اسلام آباد: اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت میں حکومت میں ضیاالحق کی روح ہے اور آخری سال اس میں آمریت کی جھلک نظر آرہی ہے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے قائدحزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ میں اسپیکر اسمبلی کا بہت احترام کرتا ہوں لیکن گزشتہ روز کے رویئے پر بہت افسوس ہوا اور علم ہوا کہ میرا اسپیکر حکومت کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے، کل جو کچھ ہوا اس پر تاریخ اسپیکر کو کیا لکھے گی، ہم آپ کا احترام کرتے ہیں لیکن آپ کی بے بسی دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، ہمارے احتجاج کے بعد آپ بھی اجلاس ملتوی کررہے تھے لیکن پھر وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے ایک بابو کی سوچ والی پرچی آئی تو بحث شروع کرادی گئی۔ خورشید شاہ کی پرچی والی بات پر قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ میں روزے کی حالت میں ہوں اور یقین دلاتا ہوں مجھے کوئی پرچی نہیں بھیجی گئی۔ خورشید شاہ نے کہا پھر آنکھوں آنکھوں میں ہی اشارے ہوئے ہوں گے لیکن جو بھی ہوا حکومت نے اسپیکر کو اپوزیشن کے سامنے متنازعہ بنا دیا ہے۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ چئیرمین سینیٹ نے حکم دیا کہ اپوزیشن لیڈر کا خطاب براہ راست دکھاؤ تو 10 منٹ میں ہوگیا، اگر ان کے کہنے پر ایوان بالا کی کارروائی براہ راست دکھائی جاسکتی ہے تو اسپیکر کے کہنے پر قومی اسمبلی کی کارروائی کیوں نہیں۔ میں اسپیکر قومی اسمبلی کو قصور وار نہیں ٹھہراتا مجھے علم ہے کہ انہوں نے ایک بار پھر الیکشن میں حصہ لینا ہے، لیکن انہیں کسی سے ڈرنا نہیں چاہئے۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ گزشتہ روز میرے مؤقف کو مان لیا جاتا تو کون سی قیامت آجاتی، میں وہی خورشید شاہ ہوں جس کا ایک ایک لفظ 2014 میں براہ راست دکھایا جاتا تھا اور جب ایوان میں میری آمد ہوتی تو ہاتھ چومے جاتے لیکن حکومت میں ضیاالحق کی روح ہے اور آخری سال اس میں آمریت کی جھلک بھی نظر آرہی ہے حقوق مانگنے والوں پر گولی چلائی جاتی ہے۔ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ہم نے جمہوریت کو خون دے کر پالا ہے، ہم ایسا ایوان نہیں بننے دیں گے جو لولا لنگڑا اندھا اور کانا ہو، یہ کسی کا حق نہیں کہ اپوزیشن کے ہاتھ پاؤں باندھ دے، یہ کام جمہوری اداروں کا نہیں ڈکٹیٹر کا ہوتا ہے، اگر اسپیکر کا یہی رویہ رہا تو حکومتی بجٹ کو کوئی نہیں مانے گا۔