counter easy hit

بے لوث سیاستدان مہر فضل حسین سمرا اور ہمارے حکمران

Mehr Fazl Hussain

Mehr Fazl Hussain

تحریر: صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
بندہ ناچیز عرصہ دراز سے داتا کی نگری لاہور میں روزگار کے سلسلہ میں مقیم ہے ادبی ، صحافتی اور سماجی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اب روحانی اور دینی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں لاہور کے پو ش ایریا اعوان ٹائون میں ایک مرکزی جامع مسجد مدینہ شریف میں جمعة المبارک کی خطابت کے ساتھ ساتھ روزانہ نماز فجر کے بعد درس ِ قرآن کا سلسلہ بھی شروع کیا ہوا ہے اور اب تو الحمد للہ داتا کی نگری لاہور میں ماہانہ 20 دروس ِ قرآن کا سلسلہ جاری ہے ان تمام مصروفیات کی وجہ سے اپنے آبائی شہر اب کم ہی حاضری کا موقع ملتا ہے مگر پوری دنیا کی طرح ضلع لیہ میں بھی روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی تمام تر سر گرمیوں سے پوری طرح آگاہ رہتا ہوں دسمبر کی نہایت ہی سرد اور ٹھٹھرتی رات کے پچھلے پہر اچانک موبائل کی گھنٹی بجی جس نے مجھے چونکا دیا اورمنہ سے نکلا ”اللہ خیر کرے”اس وقت خیر کی ہی خبر ہو، موبائل آن کیا تو دوسری طرف دیرینہ دوست پی ٹی آئی کے بے لوث ورکر جناب ِ سعید خان پٹھان (سید جان ) نہایت ہی رندھی ہوئی آواز میں پڑھ رہے تھے ”اِن َ لِلَہِ وَ اِنَ اِلیہِ راجِعون” دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں بمشکل وہ کہہ سکے کہ ”مہر فضل حسین سمرا صاحب ”اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔۔

میرے ہاتھ کی گرفت کمزور ہوگئی اور ہاتھ سے موبائل گر گیا بس پھر کیا آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی ،بے ریا درویش واقعی ”اللہ کو پیارے ہو گئے ‘یقیناََ وہ اللہ تعالیٰ کو پیارے تھے اور ہر مردِ درویش اللہ کو پیارا ہی ہوتا ہے ، میری بہت زیادہ خواہش تھی کہ میں اُن کے جنازے میں شرکت کرتا مگر اگلے ہی دن مجھے BY ROADحضرت خواجہ غریب نواز پیر معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللہ علیہ کے عرس مبارک کے سلسلہ میں اجمیر شریف (انڈیا )عازم سفر ہونا تھا اور اسی طرح 10دن انڈیا کے دومشہور شہروں بریلی شریف اوراجمیر شریف میں ہونے والی ادبی اور روحانی تقریبات میں مصروف رہا واپسی پر ربیع الاول شریف کی محافل میں شب و روز مصروفیت کا عالم تھا

اب چند روز سے کچھ فرصت کے لمحات نصیب ہوئے ہیں تو سوچا مرد ِ درویش جناب مہر فضل حسین سمرا مرحوم کے سیاسی جانشین اُبھرتے ہوئے لیڈر اور سمرا برادری کے متفقہ راہنما مہر یاسر وسیم سمرا صاحب سے قلمی تعزیت کی جائے انشا ء اللہ لیہ حاضری کے موقع پر بھی بنفسِ نفیس سمرا ہائوس حاضر ہو کر مہر صاحب مرحوم کے اہل ِ خانہ اور یاسر وسیم سے دعائے مغفرت کی جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مہر صاحب مرحوم کی ضلع لیہ کی عوام کے لیے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ضلع لیہ کی عوام نے مہر صاحب مرحوم پر اپنی محبتوں کے پھول نچھاور کیے جس کا واضع ثبوت اُن کے جنازے میں شرکت کے لیے کالج گرائونڈ میں ہونے والے کثیر الاجتماع سے ملتا ہے ہزاروں لوگوں کا جمِ غفیر تھا سننے میں آیا ہر آنکھ اشک بار تھی اور قُل خوانی پر تو جنازہ سے بھی دو گنا زیادہ اہلِ سیاست ، اہلِ اقتدار ، حزبِ اختلاف اوراہلِ محبت شریک ہوئے تھے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ بقول شاعر

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
ایک بے لوث شخص سارے شہر کو اُداس کر گیا

مہر صاحب مرحوم نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے ، دھیمی طبیعت کے مالک تھے ،انتہائی شائستہ گفتگو کیا کرتے تھے اور اقتدار کی غلام گردشوں سے اچھی طرح واقف تھے کسی زمانے میں سیاست کو عبادت کا درجہ حاصل تھا اور اہل سیاست لوگوں کی بے لوث خدمت عبادت سمجھ کر کیا کرتے تھے ان کے پاکیزہ ذہنوں میں خدمت انسانیت کی ایک دھن اور لگن رچی بسی ہوتی تھی اہل سیاست کے دروازے شب وروز ہر امیر غریب کے لیے کھلے ہوتے تھے اوربڑی خندہ پیشانی کے ساتھ اپنے عوام کی خدمت کیا کرتے تھے مگر جو ں جوں سیاست کی وادی میں نا اہل، اجڈ ، گنوار اور تجارت پیشہ لوگ شامل ہوتے گئے تو ں توں سیاست کا ماحول میلا ، گدلااور کمر شلائز ہوتا گیا اور اپنے حلقہ کے غریب ووٹر ز کے لیے الگ پیمانے اور امیر ووٹر ز کے لیے الگ مہ خانے ترتیب دیے جانے لگے

پاکستانی سیاست کا کلچر ہے کہ منتخب ہونے کے بعد قوم کی ”خدمت ” کا حلف اٹھاتے ہی اہل سیاست کے تیور بدلنے شروع ہو جاتے ہیں اور آج کے اخبارات ہی اُٹھا کر دیکھ لیں کہ کس لیڈر نے ملک و قوم کی فلاح اور اصلاح کی بات کی ہے ؟ہماری موجودہ سیاست کا مزاج یہ ٹھہرا ہے کہ جب تک ایک دوسرے پر کیچڑ اور گند نہیں اُچھا لو گے اس وقت تک تم کوچہ سیاست میں داخل ہی نہیں ہو سکتے ہم نے ایک دوسرے پر طعن و تشنیع ہی کو سیاست کے لیے جُزوِ لازم قرار دے رکھا ہے مگر جب ہم اپنے اسلاف اور اکابرین کی روشن و تابندہ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری روح کے بند دریچے کھُلتے اور پژمردہ چہرے کھِلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ، حضرت ابوبکر صدیق نے خلافت کا منصب سنبھالتے وقت اپنا تا ریخی خطبہ ارشاد فر مایاتھا جو سنہرے حروف سے لکھنے اور دل کے نہاں خانوں میں چھُپانے کے قابل ہے ،اول آپ نے حمد و ثناء الہی بیان کی پھر فر ما یا تھا

