counter easy hit

تبدیلی کو ناکام کہنے والے یہ خبر ضرور ملاحظہ کریں

لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان میں مو¿ثر حکمرانی یا وہ جسے  کہتے ہیں، کا عنصر تیزرفتاری کے ساتھ گراوٹ کی جانب لڑھک رہا ہے…. نتیجے کے طور پر حکمران لوگوں کی نظریں ہٹانے کے لیے قومی اُفق پر ایسے مسائل اُٹھا رہے ہیں جن کا ریاست کو فائدہ پہنچ سکتا ہے نہ اس ملک میں نامور کالم نگار عطا الرحمٰن اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ بسنے والے عوام کو…. الٹا منفی نتائج کے حامل (counter prodected) ثابت ہوں گے …. مثلاً آپ سے حکومت چل نہیں پا رہی…. تبدیلی کے آثار دور تک نظر نہیں آتے…. کسی بڑے عوام دوست یا ملک کے لیے فائدہ مند منصوبے کا آغاز ہو نہیں پا رہا…. مگر اس تمام تر عدم کارکردگی کا بوجھ پارلیمانی جمہوری نظام پر ڈالا جا رہاہے اور اس کی جگہ صدارتی نظام لے آنے کی تجاویز پیش کی جا رہی ہیں اگر یہ بھی کارگر ثابت نہ ہوا تو کیا ہو گا اب تو گبھراکے کہتے ہیں مر جائیں گے، مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے…. صدارتی نظام اس سے قبل ملک کے دو لخت ہو جانے اور قائداعظمؒ کے پاکستان کی اصل شکل باقی نہ رہنے کا سندیسہ لے کر آیا تھا…. آپ کے دم قدم سے دوبارہ ہمارے سروں پر مسلط ہو گیا…. دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو…. والی کیفیت جنم لے گی…. ایسے راندہ درگاہ نظام کو جس کے ساتھ قوم کی تلخ ترین یادیں وابستہ ہیں اہل وطن قبول کریں گے یا نہیں اور موجودہ متفق علیہ آئین مملکت کی موجودگی میں اسے نافذ کرنا ممکن بھی ہو گا یا نہیں…. یا آئین کو معطل کر کے پس پردہ ڈنڈے کی طاقت کے استعمال یا مارشل لاءقسم کی کسی بلا سے کام لینا پڑے گا…. ان سب باتوں سے قطع نظر یہ جو پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام کی بحث اٹھ کھڑی ہوئی ہے اس کا ایک فائدہ آپ کو یقینا پہنچ رہا ہے….

لوگوں کی توجہات آپ کی حقیقی کارکردگی سے ہٹ کر لایعنی بحث پر مرکوز ہو گئی ہیں کیوں نہ موجودہ پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام لے آیا جائے…. حکومت کی تمام تر ناکامیوں کا ذمہ دار پارلیمانی نظام کو ٹھہرایا جا رہا ہے…. یہ وہ نظام ہے جس کے دو ادوار میں ملک ایٹمی طاقت بنا اور اس کا دفاع ناقابل تسخیر! صدارتی نظام کو لوگوں کے گلے کے نیچے اتارنے کے لیے اس کے ساتھ اسلامی کی پخ بھی لگائی جا رہی ہے…. بڑی عمر کے لوگوں کو یاد ہو گا جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1962ءکا صدارتی آئین نافذ کرنے کی ٹھان لی اس وقت بھی لوگوں کے ذہنوں کو مسحور کرنے کے لیے جھانسا دیا گیا کہ صدارتی نظام اسلام کے زیادہ قریب ہے لہٰذا اسے پارلیمانی کے مقابلے میں ترجیح دینی چاہیے مگر ہوا یہ کہ مارچ 1962ءکو خود ساختہ فیلڈ مارشل نے اپنی آمریت کو تقویت اور دوام بخشنے کے لیے صدارتی نظام پر مشتمل آئین کا اعلان کیا تو اس میں پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ سے بدل کر محض جمہوریہ رکھ دیا گیا …. اس وطن عزیز کو اسلامی جمہوریہ کا سرِ عنوان صدارتی نہیں پارلیمانی نظام پر مشتمل آئین نے دیا تھا…. 1956ءکا آئین جسے کسی فرد واحد کی مرضیات کا تابع بنا کر نہیں بلکہ قوم کے منتخب نمائندوں نے تیار کیا تھا اس میں سب سے پہلے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کی شناخت دی گئی…. تاہم جیسا کہ اُوپر عرض کیا گیا اس تمام تر بحث و مناظرے کا یہ فائدہ تو آپ کو بہر صورت مل رہا ہے کہ برسر اقتدار آئے 9 ماہ گزر چکے ہیں ،

کوئی بڑا منصوبہ زیر عمل لانا تو دور کی بات ہے آپ سے پارلیمنٹ کے اندر قانون سازی بھی نہیں ہو پا رہی…. منتخب وزیروں میں سے اہم تر لوگوں کو اٹھا باہر پھینک کر ان کی جگہ خدا جھوٹ نہ بلوائے دو چار نہیں 17 معاونین خصوصی مقرر کر دیئے گئے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ خزانہ، پٹرولیم، تجارت، توانائی اطلاعات اور بیرون ملک پاکستانیوں جیسی وزارتیں ان کے سپرد کر دی گئی ہیں…. یہ وہ معاونین خاص ہیں جنہوں نے اپنے عہدوں کا باقاعدہ حلف نہیں اٹھایا، پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں گے، کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کریں گے لیکن حلف کے پابند نہ ہونے کی وجہ سے ان سے قومی رازوں کی امانت داری کی ضمانت نہیں لی جا سکتی…. یہ ہےvernence good go یا تبدیلی کا سب سے بڑا تحفہ جو آپ نے قوم کو عنایت کیا ہے ۔ مبصرین کا کہنا ہے آپ نے صرف پارلیمانی نظام پر نقب نہیں لگائی جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو بھی تاراج کیا ہے…. کیونکہ امریکہ کے صدارتی نظام میں صدر جب کسی کو وزیر نامزد کرتا ہے تو وہ اپنی تقرری کی توثیق حاصل کرنے کے لیے کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں کے سامنے پیش ہوتا ہے…. وہ اس کا کچا چٹھا نکال کر باہر رکھ دیتے ہیں سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہیں اس کے بعد اکثریتی ووٹ کے ساتھ توثیق یا مسترد کر دیتے ہیں….وزیراعظم اس وقت چین کے دورے پر ہیں وہاں ان کا جیسا کچھ استقبال اور جس نچلے درجے کا پروٹوکول دیا گیا اس سے قطع نظر پچھلے دور حکومت کے مقابلے میں ان کی مالیاتی پالیسیاں کس حد تک بار آور ثابت ہو رہی ہیں اس کا اندازہ صرف اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ

اسد عمر کی جگہ حفیظ شیخ جیسے چھابڑی فروش (vendor) ماہر معاشیات کے لیے بھی سخت تر شرائط کے سایہ تلے جلد از جلد پیکیج حاصل کرنا مشکل ثابت ہو رہا ہے…. اول تو جس آئی ایم ایف پیکیج کے حصول کے لیے دروازہ کھٹکا کھٹکا کر آپ کے ہاتھ تھک چکے ہیں اس کے خلاف خود آپ اتنی نفرت کا اظہار کر چکے ہیں کہ درخواست دائر کرتے وقت شرم آنی چاہیے تھی…. چلئے! یہ کڑوا گھونٹ پینے پر اگر آپ مجبور ہو ہی گئے ہیں اور اس کی خاطر اسد عمر جیسے وزیراعظم کے پسندیدہ ترین وزیرخزانہ کی قربانی بھی دینا پڑی ہے اور اب جن کڑی شرائط کے آگے آپ کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ اس کے نتیجے میں عام آدمی کی جو چیخیں نکلیں گی سو نکلیں گی ، ملکی معیشت کو کیا فائدہ پہنچے گا اور اس کی بنیادیں کتنی مضبوط ہوں گی اور وہ آگے چل کر کیسے رنگ جمائے گی اس کا آپ کو ادراک نہیں اور کرائے پر حاصل کیے گئے آپ کی اقتصادی ٹیم کے بڑے بڑے بقراط بھی کچھ اندازہ لگانے کی صلاحیت نہیں رکھتے…. اگر آئی ایم ایف کے دروازے پر ہی جا کر جبین کو رگڑا دینا تھا تو پچھلا دور کیا برا تھا جس میں یہ پیکیج کہیں بہتر اور مقابلتاً زیادہ نرم شرائط پر حاصل کیے گئے…. عوام کی زندگی جہنم زار میں تبدیل کیے بغیر اس کا کامیابی کے ساتھ نفاذ کیا…. اور حاصل یہ ہوا کہ اس دور کے پیشتر اقتصادی عشاریے خواہ، زر مبادلہ کے ذخائر ہوں یا مجموعی قومی پیداوار اور ٹیکسوں کی وصولی کا تناسب سب بہتری کی جانب چل پڑے آپ نے آتے ہی 9ماہ کے دوران ان تمام عشاریوں کو زنگ آلود کر کے رکھ دیا…. آپ کے موجودہ عہد زریں میں اقتصادی ترقی کا ایک معاشی عشاریہ بھی کسی قسم کی حوصلہ افزا پیشرفت کا مظاہرہ نہیں کر پایا، اس صورت حال پر جب آئی ایم ایف کے پیکیج کا جس کی خاطر بے پناہ ترلے منتاں کیے جا رہے ہیں ٹھپا لگے گا تو آپ ماشاءاللہ جس تبدیلی کا رخ روشن قوم کو دکھایا کرتے تھے اس کا بھیانک چہرہ پوری قوم کو خوفزدہ کر کے رکھ دے گا…. اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہونے سے پہلے آپ قوم کو امید دلاتے نہں تھکتے تھے جب میری ایماندار قیادت برسراقتدار آ گئی تو دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو پیغام ملے گا کہ پاکستان میں چونکہ کرپٹ عناصر کا قلع قمع کیا جا رہا ہے اس لیے وہاں نت نئی سرمایہ کاری کے بہت مواقع پیدا ہو گئے ہیں چنانچہ ڈالروں، پاو¿نڈوں اور یورو کرنسی کی سرمایہ کاری کی ایسی بارش ہونا شروع ہو جائے گی کہ تھمتے نہ تھمے گی…. ماقبل دور میں جب پاکستان اور چین کے اشتراک سے اقتصادی راہداری کا منصوبہ شروع ہوا تو ہمارے اس ہمسایہ ملک نے 45 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا…. اس کے منصوبوں نے کام کرنا بھی شروع کر دیا ہے…. اب آپ آئے ہیں تو 9 ماہ کے اندر دوسری دفعہ چین جا پہنچے ہیں…. پچھلوں کے مقابلے میں وہاں سے کتنی سرمایہ کاری لائیں گے، یہ تو آنے والے دنوں میں معلوم ہو جائے گا…. لیکن باقی دنیا بھی کھلی پڑی ہے

