا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ایک روپیہ یونٹ نرخ بڑھنے سے ماہانہ 12 ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے۔ بجلی کی قیمتوں کے حالیہ اضافہ سے بل ادائیگی اور ریکوری میں بھی کمی ہو گی۔ اورنج ٹرین منصوبہ کی لاگت 2 کھرب 89 ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔
ابتدائی طور پر ایک کھرب 65 ارب کا تخمینہ لگایا گیا تھا اتنی بڑی رقم سے ہاؤسنگ پروگرام شروع ہو سکتا تھا جو اب شروع ہونے جا رہا ہے جس کے تحت ہر شخص مکان کی قیمت کا 20 فیصد دیگا، 80 فیصد قرض ملے گا، قرضہ 10 کے بجائے 20 سال کیلئے ہو گا۔ دیہی علاقوں میں 2 لاکھ سالانہ گھر بنیں گے جو 2 کمروں، کچن اور باتھ پر مشتمل ہونگے۔ مشرف دور میں چودھری پرویز الہٰی کی قائم کردہ پنجاب گورنمنٹ سرونٹس ہاوسنگ فاؤنڈیشن کی طرف وزیراعلیٰ پنجاب کی توجہ کسی نے مبذول نہیں کرائی جس نے ریٹائرڈ سرکاری ملازموں سے انکی تنخواہوں سے رقوم جمع کر کے اربوں روپے جمع کئے اور اسکے بدلے انکے اضلاع میں گھر یا پلاٹ نہیں دئیے۔ چند اضلاع میں قرعہ اندازی کا طریقہ اپنایا گیا جو اس کے بنیادی چارٹر کیخلاف ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کو 2008ء سے اب تک یہ نہیں پتہ کہ انہیں کہاں اور کب کوئی گھر یا پلاٹ الاٹ کیا جائیگا۔ لوگوں کے ہی پیسوں سے ا ن کیلئے گھر بنانے یا انہی کے اضلاع میں اراضی کے حصول میں کونسی رکاوٹیں حائل ہیں۔ بے زبان ہزاروں ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کی ترجمانی کون کریگا؟ نیب، عدالت عظمٰی اور سب سے بڑھ کر وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی نظر اس فاؤنڈیشن کے امور کی طرف کیوں نہیں جاتی؟ کیا وزیراعلیٰ اپنی حکومت کے ہر محکمے، ادارہ کی کارکردگی سے بے خبر ہیں؟ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین تحریک انصاف سے انصاف ہی تو مانگ رہے ہیں۔ دور عمرانی پاکستان کی تاریخ دو حوالوں سے منفرد کہلائے گا، احتساب اور انتہا پسندی کیخلاف کریک ڈاؤن۔ خان صاحب کے پائے استقامت میں کوئی جنبش دیکھنے میں نہیں آرہی لیکن حکومتی اتحاد اور اپوزیشن اتحاد میں جوڑ برابر کا ہے۔
عمرانی فوج میں 18 فوجی زیادہ ہیں۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں قومی اسمبلی میں حکومت فوج اور اپوزیشن فوج کے درمیان بدترین ہنگامہ دیکھنے میں آیا۔ گالیاں، مارکٹائی کی کوشش کے بعد اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ اگر ایسا منظر منتخب ایوان میں دیکھنے کو مل سکتا ہے تو ملک بھر کے کوچہ و قریہ میں جذبات اور عدم برداشت کی عمومی حالت کیا ہو گی۔ موبائل کوئی بچہ بھی اٹھا کر دیکھ لے کہ مذہبی منافرت کو کس بے خوفی سے کتنی تیز ہوا دی جا رہی ہے مختلف قوتوں کے علماء کی تقاریر کے جوشیلے خطبات کے درجنوں کلپس 24 گھنٹے موجود ہیں جو دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کی آگ کو بھڑکانے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ یہ بھی پہلا موقع ہے کہ دھرنوں کے بعد ملک بھر سے 1800 افراد گرفتار ہوئے ہیں۔ توڑ پھوڑ، ہنگاموں میں ملوث شرپسندوں کی ویڈیوز تصاویر سے شناخت کے بعد دہشتگردی کے مقدمات درج ہوئے ہیں۔ حکومت کے نزدیک یہ نہیں ہو سکتا کہ دو یا تین ہزار لوگ نکل کر پورا ملک مفلوج کر دیں۔