” بعد حمد الہی اے آدمیو !واللہ مجھ کو ہر گز امیر بننے کی حرص نہ کبھی دن میں تھی اور نہ میں نے اللہ سے ظاہر یا پوشیدہ اس کے لیے دُعا کی البتہ مجھ کو یہ خوف ہوا کہ کو ئی فتنہ نہ اُٹھ کھڑا ہو مجھ کو حکومت میں کچھ راحت نہیں ہے بلکہ مجھ کو ایک ایسے امر ِ عظیم کی تکلیف دی گئی ہے جس کے بر داشت کی مجھ میں طا قت نہیں اور نہ وہ بدون اللہ عز و جل کی مدد کے قا بو میں آسکتا ہے میری ضرور یہ آرزو تھی کہ آج میری جگہ سب سے زیادہ قوی آدمی ہو تا یہ تحقیق ہے کہ میں تمہارا امیر بنا یا گیا ہوں اور میں تم سے بہتر نہیں ہو ں اگر میں راہ راست پر چلوں مجھ کو مدد دو اگر بے راہ چلوں مجھ کو سیدھا کر دو صدق امانت ہے اور کذب خیانت ، جو تم میں کمزور ہے وہ میرے لیے قوی ہے انشا ء اللہ اس کا حق دلوا دوں گا اور تم میں جو قوی ہے وہ میری نظر میں کمزور ہے اس سے انشا ء اللہ حق لے کر چھو ڑوں گا ، جو قوم راہ حق میں جہاد چھو ڑ دیتی ہے وہ ذلیل کر دی جاتی ہے اور جس قوم میں بے حیائی کا راج ہو جا تا ہے اُس پر عام طور پر عذاب ِ الہی نازل ہوجا تا ہے جب تک میں اللہ اور اُس کے رسول ۖ کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو اور جب میں خدا اور اس کے رسول ۖ کی نا فر مانی کروں تم کو میری اطاعت نہیں کرنی چا ہیے ”

اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی ٰ عنہ نے ہمیشہ رسول ِ رحمت ۖ کی پاکیزہ سیرت طیبہ کو رول ماڈل بنا یا ہے اور اُسی کے مطابق نظام ِ حکومت کو چلا یا ہے اور آپ ایک فرض شناس ، خادم قوم اور قانون کی پا بندی کرنے والے حکمران کے طور پر معروف تھے اگر ہمارے حکمران صرف حضرت ابو بکر صدیق کے دور ِ حکومت ہی کو رول ماڈل بنا لیں تو پا کستان تمام تر معاشی ، سیاسی ، اقتصادی ، داخلی اور خارجی مشکلات سے نجات پا سکتا ہے اور عوام بھی خو ش حالی کی زندگی بسر کر سکتے ہیں مگر بد قسمتی سے ہمارے حکمران خلفاء راشدین کی سیرت طیبہ سے کو سوں دور ہیں اور نافذ کرنا تو کُجا انہوں نے تو کبھی یہ زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ ہم خلفاء راشدین خصوصاََ حضرت ابو بکر صدیق کے صرف ایک طرز عمل کو اپنی نظام حکو مت کا حصہ بنا لیں تو ہماری غریب عوام سُکھ کا سانس لے سکتی ہے کہ جب حضرت ابو بکر صدیق کا وصال ہوا تو حضرت عمر فاروق نے نظام خلافت سنبھا لا تو آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر صدیق با قاعدگی کے ساتھ فلاں علاقہ میں ایک غریب بوڑھی عورت کواپنے ہا تھوں سے کھانا کھلا یا کرتے تھے

توحضرت عمر فاروق نے یہ ڈیوٹی سنبھال لی اور جب آپ پہلے دن اُس نا بینابوڑھی عورت کو کھانا کھلانے لگے اور آپ نے روٹی کا لقمہ توڑ کر اُس کے منہ میں ڈالا تو اُس بوڑھی نا بینا عورت کی چیخ نکل گئی اور وہ عورت رونے لگی اور کہا کہ لگتا ہے کہ امیر المومنین (حضرت ابو بکر صدیق )اس دنیا میں نہیں رہے کیونکہ جب وہ روٹی کا لقمہ میرے منہ میں ڈالتے تھے تو منہ میں ڈالنے سے پہلے وہ اس کو اچھی طرح چبا کر میرے منہ میں ڈالا کرتے تھے کیونکہ میرے منہ میں دانت نہیں ہیں اور وہ مجھے چبا چبا کر کھلاتے تھے آج کیونکہ آپ نے سالم لقمہ میرے منہ میں ڈالا ہے تو میں نے محسوس کیا ہے کہ آج مجھے کھا نا کھلانے والا کوئی اور ہے ،
کاش ہمارے حکمران بھی ایسی عادتوں کے خوگر اور عادی ہو جائیں تو ملک میں کوئی غریب بھو کا اور غربت باقی نہ رہے ،مگر پاکستانی سیاست کا دستور کچھ وکھری ٹائپ کا ہے وہی لوگ جو الیکشن سے پہلے ایک وی وی آئی کا پروٹول رکھتے ہیں اور اُن کے تمام ناز نخرے امیدواران پہلی رات کی دلہن کی طرح برداشت کرتے ہیں اور اُن کی ہر خوشی غمی شیئر کرنا وہ اپنا فرض ِ منصبی سمجھتے ہیں

ایوان اقتدار میں داخل ہوتے ہی اُن کے تمام تر ضابطے ، قوانین ، اصول اور نعرے تبدیل ہو جاتے ہیں اور غریب عوام کے منہ میں لقمہ دینا تو کُجا اب ایسا وقت آگیا ہے کہ اُن کے منہ سے روٹی کے لقمے زبر دستی چھینے جا رہے ہیں اور ان کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل تر ہوتا جا رہا ہے پاک سر زمین ، کشور حسین ، مرکز یقین اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کا قانون اور جمہوریت تو پہلے ہی دستیاب نہیں تھی اب پٹرول بھی نایاب ، اشیاء ضروریہ کم یاب ، بجلی عدمِ دستیاب، ایسے مشکل ترین حالات میں غریب عوام کہاں جائے ؟

ہمارے ”راہنمایان ِ قوم ” نے قوم سے اتنے جھوٹ بولے ہیں کہ اب ان کی کسی سچی بات پر بھی یقین کرنے کو دل نہیں کرتا باب العلم ، صاحب نہج البلاغہ ، حامل ذو الفقار حضرت علی کرم اللہ وجہ الریم سے کسی نے پوچھا ”آخر جھوٹ بولنے سے کیا نقصان ہو تا ہے حالانکہ جھوٹا آدمی ہر طرف سے فائدہ ہی اُٹھاتا ہے اور جھوٹ موٹ بول کر اِدھر اُدھر سے نفع سمیٹ لیتا ہے ”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر مایا ”ایسا چند دن ہو تا ہے اس کے بعد جھوٹ بولنے والے کو سب سے بڑا نقصان یہ ہو تا ہے کہ اس کی سچی بات کا اعتبار اور اعتماد ختم ہو جاتا ہے ”مگر بد قسمتی یہ ہے کہ قوم کا حافظہ بھی بہت ہی کمزور ہے بلکہ اب تو روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ویسے ہی عوام کی” مت ”مار دی ہے اگر عوام اپنے حافظے پہ ذرا سا بھی زور دے اور تصور میں لائے کہ جناب میاں نواز شریف نے بار ہا مرتبہ اپنی پریس کانفرنسز اور اجتماعات میں یہ اعلان کیا کہ جو لوگ مسلم لیگ چھوڑ کے چلے گئے ہیں

