تحریر : نجیم شاہ
بڑے چودھری صاحب سچ کہتے ہیں کہ سینیٹ کیلئے ہارس ٹریڈنگ نہیں کھوتا ٹریڈنگ ہو رہی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ اورلوٹا کریسی کا شور بڑھتا جا رہا ہے، یہاں تک کہ رحمان بابا بھی خاموش نہ رہ سکے اور انہوں لوٹوں کی اقسام تک بیان کر ڈالیں۔ قبل ازیں ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب بھی ایم پی ایز، سینیٹرز کو خچر، گدھے، گھوڑے اور سینیٹ کو جانوروں کا اصطبل قرار دے چکے ہیں۔ سینیٹ کے ہونے والے انتخابات میں بڑے پیمانے پر ہارس ٹریڈنگ نے قومی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ایوانِ بالا کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کوئی نئی روایت نہیں ہے، پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں یہ کھیل ایک طویل عرصے سے جاری و ساری ہے اور ملک کی تمام بڑی جماعتوں کے سرکردہ اور باوسائل سیاست دان اس کھیل میں اہم کردار ادا کرتے آ رہے ہیں۔ جیسے جیسے سینیٹ انتخابات کے دن قریب آ رہے ہیں سینیٹر بننے اور ووٹ دینے کی بولی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ہماری پارلیمانی تاریخ میں ایک عرصے سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ وہ افراد جو عام انتخابات میں ہار جائیں یا جنہیں عام انتخابات میں جیتنے کی کوئی اْمید نظر نہ آ رہی ہو ایسے لوگ پیسے کے زور پر سینیٹر بننے کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ انہیں ووٹ دینے والے اراکین اسمبلی بھی راتوں رات کروڑ پتی بن جاتی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات ہر تین سال بعد آدھے تعداد کی نشست کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں اور ممبران کی مدت چھ سال ہوتی ہے۔ گزشتہ بیس سالوں سے سینٹ میں پیسہ چل رہا ہے اور سینیٹ کے انتخابات میں اراکین اسمبلی اپنے ووٹ بیچتے آئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں سیاست ایک منافع بخش کاروبار بن چکی ہے۔ تین سال پہلے ہونے والے انتخابات میں تو سینیٹ کی ایک نشست ستر کروڑ روپے میں بک چکی ہے۔ ایک ٹیکسٹائل مل لگانے میں تقریباً پچاس کروڑ لگتے ہیں
لیکن گزشتہ الیکشن میں سینیٹ کی ایک نشست پینسٹھ سے ستر کروڑ میں فروخت ہوئی۔ نوٹوں سے بھری گاڑیاں پارلیمنٹ کے چکر لگاتی رہیں اور ارکان اسمبلی بیٹھے بٹھائے کروڑ پتی بن گئے۔ اس دفعہ بھی حالات اسی طرف جا رہے ہیں۔ بیس سے پچیس کروڑ میں سینیٹ کی ایک ایک نشست کا سودا ہو رہا ہے، جبکہ فاٹا سے سینیٹر بننے کیلئے بولی چالیس کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح فاٹا میں سینیٹر کیلئے ووٹ کی بولی پچیس کروڑ، خیبرپختونخواہ اسمبلی کے ارکان کیلئے تین سے چھ کروڑ روپے کی پیشکش ہو چکی ہے۔ انتخابات میں متوقع ہارس ٹریڈنگ سے ہر پارلیمانی جماعت پریشان ہے اور ہر جماعت کی خواہش ہے کہ ایسا طریقہ انتخاب ہو کہ اس کو پورا حصہ ملے۔ خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہونے والے سینیٹ انتخابات کا سب سے زیادہ خطرہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کو ہے۔ تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ خیبرپختونخواہ میں ان کے ارکان کی ایک بڑی تعداد ہارس ٹریڈنگ میں شامل ہو گی جس کی وجہ سے پارٹی سینیٹ کی دو سے تین نشستوں سے محروم ہو سکتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں یہ خطرہ ہے کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان خفیہ رائے شماری میں پارٹی کے مخالف ووٹ دینگے اور اس کی بازگشت لیگی حلقوں میں واضح سنائی دے رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو خیبرپختواہ، سندھ اور بلوچستان بھی نہ صرف خطرہ ہے بلکہ یقین ہے کہ ان کے بعض ارکان ہارس ٹریڈنگ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات میں متوقع ہارس ٹریڈنگ کے کو دیکھتے ہوئے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے اس پر احتجاج کرنا شروع کر دیا، چونکہ میاں صاحب کو بھی یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ اندر ہی اندر جو کھچڑی پک رہی ہے، اس کے نتیجہ میں کہیں باغی ارکان ان کا دیوالیہ ہی نہ نکال دیں، انہوں نے سینیٹ انتخابات کیلئے آئینی ترمیم لانے کا اعلان کر دیا جس کے مطابق اراکین اسمبلی سیکرٹ بیلٹ کی بجائے اپنے ووٹ کا استعمال شو آف ہینڈ سے کرینگے جس سے ان کے ڈیفیکشن کرنے کا چانس ختم ہوجاتا ہے۔