تحریر: شاہد شکیل
خود غرضی کی دنیا میں کئی مثالیں قائم ہیں لیکن کیا انسان پیدائشی طور پر خود غرض ہے یا زمانے کی صعوبتیں اور نہ ختم ہونے والے مسائل اسے خود غرض بنا دیتے ہیں ،کیا خود غرضی انسان کا شیوہ بن چکا ہے یا محض اپنی ذہنی تسکین کیلئے دیگر افراد کو جان بوجھ کر تکلیف پہنچائی جاتی ہے ،کیا یہ ایک اچھی اور مثبت عادت ہے یا موقع کی نزاکت کو بھانپ کر ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے ان چند سوالوں کے علاوہ بھی کئی ایسے سوالات ہیں کہ آج انسان کیوں اس مرض میں مبتلا ہو گیا ہے کیا یہ ایک عادت ہے، بیماری ہے یا وقت کی اہم ضرورت، کیوں انسان اپنی اس عادت سے نجات حاصل نہیں کر سکتا اور دیگر افراد کو شدید مشکلات اور ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیتا ہے۔
بس یا ٹرین میں دوران سفر ہر کوئی اپنے لئے وسیع جگہ بنانے کی کوشش میں رہتا ہے اور دھکے دینے سے بھی گریز نہیں کرتا ،کئی گھنٹوں سے قطار میں کھڑے افراد کو نظر انداز کرتے ہوئے سب سے پہلے نمبر پر کھڑا ہونا چاہتا ہے،کار پارکنگ کرتے ہوئے ہر شے کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اخلاق اور مروت سے گفتگو کرنے والوں کے ساتھ بد تہذیبی اور بدتمیزی کی جاتی ہے،یہ سب کیوں روزمرہ زندگی میں پیش آتا ہے ؟جب دنیا میں ہر انسان پہلے آپ کی بجائے (میں) یا اس پر صرف میرا حق ہے جیسا رویہ اختیار کرے گا تو اس کے نتائج منفی ظاہر ہونگے اور ایسا رویہ اختیار کرنے والے کو خود غرض کہا جائے گا۔
خود غرضی تقریباً دنیا کے ہر انسان میں پائی جاتی ہے اور انسان کے اندر احساس کی بھی کمی نہیں لیکن وہ اپنے احساس کو محسوس کرنے کی کوشش نہیں کرتا اور ساری زندگی اس تگ ودو میں ہی رہتا ہے کہ میرے مسائل پہلے حل ہوں باقی دنیا بھاڑ میں جائے ۔صحت پر ریسرچ کرنے والے جرمن ڈاکٹر بائیر کا کہنا ہے ہر انسان کے اندر ذہنی اور قلبی طور پر احساس کے ساتھ ساتھ اسکی چھٹی حس بھی اہم کردار ادا کرتی ہے اور یہ وہ حس ہے جو اسکی ضروریات اور خواہشات کی غلام ہے کئی افراد معمولی شے کو محسوس کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے ہیں اور کئی اتنے خود غرض اور بے حس ہوتے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے ظلم ہوتے ہوئے بھی آنکھیں موند لیتے ہیں آپ ایسے افراد کو بیمار یا عادت میں مبتلا نہیں کہہ سکتے بلکہ انکی طبیعت یعنی پیدائشی طور پر احساس کی کمی پائی جاتی ہے جس سے دیگر لوگ شدید متاثر ہوتے ہیں۔
ہمارے بنیادی علاج اور پریکٹس کے مطابق جن افراد میں احساس پایا جاتا ہے وہی دوسروں کے دکھ درد اور احساس کو محسوس اور احترام کرتے ہیں کیونکہ دو طرفہ باہمی غور فکر،رواداری اور امن ہی ان کا اصول ہوتا ہے طبی زبان میں اسے تندرست احساس کہا جاتا ہے ایسے افراد انہی احساسات کے بل بوتے پر دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے خود نقصان اٹھائیںاور آج کے دور میں تقریباً ایسا ہی ہو رہا ہے احساس رکھنے والے انسانوں کو خود غرضوں نے چابی کا کھلونا سمجھ رکھا ہے جب جی چاہا استعمال کیا جب جی چاہا کھیلا ،توڑا اور چھوڑ دیا۔ایک خود غرض انسان دنیا کو کبھی نہیں سمجھ سکتا کیونکہ اگر اس کے نامعقول رویئے پر اس سے بات کی جائے تو اس کا یہی جواب ہوتا ہے کہ میں ذاتی طور پر نقصان نہیں پہنچانا چاہتا ہوں اور نہ کسی سے دشمنی ہے یا کسی کے بارے میں برا نہیں سوچتا جو کچھ بھی ہوا انجانے میں ہوا یا آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے وغیرہ،یعنی جان بوجھ کر کہنی مارنے پر غلط فہمی ہوئی یا انجانے میں کہنی ماری گئی ایسے جواب سن کر طیش میں آنے کے سوا انسان کیا کر سکتا ہے۔