Politics

Politics

ہم ان بھگوڑوں کو کسی صورت واپس نہیں لیں گے مگر اب وہی لوگ جن کو عرف ِ عام میں لوٹا کہتے ہیں اِن لوٹے ، لٹیروں اور فصلی بٹیروں کو میاں صاحب نے اپنے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنے سینے سے لگا یا ہوا ہے ، کہاں گیا ضابطہ ، قانون اور اصول پرستی کا وہ پیمانہ جس کی بنیاد پر عوام سے ووٹ لیے جاتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ موجودہ سیاست کا کوئی اصول اور ضابطہ نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف اپنا ذاتی مفاد ہی ہے جس کے بل بوتے پر سیاست کی جاتی ہے تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ہمیں تو سب کچھ یاد ہے ناں ” کوٹھوں پر جس طرح ہر رات بستر بدلتے ہیں اس سے کہیں بڑھ کر ہمارے سیاستدانوں کے اصول اور قاعدے بدلتے ہیں

بلکہ اب تو پارٹیاں اور وفا داریاں بدلتے بھی دیر نہیں لگتی ،ایوان ِ اقتدار میں کھنکتی ڈالروںاور سکوں کی ذرا سی جھنکار سے ہمارے ”راہنمایان ِ قوم ” کے دل بھی دھڑکنا شروع کر دیتے ہیں اور مرغ بسمل کی طرح تڑپنا شروع کر دیتے ہیں کہ کب اس جھنکار کی مسحور کن آواز سے براہ راست لطف اندوز ہوا جائے بس ایک میٹنگ ہوئی اور فوراََ بعد پریس کانفرنس کھڑکائی جاتی ہے کہ ” ہم نے اصولوں کے فروغ اور عوام کی خدمت کے لیے فلاں لیگ یا پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے ” مہر فضل حسین سمرا مرحوم نے کبھی بھی اپنے ذاتی مقاصد کے لیے سیاست نہیں کی ہمیشہ عوامی مفادات اور بھلائی کے لیے کام کیا اور روادار انسان تھے ، محبت اُن کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی

ہماری سیاست کا رویہ تشد آمیز اور ہنگامہ خیز ہے ، ہمارے مذہبی رویوں میں آتشیں اور زلزلہ آفریں جراثیم پائے جاتے ہیں ، ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم آج تک اپنی سیاست میں استقلال ، مذہب میں استدلال اور سو سائٹی میں اعتدال پیدا نہیں کر سکے ہمارے سیاسی اکابرین کی اگر فہرست پیش کی جائے کہ جنہوں نے قیام ِ پاکستان کی جدو جہد میں عملاََ حصہ لیا تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ایسے اُجلے اور نکھرے کردار کے لوگ بھی پاکستان کی سرزمین پر موجود تھے ؟ ان لوگوں کو بلا شبہ پہاڑی کا چراغ اور زمین کا نمک کہا جا سکتا ہے ، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آج ہماری سیاسی قیادتیں دماغ ، فکر ، کردار ، اوریجنیلٹی ، بیدار مغزی اور کشادہ نگہی سے یکسر کیوں محروم ہیں ؟ ”راہنمایان ِ قوم ” اپنا سارا زور اور توانائی دولت ، عصبیت ، طاقت ، جہالت ، خوشامد ، ذاتی وفاداری اور بونے پن پر کیوں صرف کر رہے ہیں ؟

برملا کہا جا سکتا ہے کہ سرزمین پاک نہ تو فکری لحاظ سے بانجھ پن کا شکار ہے اور نہ ہی ذہنی طور پر بنجر ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے سینے میں ایسے ایسے خزانے چھپا دیے ہیں اگر اُن کو صحیح جگہوں پر استعمال کیا جائے تو آج دنیا ہماری دہلیز کی محتاج ہو اور کاسہ لے کر ہمارے دروازے پر کھڑی اپنی سانسوں کو باقی رکھنے کے لیے بھیک مانگ رہی ہو ،مجھے اس موقع پر آبروئے صحافت جناب ِ مجید نظامی کی وہ بات شدت سے یاد آرہی ہے جو آپ نے کئی سال پہلے ”پاکستان تھنکرز فورم ” کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی کہ ”اسلام آباد میں امریکی سفیر مسٹر مونجو کا پاکستان میں مقام بر طانوی عہد کے وائسرائے سے کم نہیں ، آج دنیا ”گلوبل ویلیج ” ہے تو امریکہ اس کا چو ہدری !وہ جاپان ، فرانس ، بر طانیہ اور جرمنی تک پر اپنی چوہدراہٹ چلانا چاہتا ہے تو پاکستان کس باغ کی مولی ہے ،

اپنی حفاظت اور اپنی فوج کی مضبوطی کے لیے ہم نے لیاقت علی خان کے دور سے چکر لگانے شروع کیے مرحوم آصف نواز بھی امریکہ گئے ، جنرل وحید بھی چکر لگا آئے ، ہم اتنے اہتمام کے ساتھ حج اور عمرہ کرنے کے لیے نہیں جاتے جتنے اہتمام کے ساتھ واشنگٹن جاتے ہیں ، ہم یا تو اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ امریکہ ہی ہمارا ملجیٰ و ماویٰ ہے یا پھر خود میں قوت بازو پیدا کریں اپنی عزت ، خودداری اور آزادی و خو د مختاری کی حفاظت کریں ”یہ خطبہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم نے سیاست کو تجارت بنادیا ہے اور ہم نے امریکہ کی غلامی کو کائنات کی عظیم ترین متاع تصور کر لیا ہے اس کا واضع ثبوت آج بھی آپ کو نظر آئے گا کہ کس طریقے سے ہمارے ”با اختیار ” حکمران امریکی سفیر کے سامنے دست بستہ نظر آتے ہیں اور معمولی درجے کے سفیر کو وہ پروٹوکول دیا جاتا ہے جو خود اُنہیں اس ”نا ہنجار ” سفیر کے ملک میں بطور چیف ایگزیکٹو نصیب نہیں ہوتا اور جس طریقے سے ہماری ایئر پورٹ پر لائنوں میں لگ کر ”عزت افزائی ” ہو تی ہے ساری دنیا اس انوکھے ”اعزاز ” کا مشاہدہ اپنی کھلی آنکھوں سے کرتی ہے ہمارے اسلاف اور حقیقی غریب پرور حکمران عوام کو جوابدہ ہوتے تھے مگر آج کے حکمران امریکہ کو جوابدہ ہیں

دنیائے کا ئنات کی ایڈ منسٹریشن کے شہنشاہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کُرتہ کے بارے بھری مجلس میں عوام ہی میں سے ایک شخص اگر یہ پوچھ سکتا ہے کہ جو کپڑا آپ رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصے کا بیت المال میں سے ملا ہے اُس کپڑے سے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کرتہ تیار نہیں ہو سکتا تھا یہ کُرتہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیسے تیار کرایا ہے ؟تو اِس موقع پر مُرادِ رسول ۖ نے انتقامی لہجہ نہیں اپنایا اور اپنے کسی ”کمانڈر ” کو حکم نامہ جاری نہیں کیا کہ اِس شخص کو اُٹھا کر امیر المومنین کے سامنے بولنے کا ”مزہ ” چکھا دو؟بلکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت ہی اطمینان اور خوش دلی سے سوال کرنے والے کی تسلی اور تشفی کی اور فر مایا کہ ” جو کپڑا میرے بیٹے کو بھی ملا تھا اُس نے اپنے حصے کا کپڑا مجھے دے دیا ہے اور میں نے اپنا اور بیٹے کا کپڑا ملا کر کُرتہ تیار کیا ہے

اس اطمینان بخش جواب سے وہ شخص مطمئن ہو گیا !کیا ہماری عوام میں وہ جذبہ اور ہمت ہے کہ وہ ”عوامی نمائندگان”سے پوچھ سکے کہ جب آپ پہلی مرتبہ الیکشن جیتے تھے تو آپ کے پاس ٹوٹی پھوٹی سائیکل بھی نہیں تھی اور آج آپ ”لینڈ کروزرز ” اور ”پیجارو گروپ ” میں شمار ہوتے ہیں اور آپ کے پاس چند گز زمین ہوتی تھی مگر آج آپ ہزاروں مربع اراضی کے اکلوتے وارث اور کرتا دھرتا ہیں ؟لوگوں کے ذہن زرخیز ہیں مگر سیاسی جماعتوں نے برادریوں میں جو ٹائوٹ پال رکھے ہیں اُن کے ذہن بنجر اور سوچیں کھردری ہیں اُن کے پیش ِ نظر نظریہ یا مقصد کوئی اہمیت نہیں رکھتا چند ٹکے ہی اُن کا مطمع نظر ہوتے ہیں جن کی خاطر وہ اپنا ایمان اور ضمیر تک اِ ن سیاسی لٹیروں اور فصلی بٹیروں کے پاس گروی رکھ دیتے ہیں اور اِنہی کے اشاروں پر بندروں کی طرح ناچتے رہتے ہیں اور پھر جب الیکشن کا موسم آتا ہے تو یہی ٹائوٹس اپنے ”سیاسی گروں ” کے حُب الوطنی کی یوں قسمیں کھاتے ہیں جیسے بیت المال کا پیسہ ہمارے نمائندگان ”بیت ِ مال ” یعنی گھر کا مال سمجھ کر کھاتے ہیں اور ڈکار تک بھی نہیں لیتے، جا پانیوں نے جنگ عظیم دوم کے بعد یہ فارمولہ عام کیا تھا کہ ”گھر بنائو کچا اور کاروبار کرو پکا ”

مگر آج ہمارے سیاستدان گھر بھی پکا اور کاروبار بھی ”پکا ” کرنے کی فکر میں سرگرداں رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہم سب لوگ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے مقروض ہیں، کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا سیب کھانے کو جی چاہا آپ کے رشتہ داروں میں سے کسی عزیز نے ہدیہ کے طور پر آپ کے پاس سیب بھیج دیا ، آپ نے اس سیب کی بہت تعریف کی کہ اس کی خوشبو بہت اچھی ہے اور رنگ بھی خوب ہے پھر آپ نے غلام سے کہا کہ جس شخص نے یہ سیب بھیجا ہے اس سے میرا شکریہ اور سلام کہنا اور کہنا کہ آپ کا ہدیہ بہت اچھا ہے اور سیب واپس کیا ہے کسی نے عرض کیا کہ اے میر المومنین یہ ہدیہ بھیجنے والا تو آپ کا برادر عم زاد ہے اور وہ آپ کے اہل بیت سے ہے نیز یہ کہ رسول ِ رحمت ۖ بھی ہدیہ قبول فر مایا کرتے تھے یہ سن کر آپ نے فرمایا تم پر حیف ہے !ہدیہ تو رسول ِ رحمت ۖ کے لیے ہدیہ تھایہ تو ہمارے لیے رشوت ہے ”آج پورے باغ کے باغ تک ڈکار لیے جاتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے

”راہنمایان ِ قوم ” اپنی جماعت اور لیڈر سے مخلص نہیں ہیں وہ غریب عوام کے ساتھ کتنا مخلص ہوں گے ؟ آج اگر اِدھر ہیں توکل اُدھر ! یہ فصلی بٹیرے اور نقلی لٹیرے آج اگر اس شاخ پر تو کل اُس شاخ پر کنووں کی طرح کائیں کائیں کرتے نظر آئیں گے اور ”ہر گھوٹ کی بُوا” والا کردار اس خوبصورتی کے ساتھ نبھاتے ہیں کہ کشور حسیں کی ”باشعور ”عوام کو ادراک ہی نہیں ہوتا کہ جو اپنی قیادت کے ساتھ مخلص اور وفادار نہیں ہے وہ ہمارے ساتھ کس طرح وفادار اور ہمارا ہمدرد ہو سکتا ہے ؟ ہمیں پھر الیکشن میں ذات ،برادری اور تعلقات نبھانے کے لیے تمام تر اصول ، ضابطے اور قوانین نظر انداز کرنے پڑتے ہیں دیانتداری ، اصول پرستی ، حُب الوطنی اور کردار کو ہم لوگ یکسر بھلا دیتے ہیں جس کا خمیازہ بعد میں ہمیں بھگتنا پڑتا ہے اور ہم پر وہ لوگ مسلط کر دیے جاتے ہیں یا ہو جاتے ہیں جن کی امانت، دیانت ، شرافت ، صداقت اور حُب الوطنی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ آنے والا وقت یہ سب چیزیں اُس وقت آشکار کر دیتا ہے اور جب اخبارات کے صفحات اور ٹیلی ویژن کی سکرین پر پھیلی اُن کی ”حُب الوطنی ”اور ”امانت و دیانت ” کی لیڈ سٹوریاں پڑھنے اور سُننے کو نصیب ہوتی ہیں توسب کچا چٹھا کھل کر سامنے آجاتا ہے

آئندہ الیکشن میں اگر عوام نے پھر وہی لوٹ کھسوٹ کے ماہرین کا انتخاب کیا اور اُنہی لو گوں کو منتخب کیا جنہوں نے ملک و قوم کو غیروں کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے تو پھر یہ انٹر نیشنل لُٹیرے بچا کھچا ملک بھی کھا جائیں گے اور ڈکار بھی نہیں لیںگے آئندہ الیکشن میں اگر امیدوار کے لیے ”امانت ”و ”دیانت ”ہی کے معیار کو لازم قرار دیا جائے تو آئندہ اسمبلی کردار کے کھرے اور نیتوں کے اُجلے لوگوں کا ایک ایسا مرکز ہوگی جہاں سے ملک و قوم کی اصلاح و فلاح کے فیصلے ہوا کریں گے اور بجائے واشنگٹن کے مفادات کے خالصتاََ عوامی مفادات کے لیے سوچ بچار ہو گی ایسا ہو نا نا ممکن تو نہیں ہے مگر مشکل ضرور ہے ، اس موقع پرعوام کو بھی کچھ شعور اور احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گااور ذات برادری کے خول سے نکل کر امیدوار کے کردار و افکار کو مدِ نظر رکھنا ہو گا اب بھی اگر عوام نے شعورحاصل نہ کیا تو پھر رہے نام اللہ کا

