لاہور (ویب ڈیسک) میں راہ نوردِ شوق نہیں بس پائوں میں چکر پڑا ہوا ہے۔ جہاں جاتا ہوں مسافر نواز ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ یہ کیا عمران خان کا طرزِ حکمرانی ہے۔ گورننس کیوں بہتر نہیں ہو رہی۔ میانوالی نے یہی کہا، سرگودھا یہی بولا، اٹک یہی کہنے لگا، فیصل آباد تو رو پڑا۔ نامور کالم نگار منصور آفاق اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس کا مسئلہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہاں گورنر اور وزیراعلیٰ آمنے سامنے ہیں۔ مشاعرے پر اسلام آباد بھی گیا تھا۔ وہاں بھی یہی مرثیہ خوانی تھی۔ مصرعے یہی تھے کہ فلاں ادارے کا سربراہ نواز شریف کا چہیتا ہے۔ فلاں کا اُس کے چہیتے کا چہیتا ہے۔ گویا علم و ادب کے تمام اداروں پر نواز شریف کے چہیتوں کی حکمرانی ہے۔ یہی سوال طنز کے تیروں کی طرح عمران خان کی حکمرانی پر لپکتے ہیں مگر وہ کیا کرے، اُس کی جیب میں شاید زیادہ تر سکے کھوٹے ہیں۔ اُس کے ہمدرد دوستوں نے کئی مرتبہ اُس کی توجہ اس طرف مبذول کرائی۔ اُس نے کم از کم دو مرتبہ اِن اداروں کے سربراہ ہٹانے کا حکم بھی دیا مگر ہائے غلام گردشیں۔ حکم نامے سیکریٹریٹ کی راہداریوں میں گم ہو گئے۔ بیورو کریسی زندہ باد۔ یہی کچھ پنجاب میں بھی ہوا۔ ابھی تک تمام علمی و ادبی اداروں کے سربراہ شہباز شریف کے آدمی ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جو حکومت کے لئے مورچو ں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہے حکومت عمران خان کی مگر ہر مورچے میں سپاہی نواز شریف کا ہے۔ اُن کی کمانوں سے نکلتے ہوئے تیر پی ٹی آئی کے جیالوں کے سینے چیرتے جا رہے ہیں سو اِس جنگ میں عمران خان کے خالی ہاتھ لشکری جو بھی کر لیں فتح یاب نہیں ہو سکتے۔ علم و ادب اور ثقافت کے محاذ پر جگہ جگہ نواز شریف کے حامی خوشی کی تیز دھنیں بجا رہے ہیں۔ انہیں بجانی بھی چاہئیں۔ پی ٹی آئی جب پچھلی مرتبہ خیبر پختونخوا میں آئی تو اس نے فنونِ لطیفہ پر خاصی نظرِ کرم کی تھی۔ پانچ سو سے زائد شاعروں، ادیبوں، موسیقاروں، گلوکاروں، اداکاروں اور مصوروں کو 30ہزار روپے ماہانہ دیا گیا تھا (جو اب روک دیا گیا ہے) ادیبوں کی کتابیں بھی شائع کی گئی تھیں جس سے یہ تاثر ابھرا کہ پی ٹی آئی حقیقی تبدیلی کے طور اطوار جانتی ہے۔ توقع تھی مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت آتے ہی تخلیق کاروں اور فنکاروں کے دن پھر جائیں گے۔ اکادمی ادبیات پاکستان، ادارہ فروغ قومی زبان، اردو سائنس بورڈ، پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس، نیشنل بک فائونڈیشن، قائداعظم اکیڈمی، اقبال اکادمی، کراچی آرٹس کونسل وغیرہ دوبارہ متحرک ہو جائیں گی مگر حکومت ابھی تک ان اداروں کے سربراہ نہیں لگا سکی، ادیبوں کا سب سے بڑا سرکاری ادارہ اکادمی ادبیات پندرہ ماہ سے ایک بیورو کریٹ کی سربراہی میں گھسٹ رہا ہے، جسے پوچھنا پڑتا ہے ظفر اقبال کون ہے، مجید امجد کس چڑیا کا نام ہے،اُس کے پاس اور بھی کئی اداروں کے چارج ہیں، سو پانچ چھ ہفتوں بعد ایک آدھ دن اکادمی میں اُس کا دیدارِ عام ہوتا ہے۔ نتیجتاً دفتر کی کارکردگی خراب، شاعروں ادیبوں کو ملنے والا وظیفہ تاخیر کا شکار، اقبال اکادمی کا سربراہ برسوں سے کوئی نہیں۔ پچھلے دنوں سرچ کمیٹی نے میرٹ پر ایک شخص کا انتخاب کیا تھا مگر اسے بھی سیاست کا شکار کر دیا گیا، اردو سائنس بورڈ اور اردو ڈکشنری بورڈ کو ادارۂ فروغِ قومی زبان میں ضم ہونے کی سرگوشیاں ہو رہی ہیں، پتا نہیں اس سے کیا حاصل ہوگا۔ ادارۂ فروغِ قومی زبان کا پہلے نام مقتدرہ قومی زبان تھا، اردو زبان کے ساتھ مقتدرہ یعنی اتھارٹی کا لفظ چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ سو نہ صرف نام بدل دیا بلکہ خود مختار ادارے کی حیثیت بھی ختم کر دی۔ سابق وزیراعظم نے ادب اور ادیبوں کے لیے پچاس کروڑ کے فنڈ کا اعلان کیا تھا۔ اس میں سے ایک پیسہ ابھی تک اکادمی کو نہیں ملا۔ اِس خزانے پر قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن سانپ بن کر بیٹھ گیا ہے۔ سالانہ پانچ کروڑ روپے کا منافع مل رہا ہے مگر ایک پائی بھی ادب پر خرچ نہیں کی جا رہی، ہاں غیر متعلقہ معاملات پر بے دریغ اڑائی جا رہی ہے۔ یہ ادارے اُس وقت بہترین کام کر تے تھے جب وزارتوں کے ماتحت تھے۔ نواز شریف کو عرفان صدیقی کی خواہش پر ایک نیا ڈویژن بنانا پڑا جس کا نام قومی ادبی و تاریخی ورثہ ڈویژن رکھا گیا اور انہیں مشیر لگا دیا گیا۔ الگ ڈویژن۔ الگ سیکرٹری دو چار جوائنٹ سیکرٹری۔ اُن بیچاروں کے پاس اس کے سوا کوئی کام نہیں کہ وہ ماتحت اداروں کے معاملات میں بے وجہ ٹانگ اڑائیں۔ بس موج میلہ جاری ہے۔ اس کے کئی حل ہیں، میری وزیراعظم پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ اس ڈویژن کو ختم کر کے ان اداروں کو کیبنٹ ڈویژن میں لے لیں تاکہ یہ سارے ادارے ان کی براہِ راست نگرانی میں کام کریں۔ کم از کم ان اداروں کےفوری طور پر سربراہ تعینات کر دیں۔ کوئی تبدیلی تو آئے۔ اس ڈویژن کو پہلے کی طرح وزارت اطلاعات کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو بھی بہتری آ سکتی ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کا کوئی لکھنے والا اس ڈویژن کا سربراہ بنایا جائے۔ عمران خان کو یہ بات سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ حکومت کو غیر محسوس انداز میں عوامی مقبولیت علم و ادب اور ثقافت کی وساطت سے ملا کرتی ہے۔