تحریر : عالیہ جمشید خاکوانی
دبی دبی سسکیوں کی آواز گیلری میں سے آرہی تھی ۔وہ نیند میں کسمسائی لیکن سرگوشیوں اور سسکیوں نے اسے اٹھنے پر مجبور کر دیا اس نے گیلری کی طرف کھلنے والی کھڑکی کا پردہ ذراسا سرکایا ۔”اوہ بے اختیار اس نے ایک طویل سانس خارج کی ۔” وہ تینوں عورتیں الگ الگ کیفیت میں تھیںایک بہو تھی جو منہ پر ہاتھ رکھے سسک رہی تھی دوسری ساس تھی جس کی آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں کیا تم تھوڑی دیر کھانے میں ساتھ نہیں دے سکتی تھیںتم کیوں یہ تاثر دینا چاہتی ہو کہ اس گھر میں تم پہ ظلم ہو رہا ہے ساس نے دانت پیس کر کہا بہو چپ چاپ سسکتی رہیتیسری نوکرانی تھی جو بے بسی سے دونوں کو کو دیکھ رہی تھی ۔اس نے انکی گھریلو کہانی میں مداخلت بہتر نہ سمجھی اور چپ چاپ آ کر لیٹ گئی ۔وہ اس گھر میں ساس کی سہیلی تھی اس کی مہمان تھی لیکن وہ اس کی بہو کے بارے میں سوچ رہی تھی جو بظاہر تو بہت دبی دبی سہمی سہمی سی لڑکی تھی خاموشی سے کام میں مصروف ایک بات تھی وہ بالکل ڈل سی تھی جوا ن العمری میں ہی اتنی ڈل۔”
اسے اس گھر میں آئے دوسرا روز تھا وہ بلا شبہ کھانا بہت اچھا بناتی اور بڑی خوبصورتی سے ٹیبل لگاتی مگر اپنے حال کی طرف کوئی توجہ نہیں ۔” شائد اپنے شوہر کے جانے سے اداس ہے ایک بار اس کے استفسار پر یہ ہمیشہ سے ہی ایسی ہے اس کی ساس تنک کر بولی وہ یہاں تھا تب بھی ایسی ہی اجاڑ صورت۔۔۔۔۔۔۔اس کی سہیلی جو اس لڑکی کی ساس تھی بہت ہی نفیس طبیعت کی تھی اس عمر میں بھی سر سے پائوں تک میچنگ کا خیال رکھنے والی نہایت خوش لباس خاتون تھیں ہر محفل میںخود کو نمایاں کرنے کا شوق انہیں ہر ایک کی توجہ دلا ہی دیتا لیکن ان کی بہو؟؟؟ شام کو وہ اس کے کمرے میں چائے دینے آئی اس کی ساس مغرب کی نماز پڑھنے میں مصروف تھی تو اس نے اس کا ہا تھ پکڑ کر اپنے پاس ہی۔
بٹھا لیا۔بیٹا ہمارے پاس بھی بیٹھو۔” میں رات کے کھانے کی تیاری کر رہی ہوں وہ عجلت سے بولی ۔کوئی بات نہیں دو منٹ ،اچھا وہ جیسے بادل نخواستہ بیٹھ گئی مجھے تم سے کچھ کہنا ہے تم اتنی اداس کیوں رہتی ہو کیا میاں کی وجہ سے ؟اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں تو اس نے اسے گلے سے لگا لیا ۔بیٹا آجکل تو فاصلے فاصلے نہیں رہے جدید ٹیکنالوجی نے سب کو ہی اتنا قریب کر دیا ہے روزانہ ہی بات ہوتی ہو گی کیم پہ روز شکل بھی دیکھ لیتی ہو گی وہ بھی تمہیں دیکھتا ہوگا مگر بیٹا تم خود کو سنوار کے رکھا کرو تمھارا شوہر تمہیں اس حلیے میں دیکھتا ہو گا وہ جلدی جلدی بولتی چلی گئی وہ مجھ سے اس حال میں بھی پیار کرتا ہے میں ہمیشہ سے ہی ایسی ہوں وہ لڑکی بے ساختہ بولی تو وہ بھی ہنس پڑی اس نے غور سے لڑکی کو دیکھا کھڑی ستواں ناک،بیضوی چہرا،بھرے بھرے ہونٹ بادام جیسی آنکھیں نازک سراپا بس ذرا سی رنگت دبی ہوئی تھی جو معمولی توجہ سے نکھاری جا سکتی تھی ۔۔۔ میں اس لڑکی کو سمجھا کے رہونگی اس نے بڑی سہولت سے سوچا یہی سوچتے وہ سو گئی دوسرے دن اس کو اچانک ہی واپس جانا پڑا کمپنی نے اس کا تبادلہ انگلینڈ کر دیا اپنی تیاریوں میں وہ سب کچھ ہی بھول گئی۔