بندہ ناچیز عرصہ دراز سے داتا کی نگری لاہور میں روزگار کے سلسلہ میں مقیم ہے ادبی ، صحافتی اور سماجی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اب روحانی اور دینی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں لاہور کے پو ش ایریا اعوان ٹائون میں ایک مرکزی جامع مسجد مدینہ شریف میں جمعة المبارک کی خطابت کے ساتھ ساتھ روزانہ نماز فجر کے بعد درس ِ قرآن کا سلسلہ بھی شروع کیا ہوا ہے اور اب تو الحمد للہ داتا کی نگری لاہور میں ماہانہ 20دروس ِ قرآن کا سلسلہ جاری ہے اِ ن تمام مصروفیات کی وجہ سے اپنے آبائی شہر اب کم ہی حاضری کا موقع ملتاہے مگر پوری دنیا کی طرح ضلع لیہ میں بھی روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی تمام تر سر گرمیوں سے پوری طرح آگاہ رہتا ہوں دسمبر کی نہایت ہی سرد اور ٹھٹھرتی رات کے پچھلے پہر اچانک موبائل کی گھنٹی بجی جس نے مجھے چونکا دیا اورمنہ سے نکلا ”اللہ خیر کرے”اس وقت خیر کی ہی خبر ہو، موبائل آن کیا تو دوسری طرف دیرینہ دوست پی ٹی آئی کے بے لوث ورکرجناب ِ سعید خان پٹھا ن (سید جان )نہایت ہی رُندھی ہوئی آواز میں پڑھ رہے تھے ”اِن َ لِلَہِ وَ اِنَ اِلیہِ راجِعون” دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں بمشکل وہ کہہ سکے کہ ”مہر فضل حسین سمرا صاحب ”اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔۔

میرے ہاتھ کی گرفت کمزور ہوگئی اور ہاتھ سے موبائل گر گیا بس پھر کیا آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی ،بے ریا درویش واقعی ”اللہ کو پیارے ہو گئے ‘یقیناََ وہ اللہ تعالیٰ کو پیارے تھے اور ہر مردِ درویش اللہ کو پیارا ہی ہوتا ہے ، میری بہت زیادہ خواہش تھی کہ میں اُن کے جنازے میں شرکت کرتا مگر اگلے ہی دن مجھے BY ROADحضرت خواجہ غریب نواز پیر معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللہ علیہ کے عرس مبارک کے سلسلہ میں اجمیر شریف (انڈیا )عازم سفر ہونا تھا اور اسی طرح 10دن انڈیا کے دومشہور شہروں بریلی شریف اوراجمیر شریف میں ہونے والی ادبی اور روحانی تقریبات میں مصروف رہا واپسی پر ربیع الاول شریف کی محافل میں شب و روز مصروفیت کا عالم تھا اب چند روز سے کچھ فرصت کے لمحات نصیب ہوئے ہیں

تو سوچا مرد ِ درویش جناب مہر فضل حسین سمرا مرحوم کے سیاسی جانشین اُبھرتے ہوئے لیڈر اور سمرا برادری کے متفقہ راہنما مہر یاسر وسیم سمرا صاحب سے قلمی تعزیت کی جائے انشا ء اللہ لیہ حاضری کے موقع پر بھی بنفسِ نفیس سمرا ہائوس حاضر ہو کر مہر صاحب مرحوم کے اہل ِ خانہ اور یاسر وسیم سے دعائے مغفرت کی جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مہر صاحب مرحوم کی ضلع لیہ کی عوام کے لیے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ضلع لیہ کی عوام نے مہر صاحب مرحوم پر اپنی محبتوں کے پھول نچھاور کیے جس کا واضع ثبوت اُن کے جنازے میں شرکت کے لیے کالج گرائونڈ میں ہونے والے کثیر الاجتماع سے ملتا ہے ہزاروں لوگوں کا جمِ غفیر تھا سننے میں آیا ہر آنکھ اشک بار تھی اور قُل خوانی پر تو جنازہ سے بھی دو گنا زیادہ اہلِ سیاست ، اہلِ اقتدار ، حزبِ اختلاف اوراہلِ محبت شریک ہوئے تھے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ بقول شاعر

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
ایک بے لوث شخص سارے شہر کو اُداس کر گیا

مہر صاحب مرحوم نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے ، دھیمی طبیعت کے مالک تھے ،انتہائی شائستہ گفتگو کیا کرتے تھے اور اقتدار کی غلام گردشوں سے اچھی طرح واقف تھے کسی زمانے میں سیاست کو عبادت کا درجہ حاصل تھا اور اہل سیاست لوگوں کی بے لوث خدمت عبادت سمجھ کر کیا کرتے تھے اُن کے پاکیزہ ذہنوں میں خدمت انسانیت کی ایک دُھن اور لگن رچی بسی ہوتی تھی اہل سیاست کے دروازے شب وروز ہر امیر غریب کے لیے کھلے ہوتے تھے اوربڑی خندہ پیشانی کے ساتھ اپنے عوام کی خدمت کیا کرتے تھے مگر جو ں جوں سیاست کی وادی میں نا اہل، اُجڈ ، گنوار اور تجارت پیشہ لوگ شامل ہوتے گئے تو ں توں سیاست کا ماحول میلا ، گدلااور کمر شلائز ہو تا گیا اور اپنے حلقہ کے غریب ووٹر ز کے لیے الگ پیمانے اور امیر ووٹر ز کے لیے الگ مہ خانے ترتیب دیے جانے لگے

پاکستانی سیاست کا کلچر ہے کہ منتخب ہونے کے بعدقوم کی ”خدمت ” کا حلف اُٹھاتے ہی اہل سیاست کے تیور بدلنے شروع ہو جاتے ہیں اور آج کے اخبارات ہی اُٹھا کر دیکھ لیں کہ کس لیڈر نے ملک و قوم کی فلاح اور اصلاح کی بات کی ہے ؟ہماری موجودہ سیاست کا مزاج یہ ٹھہرا ہے کہ جب تک ایک دوسرے پر کیچڑ اور گند نہیں اُچھا لو گے اس وقت تک تم کوچہ سیاست میں داخل ہی نہیں ہو سکتے ہم نے ایک دوسرے پر طعن و تشنیع ہی کو سیاست کے لیے جُزوِ لازم قرار دے رکھا ہے مگر جب ہم اپنے اسلاف اور اکابرین کی روشن و تابندہ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری روح کے بند دریچے کھُلتے اور پژمردہ چہرے کھِلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ، حضرت ابوبکر صدیق نے خلافت کا منصب سنبھالتے وقت اپنا تا ریخی خطبہ ارشاد فر مایاتھا جو سنہرے حروف سے لکھنے اور دل کے نہاں خانوں میں چھُپانے کے قابل ہے ،اول آپ نے حمد و ثناء الہی بیان کی پھر فر ما یا تھا