عمران خان اور سراج الحق نے اس ترمیم کا خیرمقدم کیا لیکن پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان کے پیٹ میں مروڑ پڑنا شروع ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو حسب معمول اس میں جمہوریت کے خلاف سازش نظر آ گئی ہے جبکہ مولانا کے خیال میں اس ترمیم سے سارے اراکین اسمبلی کو مشکوک بنا دیا جائے گا جس سے ان کی ”عزت” پر حرف آئے گا، اس لیے وہ اس ترمیم کی حمایت نہیں کر سکتے۔ مولانا صاحب نے یہاں تک فرمایا کہ ابھی وہ حالیہ اکیسویں ترمیم سے ڈسے ہوئے ہیں اور ایک مزید ترمیم سے ڈسنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔
بائیسویں آئینی ترمیم کی حمایت نہ کرنے کی پیپلز پارٹی کی منطق تو سمجھ آ رہی ہے کہ اگر خفیہ رائے شماری سے ووٹنگ ہوتی ہے تو حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے باغی اراکین وفاداریاں تبدیل کر سکتے ہیں جس کے باعث پیپلز پارٹی کیلئے دوبارہ سے سینیٹ میں اکثریتی پارٹی بننے کی راہ ہموار ہو جائے گی، جبکہ شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹنگ ہو گی تو پھر اخلاقی دبائو کی وجہ سے اراکین اپنے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کر پائیں گے اور یوں زیادہ شفافیت دیکھنے میں آئے گی۔ جہاں تک مولانا کی طرف سے بائیسویں آئینی ترمیم کی حمایت نہ کرنے کا معاملہ ہے تو اس بارے تحریک انصاف کی سیکرٹری اطلاعات شیریں مزاری صاحبہ واضح کہہ چکی ہیں کہ مولانا سینیٹ انتخابات سے خوفزدہ ہیں اور بائیسویں آئینی ترمیم کی حمایت سے اس لیے انکاری ہیں کہ سینیٹ انتخابات میں پیسے کا کھیل ختم ہونے سے مولانا کا کھیل بھی ختم ہو جائے گا۔ اس میں شک نہیں کہ مولانا کے اراکین اسمبلی پچھلے انتخابات میں بھی بکتے آئے ہیں اور حالیہ انتخابات میں بھی لگتا ہے کہ وہ کروڑوں روپے اسلامی نظام کے لئے اکٹھا کرنے جا رہے ہیں۔ سینیٹ انتخابات نے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو گہرے سمندر کے درمیان لاکھڑا کر دیا ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ (ن) کے وفاداریاں بیچنے کیلئے بے تاب باغی ارکان اسمبلی ہیں تو دوسری طرف آصف زرداری اور مولانا جیسے سودے بازی کے ماہر سیاست دان ہیں، جو سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کی خواہش سے مغلوب میاں صاحب سے اپنی حمایت کی بھاری اور ایک حد تک ناقابل برداشت قیمت وصول کرنے کے درپے ہیں۔ 5 مارچ کے سینیٹ انتخابات میاں صاحب کیلئے آزمائش سے کم نہیں۔
وزیراعظم کو اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں اِدھر یا اُدھر کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ ہمارے پارلیمانی نظام کی تمام خامیاں اور برائیاں اپنی جگہ مگر آج ہارس ٹریڈنگ پر قابو پانے کیلئے جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ خوش آئند ہیں۔ اس کی جو بھی وجوہات ہوں، ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ہونا چاہئے اور جو لوگ اسکی مخالفت کرتے ہیں وہ وقتی مفادات کے اسیر ہیں۔ مولانا کے اس جواز میں کوئی وزن نہیں کہ اکیسویں ترمیم کے ڈسے ہوئے ہیں، بائیسویں ترمیم کی حمایت نہیں کر سکتے، گویا اکیسویں ترمیم اگر ان کے حق میں نہیں تھی تو وہ اب نئی ترمیم کے ذریعے کوئی بھی خیر کا کام نہیں ہونے دینگے؟ جبکہ پیپلز پارٹی کا انکار بھی خلوصِ نیت کا اظہار نہیں ہے۔ ہارس ٹریڈنگ جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ اور اس کے بدن پر ناسور ہے۔ اسے مٹانے اور کاٹ پھینکنے کیلئے ہر سیاسی پارٹی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ موجودہ حالات میں ہارس ٹریڈنگ پر قابو پانے کیلئے اوپن ووٹنگ کے علاوہ کوئی تدبیر کارگر نظر نہیں آتی۔ اگر نیت ٹھیک ہو تو سب کچھ ممکن ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے سب سے پہلے ہارس ٹریڈنگ کیخلاف آواز اٹھائی اور پھر خیبرپختونخواہ اسمبلی سے سینیٹ انتخابات کو صاف و شفاف بنانے کیلئے قرارداد منظور کراکر دونوں جماعتیں بازی لے چکی ہیں، باقی جماعتوں کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔
تحریر : نجیم شاہ