کیونکہ ایسی غلط فہمیاں ہر لمحے ہوتی رہتی ہیں با الفاظ دیگر معاشرہ ہی کہنی مار بن گیا ہے اور جان بوجھ کر کسی انسان کو دکھ اور ذہنی اذیت پہنچانے کو خود غرضی، بے حسی اور بے رحمی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا آج کا انسان موروثی خود غرض ہے؟اس کے بارے میں مختلف قیاس آرائی کی گئی کہ انسان نیچرلی خود غرض ہے اس کے اندر پائی جانے والی نفرت ہی اسے اکساتی ہے کہ وہ بے جا دوسرے افراد کو تکلیف پہنچائے، کئی ماہرین کا کہنا ہے خود غرضی انسان کی جین میں ہے کیونکہ زندگی کی آسائیشیں اور خواہشات کی تکمیل کے لئے خود غرضی ایک عقیدہ حیات بن چکا ہے ہر کوئی ایک دوسرے کے خلاف ہے اور برتری چاہتا ہے اور کسی بھی طرح اسے زک پہنچانے کی تاک میں بیٹھا رہتا ہے لیکن کامیاب وہی ہوتا ہے جو ہر لحاظ سے طاقت ور اور بے رحم ہے مثلاً دنیا کے کئی ممالک میں سیاست دان لاش خور بن چکے ہیں۔
عوام کی لاشوں پر بیٹھ کر سیاست اور ڈیموکریسی کا ڈھول پیٹتے ہیں وغیرہ۔دماغ اور سوشیالوجی پر ریسرچ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان موروثی یا پیدائشی طور پر خود غرض نہیں بلکہ ہمدرد اور کوآپریٹو ہے امریکی پروفیسر کیلٹز کا کہنا ہے انسان کی سوچ ہی اسکی سب سے بڑی کمزوری ہے اور سوچ ہی اسے کامیاب یا ناکامی سے ہمکنار کرتی ہے ،سوچ کے سہارے ہی انسان زندگی کا رخ اور انداز تبدیل کرتا ہے یہ سوچ ہی ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو کیسی نظروں سے دیکھتا ، پرکھتا اور کیسے قبول کرتا ہے اسی سوچ کے سہارے وہ وقتی طور پر رونما ہونے والے لمحات کا فیصلہ کرتا ہے سوچ مثبت ہوگی تو احساس پیدا ہو گا نہیں تو خود غرضی کی زہریلی لہریں اسکے ساتھ ساتھ دیگر افراد کو بھی شکنجے میں جکڑ لیں گی۔ پروفیسر کا کہنا ہے احساس انسان کو خوش رکھتا ہے اخلاق اور معیاری گفتگو ہر انسان کی شخصیت میں مثبت کردار ادا کرتی ہے جس سے نہ صرف خود انسان کیلئے بلکہ معاشرے میں اسے آعلیٰ مقام دلاتی ہے اور ایسے افراد پر اعتماد اور پرسکون طویل عمر زندگی بسر کرتے ہیں۔
انسان میں پایا جانے والا احساس یا خود غرضی جسے باڈی لینگویج بھی کہا جا سکتا ہے ایک اہم کردار ادا کرتا ہے باڈی لینگویج کے علاوہ ایگو موو یعنی جسمانی حرکات انسان کی نیچرل اداؤں میں شمار ہوتی ہیں جنہیں وہ شاید خود محسوس نہیں کرتا لیکن دیگر افراد فوری محسوس کرتے ہیںکہ کس قماش کے انسان سے واسطہ پڑا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے خود غرض انسان کی عمر طویل نہیں ہوتی کیونکہ وہ صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے اور مطلوبہ شے کے حصول کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے اور حاصل نہ ہونے پر شدید الجھن کا شکار ہوجاتا ہے الجھن کا شکار ہونے کا مطلب ڈپریشن اور سٹریس ہے جس کے نتیجے میں وہ جسمانی و روحانی طور پر بیمار ہوجاتا ہے اور رفتہ رفتہ زندگی سے ناطہ ختم۔
تحریر: شاہد شکیل