” بعد حمد الہی اے آدمیو !واللہ مجھ کو ہر گز امیر بننے کی حرص نہ کبھی دن میں تھی اور نہ میں نے اللہ سے ظاہر یا پوشیدہ اس کے لیے دُعا کی البتہ مجھ کو یہ خوف ہوا کہ کو ئی فتنہ نہ اُٹھ کھڑا ہو مجھ کو حکومت میں کچھ راحت نہیں ہے بلکہ مجھ کو ایک ایسے امر ِ عظیم کی تکلیف دی گئی ہے جس کے بر داشت کی مجھ میں طا قت نہیں اور نہ وہ بدون اللہ عز و جل کی مدد کے قا بو میں آسکتا ہے میری ضرور یہ آرزو تھی کہ آج میری جگہ سب سے زیادہ قوی آدمی ہو تا یہ تحقیق ہے کہ میں تمہارا امیر بنا یا گیا ہوں اور میں تم سے بہتر نہیں ہو ں اگر میں راہ راست پر چلوں مجھ کو مدد دو اگر بے راہ چلوں مجھ کو سیدھا کر دو صدق امانت ہے اور کذب خیانت ، جو تم میں کمزور ہے وہ میرے لیے قوی ہے انشا ء اللہ اس کا حق دلوا دوں گا اور تم میں جو قوی ہے وہ میری نظر میں کمزور ہے اس سے انشا ء اللہ حق لے کر چھو ڑوں گا ، جو قوم راہ حق میں جہاد چھو ڑ دیتی ہے وہ ذلیل کر دی جاتی ہے اور جس قوم میں بے حیائی کا راج ہو جا تا ہے اُس پر عام طور پر عذاب ِ الہی نازل ہوجا تا ہے جب تک میں اللہ اور اُس کے رسول ۖ کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو اور جب میں خدا اور اس کے رسول ۖ کی نا فر مانی کروں تم کو میری اطاعت نہیں کرنی چاہیے ”

اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی ٰ عنہ نے ہمیشہ رسول ِ رحمت ۖ کی پاکیزہ سیرت طیبہ کو رول ماڈل بنا یا ہے اور اُسی کے مطابق نظام ِ حکومت کو چلا یا ہے اور آپ ایک فرض شناس ، خادم قوم اور قانون کی پا بندی کرنے والے حکمران کے طور پر معروف تھے اگر ہمارے حکمران صرف حضرت ابو بکر صدیق کے دور ِ حکومت ہی کو رول ماڈل بنا لیں تو پا کستان تمام تر معاشی ، سیاسی ، اقتصادی ، داخلی اور خارجی مشکلات سے نجات پا سکتا ہے اور عوام بھی خو ش حالی کی زندگی بسر کر سکتے ہیں مگر بد قسمتی سے ہمارے حکمران خلفاء راشدین کی سیرت طیبہ سے کو سوں دور ہیں اور نافذ کرنا تو کُجا انہوں نے تو کبھی یہ زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ ہم خلفاء راشدین خصوصاََ حضرت ابو بکر صدیق کے صرف ایک طرز عمل کو اپنی نظام حکو مت کا حصہ بنا لیں تو ہماری غریب عوام سُکھ کا سانس لے سکتی ہے کہ جب حضرت ابو بکر صدیق کا وصال ہوا تو حضرت عمر فاروق نے نظام ِ خلافت سنبھا لا تو آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر صدیق با قاعدگی کے ساتھ فلاں علاقہ میں ایک غریب بوڑھی عورت کواپنے ہا تھوں سے کھانا کھلا یا کرتے تھے

تو حضرت عمر فاروق نے یہ ڈیوٹی سنبھال لی اور جب آپ پہلے دن اُس نا بینابوڑھی عورت کو کھانا کھلانے لگے اور آپ نے روٹی کا لقمہ توڑ کر اُس کے منہ میں ڈالا تو اُس بوڑھی نا بینا عورت کی چیخ نکل گئی اور وہ عورت رونے لگی اور کہا کہ لگتا ہے کہ امیر المومنین (حضرت ابو بکر صدیق )اس دنیا میں نہیں رہے کیونکہ جب وہ روٹی کا لقمہ میرے منہ میں ڈالتے تھے تو منہ میں ڈالنے سے پہلے وہ اس کو اچھی طرح چبا کر میرے منہ میں ڈالا کرتے تھے کیونکہ میرے منہ میں دانت نہیں ہیں اور وہ مجھے چبا چبا کر کھلاتے تھے آج کیونکہ آپ نے سالم لقمہ میرے منہ میں ڈالا ہے تو میں نے محسوس کیا ہے کہ آج مجھے کھا نا کھلانے والا کوئی اور ہے ،
کاش ہمارے حکمران بھی ایسی عادتوں کے خوگر اور عادی ہو جائیں تو ملک میں کوئی غریب بھو کا اور غربت باقی نہ رہے ،مگر پاکستانی سیاست کا دستور کچھ وکھری ٹائپ کا ہے وہی لوگ جو الیکشن سے پہلے ایک وی وی آئی کا پروٹول رکھتے ہیں اور اُن کے تمام ناز نخرے امیدواران پہلی رات کی دلہن کی طرح برداشت کرتے ہیں اور اُن کی ہر خوشی غمی شیئر کرنا وہ اپنا فرض ِ منصبی سمجھتے ہیں

Poor People

Poor People

ایوان اقتدار میں داخل ہوتے ہی اُن کے تمام تر ضابطے ، قوانین ، اصول اور نعرے تبدیل ہو جاتے ہیں اور غریب عوام کے منہ میں لقمہ دینا تو کُجا اب ایسا وقت آگیا ہے کہ اُن کے منہ سے روٹی کے لقمے زبر دستی چھینے جا رہے ہیں اور ان کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل تر ہوتا جا رہا ہے پاک سر زمین ، کشور حسین ، مرکز یقین اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کا قانون اور جمہوریت تو پہلے ہی دستیاب نہیں تھی اب پٹرول بھی نایاب ، اشیاء ضروریہ کم یاب ، بجلی عدمِ دستیاب، ایسے مشکل ترین حالات میں غریب عوام کہاں جائے ؟ ہمارے ”راہنمایان ِ قوم ” نے قوم سے اتنے جھوٹ بولے ہیں کہ اب ان کی کسی سچی بات پر بھی یقین کرنے کو دل نہیں کرتا باب العلم ، صاحب نہج البلاغہ ، حامل ذو الفقار حضرت علی کرم اللہ وجہ الریم سے کسی نے پوچھا ”آخر جھوٹ بولنے سے کیا نقصان ہو تا ہے حالانکہ جھوٹا آدمی ہر طرف سے فائدہ ہی اُٹھاتا ہے اور جھوٹ موٹ بول کر اِدھر اُدھر سے نفع سمیٹ لیتا ہے ”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر مایا ”ایسا چند دن ہو تا ہے اس کے بعد جھوٹ بولنے والے کو سب سے بڑا نقصان یہ ہو تا ہے کہ اس کی سچی بات کا اعتبار اور اعتماد ختم ہو جاتا ہے ”