اور آج تین سال بعد اپنی سہیلی کے گھر کھانا کھاتے ہوئے وہ بڑی خوش گوار حیرت سے اس کی بہو کو دیکھ رہی تھی جو بڑے اعتماد سے ایک ایک ڈش اس کے آگے بڑھاتے ہوئے ہنس ہنس کے اس سے باتیں بھی کر رہی تھی اور وہ اس کے ہموار دانتوں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی شکر ہے لڑکی شوہر کے آنے پہ خوش ہے اب کی بار اس کو اپنی سہیلی ڈل سی لگی لیکن اس نے کوئی خاص نوٹس نہیں کیا ۔شام کو وہ اسی طرح اس کے کمرے میں چائے دینے آئی تو خلاف توقع اپنا کپ بھی ساتھ لائی اور چائے پیتے اس سے اس کے بارے میں پوچھنے لگی اس نے اپنا حلیہ بہت بہتر کر لیا تھا نین نقش تو خوبصورت تھے ہی رنگت بھی کافی بہتر ہو گئی تھی سب سے بڑھ کر اعتماد نے اس کا چہرہ روشن کر دیا تھا وہ بات بے بات ہنستی رہی آخر اس نے پوچھ ہی لیا شکر ہے تم شوہر کے آنے سے خوش ہو نا بہت بدل گئی ہو۔
شوہر کے آنے سے میں خوش تو ہوں آنٹی!مگر تبدیلی میرے اندر کسی اور وجہ سے آئی ہے ۔اچھا کچھ ہمیں بھی پتہ چلے وہ تجسس سے بولی ۔” سیلفی صرف ایک سیلفی۔۔۔۔۔سیلفی؟ جی آنٹی میرا شوہر میرے لیئے نیا موبائل لایا تھا جس سے میں نے اپنی پہلی سیلفی لی اور اس نے میری زندگی بدل دی میں نے اپنے آپ کو دیکھا اور سوچا سیلفی میں میں کتنی پیاری لگ رہی ہوں کیونکہ اس میں میری رنگت نظر نہیں آ رہی جس کی وجہ سے میں ساری عمر احساس کمتری میں مبتلا رہی اور اس احساس نے میری ہر خصوصیت کو پیچھے دھکیل دیا ۔میں بیزار رہنے لگی شادی ہوئی تو ساس رنگ روپ کے طعنے دیتیں تب میری ہمت جواب دے گئی میں سوچتی یہاں بھی وہی رنگت کا طعنہ تو اب آگے کیا ہوگا میرا ٹھکانہ؟میں نے سجنا سنورنا ہی چھوڑ۔
لیکن میرا شوہر بہت اچھا ہے اس نے ہر حال میں میری ہمت بندھائی اور مجھ سے پیار کیامیں اب اس سے بہت پیار کرتی ہوں اپنی رنگت نکھارنے کی کوششیں بھی کرتی ہوں وہ شرارت سے کھلکھلا کر ہنسی اب میری رنگت کچھ بہتر ہو گئی ہے نا آنٹی؟میرا میاں کہتا ہے یہ ہوئی نا اچھی بیویوں والی بات ۔تو اب اس کا پیار مجھے ترس نہیں سچ مچ کا پیار لگتا ہے ۔وہ مسکراتے ہوئے چائے کے برتن اٹھا کے چلی گئی اور وہ سوچتی رہی چیز تو ایک ہی ہوتی ہے مگر ہر جگہ اس کا برا استعمال نہیں ہوتا کہیں نہ کہیں کوئی مثبت جواز ہمیشہ موجود رہتا ہے جیسے ایک سیلفی نے اس لڑکی کی زندگی بدل دی تھی۔
تحریر : عالیہ جمشید خاکوانی