لاہور (ویب ڈیسک) شامل وڑائچ کی عمر 34 برس ہے اور وہ برطانوی شہر مانچسٹر میں ایک روایتی پاکستانی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ 2013 میں پتہ چلا کہ انھیں ایچ آئی وی کا انفیکشن ہے، اور اب وہ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ بیک وقت مسلمان، ہم جنس پرست، اور ایچ آئی وی کا مریض ہونے کا کیا مطلب ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں: ‘آج تک مجھے اپنی طرح کا کوئی شخص نہیں ملا۔ میں انتہائی تنہا تھا۔ اب جا کر کہیں میری زندگی میں وہ موقع آیا ہے جب میں فخر سے بتا سکتا ہوں کہ میں کون ہوں۔ میں برطانوی پاکستانی ہوں، مسلمان ہوں، ہم جنس پرست ہوں اور ایچ آئی وی میں مبتلا ہوں۔ ‘میں لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں، آپ سمجھتے ہیں نا؟ مسلمان ہونا اور ایچ آئی وی کا مریض ہونا کتنا مشکل کام ہے؟’ جب 2013 میں ان میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تو ان کی زندگی بدل کر رہ گئی۔ ‘مجھے شدید شرم اور پچھتاوے کا احساس ہوا۔ ایچ آئی وی کو ہم جنس پرستوں کی بیماری سمجھا جاتا ہے۔ ایشیائی برادری میں تصور ہے کہ یہ گناہ آلود کام ہے۔ میں نے ہم جنس پرستی کے خلاف نفرت کو اپنے اندر سمو لیا۔ میں نے سوچا، ‘میرے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھا۔ شاید یہی میری قسمت میں لکھا تھا۔ میں جلد مر جاؤں گا اور سیدھا جہنم میں جاؤں گا۔’ انھیں آج بھی وہ وقت یاد ہے جب وہ تشخیص کے بعد کلینک سے باہر آ رہے تھے۔ ‘میں کسی اور ٹیسٹ کے لیے کلینک گیا تھا۔ جب باہر نکلا تو میں ایچ آئی وی کا مریض تھا اور میرا دنیا تلپٹ ہوتی نظر آ رہی تھی۔’
کلینک میں ایک ماہر نے 40 منٹ تک ان کی کونسلنگ کی لیکن وہ اس کی بات نہیں سن رہے تھے۔ انھوں نے یہ راز دو سال تک چھپا کر رکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دوران انھوں نے خودکشی کے بارے میں بھی سوچا۔ اب وڑائچ جنسی تعلیم کے کلینک میں کام کرتے ہیں اور ان کا کام ٹیرنس ہگنز ٹرسٹ کی جانب سے لوگوں کو آگاہی دینا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام اہم ہے۔ حال ہی میں وڑائچ نے اپنے والدین کو اپنی بیماری کے بارے میں بتا دیا ہے۔ ‘میری ماں نے ہمدردی کی، انھوں نے اردو میں کہا، ‘تم جو بھی گھر میں لاؤ گے، میں تمھاری ماں ہونے کے ناطے تمھاری مدد کروں گی۔’ وڑائچ کہتے ہیں کہ انھیں ڈر تھا کہ وہ بہت سوال کریں گی، ’یہ میرے لیے موت کی طرح تھا۔ لیکن انھوں نے محبت دی۔’ ان کے بڑے بھائی اور بھابھی نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ تاہم سب سے مشکل کام باپ سے بات کرنا تھا۔ ‘میں نے اپنے والد سے ہارڈویئر سٹور میں بات کی۔ ہم ڈرل مشینیں دیکھ رہے تھے اور میں ہمت جوڑ رہا تھا۔ میں سوچا، یہ مردانہ جگہ ہے، مجھے یہاں بات کرنی چاہیے۔
‘یہ عوامی جگہ تھی، اس لیے میں نے سوچا کہ وہ مجھ پر چیخ چلا نہیں سکیں گے۔ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دکان سے کوئی ہتھوڑا اٹھا کر میرے سر پر دے ماریں! میرے ذہن میں یہ عجیب و غریب خیالات گردش کر رہے تھے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ انھوں نے بھی میرا ساتھ دیا۔’ تاہم خاندان کے سبھی لوگ اس قدر سمجھ دار نہیں تھے۔ ان کے کزن نے جب سنا تو فوراً کہا، ‘اوہ، یہ تو غلط بات ہے۔’ وڑائچ کہتے ہیں: ‘میں اس کے ردِعمل سے پریشان نہیں ہوا۔ میں نے صرف اتنا کہا، ‘میں نے خود ہم جنس پرست ہونا اختیار نہیں کیا۔ میں پیدا ہی ایسے ہوا تھا۔’ لوگوں کو اپنے بارے میں بتا دینے کے بعد اب ان کا مشن ایشیائی برادری کو اس بارے میں آگہی دینا ہے۔ ‘جنسی کلینک زبردست کام کر رہے ہیں لیکن ایشیائی لوگوں کے لیے ان کے دروازے سے داخل ہونا جدوجہد سے کم نہیں۔ ‘ایشیائی لوگ سوچتے ہیں، ‘اگر میری ماں نے دیکھ لیا تو کیا ہو گا؟ اگر اسے انٹرنیٹ پر میرے بارے میں پتہ چل گیا کہ کیا ہو گا؟’ وہ کہتے ہیں کہ ایشیائیوں کو اس بارے میں بات کرنا مشکل ہے اور اس کی ایک وجہ زبان کا مسئلہ بھی ہے۔ ‘مثال کے طور پر اردو زبان میں جنس یا جنسیت یا ایل جی بی ٹی کے بارے میں الفاظ نہیں ہیں، حالانکہ یہ لوگ پاکستان میں بھی ہیں۔ اگر کوئی لفظ ہے بھی تو وہ حقارت آمیز ہے، اور میں اس نام سے سے پکارے جانا نہیں چاہتا۔’ وڑائچ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ایچ آئی وی میں مبتلا ہونے کا مطلب سزائے موت نہیں ہے اور اس کا علاج موجود ہے۔ ‘صرف دو گولیاں روزانہ کھانا ہوتی ہیں۔ لیکن ہر کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔’ اس کے باوجود انھیں بعض سوال اب بھی کچوکے لگاتے ہیں، خاص طور پر مذہب کا مسئلہ۔ وہ کہتے ہیں: ‘میں مذہب کو اپنے طور پر اختیار کرتا ہوں۔ خدا میرا حساب لے گا اور یہ معاملہ میرے اور میرے خدا کے درمیان ہے۔’