مگر بد قسمتی یہ ہے کہ قوم کا حافظہ بھی بہت ہی کمزور ہے بلکہ اب تو روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ویسے ہی عوام کی” مت ”مار دی ہے اگر عوام اپنے حافظے پہ ذرا سا بھی زور دے اور تصور میں لائے کہ جناب میاں نواز شریف نے بار ہا مرتبہ اپنی پریس کانفرنسز اور اجتماعات میں یہ اعلان کیا کہ جو لوگ مسلم لیگ چھوڑ کے چلے گئے ہیں ہم ان بھگوڑوں کوکسی صورت واپس نہیں لیں گے مگر اب وہی لوگ جن کو عرف ِ عام میں لوٹا کہتے ہیںاِن لوٹے ، لُٹیروں اور فصلی بٹیروں کو میاں صاحب نے اپنے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنے سینے سے لگا یا ہوا ہے ، کہاں گیا ضابطہ ، قانون اور اصول پرستی کا وہ پیمانہ جس کی بنیاد پرعوام سے ووٹ لیے جاتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ موجودہ سیاست کا کوئی اصول اور ضابطہ نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف اپنا ذاتی مفاد ہی ہے جس کے بل بوتے پر سیاست کی جاتی ہے تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ہمیں تو سب کچھ یاد ہے ناں ” کوٹھوں پر جس طرح ہر رات بستر بدلتے ہیں

اس سے کہیں بڑھ کر ہمارے سیاستدانوں کے اصول اور قاعدے بدلتے ہیں بلکہ اب تو پارٹیاں اور وفا داریاں بدلتے بھی دیر نہیں لگتی ،ایوان ِ اقتدار میں کھنکتی ڈالروںاور سکوں کی ذرا سی جھنکار سے ہمارے ”راہنمایان ِ قوم ” کے دل بھی دھڑکنا شروع کر دیتے ہیں اور مرغ بسمل کی طرح تڑپنا شروع کر دیتے ہیں کہ کب اس جھنکار کی مسحور کن آواز سے براہ راست لطف اندوز ہوا جائے بس ایک میٹنگ ہوئی اور فوراََ بعد پریس کانفرنس کھڑکائی جاتی ہے کہ ” ہم نے اصولوں کے فروغ اور عوام کی خدمت کے لیے فلاں لیگ یا پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے ” مہر فضل حسین سمرا مرحوم نے کبھی بھی اپنے ذاتی مقاصد کے لیے سیاست نہیں کی ہمیشہ عوامی مفادات اور بھلائی کے لیے کام کیا اور روادار انسان تھے ، محبت اُن کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی

ہماری سیاست کا رویہ تشد آمیز اور ہنگامہ خیز ہے ، ہمارے مذہبی رویوں میں آتشیں اور زلزلہ آفریں جراثیم پائے جاتے ہیں ، ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم آج تک اپنی سیاست میں استقلال ، مذہب میں استدلال اور سو سائٹی میں اعتدال پیدا نہیں کر سکے ہمارے سیاسی اکابرین کی اگر فہرست پیش کی جائے کہ جنہوں نے قیام ِ پاکستان کی جدو جہد میں عملاََ حصہ لیا تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ایسے اُجلے اور نکھرے کردار کے لوگ بھی پاکستان کی سرزمین پر موجود تھے ؟ ان لوگوں کو بلا شبہ پہاڑی کا چراغ اور زمین کا نمک کہا جا سکتا ہے ، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آج ہماری سیاسی قیادتیں دماغ ، فکر ، کردار ، اوریجنیلٹی ، بیدار مغزی اور کشادہ نگہی سے یکسر کیوں محروم ہیں ؟ ”راہنمایان ِ قوم ” اپنا سارا زور اور توانائی دولت ، عصبیت ، طاقت ، جہالت ، خوشامد ، ذاتی وفاداری اور بونے پن پر کیوں صرف کر رہے ہیں ؟برملا کہا جا سکتا ہے کہ سرزمین پاک نہ تو فکری لحاظ سے بانجھ پن کا شکار ہے اور نہ ہی ذہنی طور پر بنجر ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے سینے میں ایسے ایسے خزانے چھپا دیے ہیں

اگر اُن کو صحیح جگہوں پر استعمال کیا جائے تو آج دنیا ہماری دہلیز کی محتاج ہو اور کاسہ لے کر ہمارے دروازے پر کھڑی اپنی سانسوں کو باقی رکھنے کے لیے بھیک مانگ رہی ہو ،مجھے اس موقع پر آبروئے صحافت جناب ِ مجید نظامی کی وہ بات شدت سے یاد آرہی ہے جو آپ نے کئی سال پہلے ”پاکستان تھنکرز فورم ” کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی کہ ”اسلام آباد میں امریکی سفیر مسٹر مونجو کا پاکستان میں مقام بر طانوی عہد کے وائسرائے سے کم نہیں ، آج دنیا ”گلوبل ویلیج ” ہے تو امریکہ اس کا چو ہدری !وہ جاپان ، فرانس ، بر طانیہ اور جرمنی تک پر اپنی چوہدراہٹ چلانا چاہتا ہے تو پاکستان کس باغ کی مولی ہے ، اپنی حفاظت اور اپنی فوج کی مضبوطی کے لیے ہم نے لیاقت علی خان کے دور سے چکر لگانے شروع کیے مرحوم آصف نواز بھی امریکہ گئے ، جنرل وحید بھی چکر لگا آئے ،

ہم اتنے اہتمام کے ساتھ حج اور عمرہ کرنے کے لیے نہیں جاتے جتنے اہتمام کے ساتھ واشنگٹن جاتے ہیں ، ہم یا تو اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ امریکہ ہی ہمارا ملجیٰ و ماویٰ ہے یا پھر خود میں قوت بازو پیدا کریں اپنی عزت ، خودداری اور آزادی و خو د مختاری کی حفاظت کریں ”یہ خطبہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم نے سیاست کو تجارت بنادیا ہے اور ہم نے امریکہ کی غلامی کو کائنات کی عظیم ترین متاع تصور کر لیا ہے اس کا واضع ثبوت آج بھی آپ کو نظر آئے گا کہ کس طریقے سے ہمارے ”با اختیار ” حکمران امریکی سفیر کے سامنے دست بستہ نظر آتے ہیں اور معمولی درجے کے سفیر کو وہ پروٹوکول دیا جاتا ہے جو خود اُنہیں اس ”نا ہنجار ” سفیر کے ملک میں بطور چیف ایگزیکٹو نصیب نہیں ہوتا اور جس طریقے سے ہماری ایئر پورٹ پر لائنوں میں لگ کر ”عزت افزائی ” ہو تی ہے ساری دنیا اس انوکھے ”اعزاز ” کا مشاہدہ اپنی کھلی آنکھوں سے کرتی ہے ہمارے اسلاف اور حقیقی غریب پرور حکمران عوام کو جوابدہ ہوتے تھے مگر آج کے حکمران امریکہ کو جوابدہ ہیں

دنیائے کا ئنات کی ایڈ منسٹریشن کے شہنشاہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کُرتہ کے بارے بھری مجلس میں عوام ہی میں سے ایک شخص اگر یہ پوچھ سکتا ہے کہ جو کپڑا آپ رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصے کا بیت المال میں سے ملا ہے اُس کپڑے سے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کرتہ تیار نہیں ہو سکتا تھا یہ کُرتہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیسے تیار کرایا ہے ؟تو اِس موقع پر مُرادِ رسول ۖ نے انتقامی لہجہ نہیں اپنایا اور اپنے کسی ”کمانڈر ” کو حکم نامہ جاری نہیں کیا کہ اِس شخص کو اُٹھا کر امیر المومنین کے سامنے بولنے کا ”مزہ ” چکھا دو؟بلکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت ہی اطمینان اور خوش دلی سے سوال کرنے والے کی تسلی اور تشفی کی اور فر مایا کہ ” جو کپڑا میرے بیٹے کو بھی ملا تھا اُس نے اپنے حصے کا کپڑا مجھے دے دیا ہے اور میں نے اپنا اور بیٹے کا کپڑا ملا کر کُرتہ تیار کیا ہے ا،س اطمینان بخش جواب سے وہ شخص مطمئن ہو گیا !

