پاکستانی قوم کو اب باقائدہ پاکستانی سیاستدانوں، جرنیلوں، ججوں اور صحافیوں سے اپیل کر دینی چاہیے کہ وہ اپنی آپس کی لڑائیوں میں بیچاری عوام کا نام استعمال کرنا بند کردیں۔ بقول ارن دتی رائے موجودہ دور کی جمہوریت کا المیہ بھی یہی ہے کہ امیر کارپوریٹ کمپنیوں، میڈیا ہاؤسز اور امیر سیاست دانوں کی موجودگی میں جمہوریت ایک کموڈیٹی کی شکل اختیار کر گئی ہے، جو کسی بھی سب سے زیادہ بولی لگانے والے کے آگے فروخت ہونے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے۔
ارن دتی رائے کا یہ قول پاکستانی سیاست پر پورا اترتا ہے۔ لڑائی طاقتور طبقات کی اپنی ہوتی ہے لیکن عوام کا نام خوامخواہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ انتہائی قریب ترین ماضی میں اس اصول پر لاگو ہونے والی مثال سینٹ کا الیکشن ہے۔ اب اگر کوئی بھی سیاسی جماعت، سیاسی تجزیہ نگار یا فوجی جرنیل اسے عوام کی شکست یا فتح سے تعبیر کریں تو یہ کس قدر ظلم کی بات ہوگی۔
یہی کچھ پاکستان کے تقریبا ً تمام الیکشنز میں ہوتا آیا ہے۔ جس ملک میں قائداعظم کی بہن جنرل ایوب سے الیکشن ہار جائے وہاں عوام کے ووٹ کی طاقت کی بات کرنا ظلم اور منافقت کی آخری شکل ہے۔ سن 1977ء کے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگے۔ سن انیس سو پچاسی 1985 میں غیرجماعتی انتخابات ہوئے جن کو جمہوری کہنا مناسب نہیں۔ سن1990 میں آئی جی آئی بنی۔ اس الیکشن کے بارے میں تو سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی ہے، المشہور اصغر خان کیس میں، کہ اس الیکشن میں کنٹرولڈ دھاندلی ہوئی۔ اور پھر 90 کی دہائی اور وہی پس پردہ طاقتیں۔
2002ء کے الیکشن شاید اس سلسلے کے سب سے زیادہ شفاف تھے۔ اسکی وجہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ پرویز مشرف کو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین پٹریاٹ (پانچ پی والی پیپلز پارٹی) بنانی پڑی تاکہ مسلم لیگ قاف کی حکومت بنائی جاسکے، یہ شائد پرویزمشرف کی سادگی کی وجہ سے تھا ورنہ یہ تکلف بھی نہ رکھا جاتا، اور پہلے ہی مسلم لیگ ق کو اتنی سیٹیں جتوا دی جاتیں کہ پی پی پی پی پی کی ضرورت نہ پڑتی۔ 2013 ء میں تو یہ تکلف بالکل ہی نہیں رکھا گیا اور پھر بھاری مینڈیٹ آگیا۔
2018ء کا الیکشن نہ جانے کیا گل کھلائے گا لیکن انتہائی سنجیدہ بنیاد پر عوام کا نام استعمال کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے۔ یہ اصل میں طاقتور طبقات کی لڑائی ہے جو جیتے وہ کہے کہ ہم اپنی طاقت کے بل بوتے پر جیتے ہیں مثلا 2013ًء میں نواز شریف کو کہہ دینا چاہیے تھا کہ میں نے اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ مل کر 2013ء کا سارا الیکشن خرید لیا ہے۔ عوام کو نہیں مجھے مبارک ہو۔ میری طاقت اور پیسے کی طاقت کو مبارک ہو۔ موجودہ 2018ء سینٹ کے الیکشن کے بعد پی پی کو کہہ دینا چاہیے تھا کہ ہم نے پیسے اور اسٹیبلیشمنٹ کی طاقت سے سینٹ الیکشن خرید لیا ہے۔ “روک سکو توروک لو”، ہمیں مبارک ہو۔ ۔ مثلاً 2008ء کے الیکشن کے بعد دونوں پی پی پی اور نون کو کہہ دینا چاہیے تھا کہ ہم نے مل کر کھانے کا پروگرام بنایا ہے عوام کا اس سےکوئی لینا دینا نہیں۔
اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا نے اسکی زندہ مثال قائم کی۔ انہوں نےایک ٹی وی کے پروگرام میں کہہ دیا کہ مریم نواز نے کہا تھا کہ روک سکو توروک لو۔ ” لو روک لیا “۔ ۔ یہ فقرہ اس کالم کا حاصل کلام ہے اور تمام طاقتور طبقات کو اسی فقرے سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ نوازشریف پر حال ہی میں اعتراض بھی یہی آیا ہے کہ وہ جیت جائے تو عوام کی جیت یا ‘ن’ کی جیت لیکن اگر ہار جائے تو الزام اسٹیبلیشمنٹ پر لگا دیتے ہیں۔ یہ اعتراض دور کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ عوام کا نام لینا بند کردینا چاہیے۔
باقی رہ گیا 2018ء کا الیکشن تو اس کالم کے آخر میں یہ اصول تو طے پا گیا ہے کہ عوام کا نام استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اسی اصول کے تحت اسٹیبلیشمنٹ سے اپیل کی جاتی ہے کہ خدا کے واسطے اس قوم پر رحم کریں۔ نوازشریف کو ہٹانے کے بعد اس کا چھوٹا بھائی شہباز شریف، قوم پر مسلط نہ کیا جائے۔ بلکہ کسی اور نام پر غور کیا جائے، بے شک اس کو بھی دو ڈھائی سال کے بعد نکال دیا جائے۔
پاکستانی معاشرے، سوسائٹی اور ملک کو تباہ ہونے سے بچانا ہے تو کسی تیسرے تبدیلی والے نام پر غور کریں۔ اس سے شاید پریشر کوکر میں ہوا کا دباؤ کم ہو جائے لیکن اگر آپ نوازشریف کے بعد شہباز شریف کو لے آئے تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں نواز شریف کا نقصان ہوگا؟ نوازشریف کا نقصان اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک لوٹی گئی دولت محفوظ رہے گی اور وہ 2023ء کے بعد کوئی بھی الیکشن اپنی دولت کے بل بوتے پر پھر سے خریدنے کے قابل ہوچکے ہوں گے کیونکہ 2023ء تک ان کو اپنے بھائی کی مدد بھی حاصل رہے گی اور اندازہ لگا لیں کہ آپ کا کرپشن کے خلاف بیانیہ اور نوازشریف کا “مجھے کیوں نکالا” والا بیانیہ دونوں کہاں ہوں گے۔ اس لیے طاقتور طبقات سے دست بستہ گزارش ہے کہ اپنا ایجنڈا مکمل کریں لیکن یہ نہ ہوا اس ایجنڈے میں سے شہبازشریف یا کوئی مولوی خادم حسین رضوی نکل آئے۔
آخر میں عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ پانچ ہزار روپے اورقیمےوالے نان پر بے شک اپنا ووٹ بیچ دیں کیونکہ اس نظام سے ان کو اتنا ہی فائدہ ہو سکتا ہے یا بھٹو کی ہدایت کے مطابق قیمے والے نان تو کہیں اور سے کھائیں لیکن ووٹ بھٹو کودیں۔
عوام 2018ء کے الیکشن کے بارے میں زیادہ جذباتی نہ ہوں کیونکہ کسی بھی سابقہ الیکشن کی طرح اس الیکشن سے بھی ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس الیکشن میں بھی صرف ان کا نام استعمال کیا جائے گا جس سے سیاستدانوں نے باز نہیں آنا۔