جہاں کے بارے میں آپ کا خیال تھا کہ میری ایماندارانہ ساکھ کی وجہ سے سرمایہ کاری کے پیسے چھنا چھن آئیں گے …. وہ تو نہیں ہوا نتیجے کے طور پر پہلے کی نسبت بےروزگاری زیادہ ہے…. مہنگائی آسمانوں سے بات کر رہی ہے اور ترقی کی جو آپ کے وعدوں کے مطابق نت نئی راہیں کھل جانی تھیں، اُن میں سے ایک پر بھی خوشحالی کی ٹریفک بحال نہیں ہوئی…. جبکہ اندرون ملک سرمایہ کاری کا گلہ نیب نے ویسے ہی گھونٹ کر رکھ دیا ہے…. آپ کو اصل توقع تو بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں پر تھی جو پچھلی انتخابی مہم کے دوران اور اس سے ماقبل دور میں آپ پر ہر طرح کی جان نچھاور کرتے پھر رہے تھے …. پی ٹی آئی والوں کی جانب سے پرزور طریقوں کے ساتھ خیال یہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اب یہ لوگ اپنے وطن میں آ کر سرمایہ کاری میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے…. لہٰذا ڈالروں اور ریالوں کے انبار لگ جائیں گے….لیکن اب تک ایک بیرون ملک آباد پاکستانی نے عمران خان کے اعلیٰ درجے کے حکومتی اقدامات سے فائدہ اٹھا کر سرمایہ کاری نہیں کی حتیٰ کہ خان بہادر نے عہدہ سنبھالنے کے چند روز کے اندر اپیل بھی کر ڈالی کہ کم از کم ایک ہزار ڈالر فی پاکستانی اور کچھ نہیں تو ڈیم کی خاطر بھجوا دیجیے، کسی نے دھیان نہیں دیا …. اب تک اس مد میں کتنے ڈالر آئے ہیں آپ کے اندر اس مد میں قوم کو اعتماد میں لینے کی جرا¿ت نہیں ہو پا رہی…. اور اب تو کئی ماہ گزر گئے ہیں آپ کی زبان پر ڈیم کا نام تک نہیں آتا…. اور اندرون ملک ٹیکسوں کی وصولی کے بارے میں جو سبز باغ آپ نے دکھائے تھے، وہاں ایسا سوکھا پڑا ہے کہ آپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ غصے میں ایف بی آر کے محکمے کا ہی قلع قمع کر دیں یا کوئی اور اقدام کریں…. یہ ہے اب تک کے کار حکمرانی کی وہ بیلنس شیٹ جو تمام کی تمام سرخ روشنائی سے لکھی گئی ہے…. نیلی یا سبز کہیں نظر نہیں آتی…. اس کے بعد آپ کے پاس پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام کی برکات گنوانے یا این آر او این آر او کرنے کے علاوہ کوئی مشغلہ باقی نہیں رہتا…

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website