کیا ہماری عوام میں وہ جذبہ اور ہمت ہے کہ وہ ”عوامی نمائندگان”سے پوچھ سکے کہ جب آپ پہلی مرتبہ الیکشن جیتے تھے تو آپ کے پاس ٹوٹی پھوٹی سائیکل بھی نہیں تھی اور آج آپ ”لینڈ کروزرز ” اور ”پیجارو گروپ ” میں شمار ہوتے ہیں اور آپ کے پاس چند گز زمین ہوتی تھی مگر آج آپ ہزاروں مربع اراضی کے اکلوتے وارث اور کرتا دھرتا ہیں ؟لوگوں کے ذہن زرخیز ہیں مگر سیاسی جماعتوں نے برادریوں میں جو ٹائوٹ پال رکھے ہیں اُن کے ذہن بنجر اور سوچیں کھردری ہیں اُن کے پیش ِ نظر نظریہ یا مقصد کوئی اہمیت نہیں رکھتا چند ٹکے ہی اُن کا مطمع نظر ہوتے ہیں جن کی خاطر وہ اپنا ایمان اور ضمیر تک اِ ن سیاسی لٹیروں اور فصلی بٹیروں کے پاس گروی رکھ دیتے ہیں اور اِنہی کے اشاروں پر بندروں کی طرح ناچتے رہتے ہیں اور پھر جب الیکشن کا موسم آتا ہے تو یہی ٹائوٹس اپنے ”سیاسی گروں ” کے حُب الوطنی کی یوں قسمیں کھاتے ہیں جیسے بیت المال کا پیسہ ہمارے نمائندگان ”بیت مال ” یعنی گھر کا مال سمجھ کر کھاتے ہیں اور ڈکار تک بھی نہیں لیتے، جا پانیوں نے جنگ عظیم دوم کے بعد یہ فارمولہ عام کیا تھا کہ ”گھر بنائو کچا اور کاروبار کرو پکا ”

مگر آج ہمارے سیاستدان گھر بھی پکا اور کاروبار بھی ”پکا ” کرنے کی فکر میں سرگرداں رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہم سب لوگ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے مقروض ہیں، کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا سیب کھانے کو جی چاہا آپ کے رشتہ داروں میں سے کسی عزیز نے ہدیہ کے طور پر آپ کے پاس سیب بھیج دیا ، آپ نے اس سیب کی بہت تعریف کی کہ اس کی خوشبو بہت اچھی ہے اور رنگ بھی خوب ہے پھر آپ نے غلام سے کہا کہ جس شخص نے یہ سیب بھیجا ہے اس سے میرا شکریہ اور سلام کہنا اور کہنا کہ آپ کا ہدیہ بہت اچھا ہے اور سیب واپس کیا ہے کسی نے عرض کیا کہ اے میر المومنین یہ ہدیہ بھیجنے والا تو آپ کا برادر عم زاد ہے اور وہ آپ کے اہل بیت سے ہے نیز یہ کہ رسول ِ رحمت ۖ بھی ہدیہ قبول فر مایا کرتے تھے یہ سن کر آپ نے فرمایا تم پر حیف ہے !ہدیہ تو رسول ِ رحمت ۖ کے لیے ہدیہ تھایہ تو ہمارے لیے رشوت ہے ”آج پورے باغ کے باغ تک ڈکار لیے جاتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے

”راہنمایان ِ قوم ” اپنی جماعت اور لیڈر سے مخلص نہیں ہیں وہ غریب عوام کے ساتھ کتنا مخلص ہوں گے ؟ آج اگر اِدھر ہیں توکل اُدھر ! یہ فصلی بٹیرے اور نقلی لٹیرے آج اگر اس شاخ پر تو کل اُس شاخ پر کنووں کی طرح کائیں کائیں کرتے نظر آئیں گے اور ”ہر گھوٹ کی بُوا” والا کردار اس خوبصورتی کے ساتھ نبھاتے ہیں کہ کشور حسیں کی ”باشعور ”عوام کو ادراک ہی نہیں ہوتا کہ جو اپنی قیادت کے ساتھ مخلص اور وفادار نہیں ہے وہ ہمارے ساتھ کس طرح وفادار اور ہمارا ہمدرد ہو سکتا ہے ؟ ہمیں پھر الیکشن میں ذات ،برادری اور تعلقات نبھانے کے لیے تمام تر اصول ، ضابطے اور قوانین نظر انداز کرنے پڑتے ہیں دیانتداری ، اصول پرستی ، حُب الوطنی اور کردار کو ہم لوگ یکسر بھلا دیتے ہیں جس کا خمیازہ بعد میں ہمیں بھگتنا پڑتا ہے اور ہم پر وہ لوگ مسلط کر دیے جاتے ہیں یا ہو جاتے ہیں جن کی امانت، دیانت ، شرافت ، صداقت اور حُب الوطنی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بلکہ آنے والا وقت یہ سب چیزیں اُس وقت آشکار کر دیتا ہے اور جب اخبارات کے صفحات اور ٹیلی ویژن کی سکرین پر پھیلی اُن کی ”حُب الوطنی ”اور ”امانت و دیانت ” کی لیڈ سٹوریاں پڑھنے اور سننے کو نصیب ہوتی ہیں توسب کچا چٹھا کھل کر سامنے آجاتا ہے آئندہ الیکشن میں اگر عوام نے پھر وہی لوٹ کھسوٹ کے ماہرین کا انتخاب کیا اور اُنہی لو گوں کو منتخب کیا جنہوں نے ملک و قوم کو غیروں کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے تو پھر یہ انٹر نیشنل لُٹیرے بچا کھچا ملک بھی کھا جائیں گے اور ڈکار بھی نہیں لیںگے آئندہ الیکشن میں اگر امیدوار کے لیے ”امانت ”و ”دیانت ”ہی کے معیار کو لازم قرار دیا جائے تو آئندہ اسمبلی کردار کے کھرے اور نیتوں کے اُجلے لوگوں کا ایک ایسا مرکز ہوگی جہاں سے ملک و قوم کی اصلاح و فلاح کے فیصلے ہوا کریں گے اور بجائے واشنگٹن کے مفادات کے خالصتاََ عوامی مفادات کے لیے سوچ بچار ہو گی ایسا ہو نا نا ممکن تو نہیں ہے مگر مشکل ضرور ہے ، اس موقع پرعوام کو بھی کچھ شعور اور احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گااور ذات برادری کے خول سے نکل کر امیدوار کے کردار و افکار کو مدِ نظر رکھنا ہو گا اب بھی اگر عوام نے شعورحاصل نہ کیا تو پھر رہے نام اللہ کا

Sahibzada Noman Qadir

Sahibzada Noman Qadir

تحریر: صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
/فکرِ فردا 03314403420