تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
دنیا بھر میں پاکستان سمیت 3 دسمبر کو معذوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس کا مقصد معذور افراد کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنا ،ان کو زندگی کے دھارے میں شامل کرنا،معذور افراد کو ان کے مکمل انسانی حقوق دینا ، معاشرے میں ان کے تعمیری کردار کے لیے راہ آسان بنانا وغیرہ شامل ہیں اس مقصدکے لیے سرکاری و نیم سرکاری تنظیمیں ،ادارے اور این جی اوز وغیرہ ملک بھر میں سیمینارز، تقریبات منعقد کرتے ہیں آج کا دن منانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم رنگ ،نسل،زبان ،ذات سے بالا تر ہو کر اس بات کا عہد کریں کہ معذور افراد کی بحالی کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے ۔اس دن اخبارات، اور الیکڑانک میڈیا بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
اس وقت پاکستان کی کل آبادی کا 7 فیصد معذور افراد پر مشتمل ہے اور پوری دنیا میں اس کا تناسب 10 فیصد ہے ۔اسی فیصد معذور افراد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے ۔ترقی یافتہ ممالک میں معذوروں کو بنیادی حقوق حاصل ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک میں اس کا تصور تک نہیں ہے کیونکہ معذور کام کاج نہیں کر سکتے معذوروں کو اس لیے توجہ نہیں دی جاتی ۔بلکہ ان کو بوجھ سمجھا جاتا ہے ۔دوسری طرف اسلام کی تعلیمات کو دیکھتے ہیں صرف ایک واقعہ سیرت رسول ۖ سے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار سرداران مکہ کو دعوت اسلام دے رہے تھے۔
آپ چاہتے تھے کہ یہ افراد ایمان لے آئیں تو بناں خون خرابے کے اسلام کی راہ ہموار ہو جاتی اس دوران حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم جو کہ پیدائشی نابینا تھے وہاں تشریف لائے ۔وہ آپ ۖ سے قرآن سیکھنا چاہتے تھے ۔آپ ۖ نے حضرت عبداللہ ام مکتوم کی اس وقت آمد کو ناپسند فرمایا اور دوبارہ مکہ کے سرداروں کی طرف متوجہ ہو گئے ۔لیکن جیسے ہی سرداران مکہ رخصت ہوئے آپ ۖ پر وحی نازل ہوئی سورة عبس کی ابتدائی سولہ آیات نازل ہوئیں جو کہ حضرت عبد اللہ بن مکتوم کے متعلق تھیں ۔اس میں دو اہم باتیں اللہ نے اپنے نبی سے کیں یہ کہ اگر کوئی غیر اہم فرد بھی دین کو سیکھنے آئے تو اس سے منہ نہ موڑیں دوم یہ کہ معذور افراد پر خصوصی توجہ دی جائے ۔
خلیفہ ولید بن عبد المالک وہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے معذوروں کو وظیفے دینے شروع کیے ۔ان کے بعد مغربی ممالک میں آج یہ وظیفے دیے جارہے ہیں آج ترقی یافتہ ممالک میں معذور افر اد کو زندگی کی بنیادی سہولیات تک فری حاصل ہیں ۔جو کہ عین اسلامی نظام حکومت کے مطابق ہیں یعنی یہ سہولیات معذور افراد کو دینا حکومت کا فرض ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں اس کے بر عکس ہوتا ہے ۔یہاں تو معذور بچے بنیادی حقوق تک سے محروم ہیں ۔بظاہر دنیا کے ساتھ پاکستا ن میں بھی یہ دن منایا جاتا ہے لیکن یہ ایک رسمی ہے حقیت میں تاریکی ہی تاریکی ہے اور یہ تاریکی گہری ہوتی جارہی ہے ان افراد کے سبب جو اس کے ذمہ دار ہیں جو صاحب اقتدار ہیں پاکستان میں عام غریب افراد کے لیے کچھ نہیں ہو رہا ان کی زندگی مشکل ترین ہے
نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ،بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ،بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے ایسی تاریکی میں بھلا معذور افراد کے لیے کیا سہولیات مہیا ہو پائیں گی ہمارے معاشرے میں معذور کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔بہت سی این جی او آج کے دن معذور افراد کے لیے تقریباتو سیمینارز منعقد کریں گی بڑی بڑی باتیں ہوں گی یہ تقریبات بڑے بڑے ہوٹلز میں ہوں گی وہاں شہر کے معزز بلاے جائیں گے وہاں پرکھانا ہو گا اور معذوروں کے حق میں باتیں ہوں گی تقریبات کا اختتام ہو گا۔ معذور جیسی زندگی گزار رہے ہیں ویسی ہی گزارتے رہیں گے۔ ہاں ان کے نام پر فنڈ ضرور مل جائے گا ان این جی اوز کو اور ایسے اداروں کو بھی جو یہ تقریبات منعقد کریں گے۔ معذور افراد کی بحالی کے لیے حکومت کے فرائض میں ان کی خوراک ،ادویات ،مناسب تعلیم و تربیت ،زندگی کی بنیادی سہولیات اور کچھ لوگوں کو ان کی دیکھ بھال کا ذمہ دار بنانا وغیرہ شامل ہے۔
بہت سے معذور افراد اپنی حالت زار کے باعث ،تنہائی ،پذمردگی ،ڈپریشن کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں ایک عام فر د کو جو کہ صرف غریب ہو اس کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ،اور وہ افراد عام یا چھوٹے کام کرتے ہیں جیسے ریڑھی لگانے والے ،موچی ،لوہار،نائی،وغیرہ کو کمی کمین کہا جاتا ہے ۔تو معذور افراد کے ساتھ جو رویہ رکھا جاتا ہے اسے انسانیت کی تذلیل کہنا چاہیے اور بہت دکھ کی بات ہے کہ پاکستان میں تذلیل کرنا کوئی جرم نہیں ہے اور بے چارے معذور تو پہلے ہی دکھوں کا شکار ہوتے ہیں ان کا مذاق اڑانا ،تضحیک کرناتو عام سی بات ہے حالانکہ اللہ سبحان و تعالی نے حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کا مذاق مت اڑایا جائے (سورة حجرات)اسی طرح رسول اکرم ۖ نے کا ایک فرمان ہے کہ اس پر اللہ کی لعنت جو اندھے کو جان بوجھ کر بھٹکا دے ۔اس لیے ہم کو اپنے معذور بھائی بہنوں کو ان کے نقائص کی وجہ سے مذاق اڑانا ،طنز کا نشانہ بنانا درست طرز عمل نہیں ہے
معذور افراد تو ہمدردی اور محبت کے قابل ہوتے ہیں ۔آج کے دن ہم اپنے آپ سے وعدہ کریں کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی معذور کا مذاق نہ اڑائیں گے ،ان سے ہمدردی اورمحبت اور بھر پور توجہ دیں گے ،ہمارے خاندان ،محلے ،گھر اور دفتر یا جس جگہ بھی ہم کام کرتے ہیں وہاں جو بھی معذور ہو گا اس کی خدمت کریں گے اس کی ضروریات کا خیال رکھیں گے ان سے ہمدردی ،محبت ،توجہ دیں گے ہمارارب اس سے خوش ہو گا اور اس کے بدلے میں ان شاء اللہ جنت میں اعلی مقام ملے گا دکھی انسانیت کی خدمت ہی اصل عبادت ہے نیکی ہے ۔اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے ۔آمین ۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال