تحریر: فیصل اظفر علوی
وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں اس وقت چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے حوالے سے سیاسی ماحول کی گرما گرمی میں مزید اضافہ جبکہ لگاتار بارشوں کی وجہ سے موسم دوبارہ سرد ہو چکا ہے، 2015 ء کے چیئرمین سینٹکے انتخاب کیلئے تمام سیاسی پارٹیاں سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہیں اور حتی الامکان یہ کوشش کی جارہی ہے کہ ان کا حمایت یافتہ یا ان کی سیاسی جماعت سے وابستہ سینیٹر چیئرمین سینٹ کے عہدے پر براجمان ہو سکے، سینٹ کے حالیہ انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کی پوزیشن واضح ہونے کے بعد ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی انتخابات میں اہم کردار ادا کرنے والی جماعتیں ایم کیو ایم اور جے یو آئی (ف) کا پلڑا جس کی طرف جھکا وہی جماعت اپنا چیئرمین سینٹ لانے میں کامیاب ہو گی۔
سینٹ کے انتخابات میں اگرچہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کامیابی حاصل کی تھی لیکن اب بھی پاکستان پیپلز پارٹی ستائیس ارکان کے ساتھ سینٹ میں سر فہرست ہے اور چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے حوالے سے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے خلاف سخت حریف کے طور پر مد مقابل ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد 26 ہے اور اگر مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی میں چیئرمین سینٹ کے انتخاب کیلئے اتفاق رائے نہ ہو سکا تو ایسی صورت میں آزاد ارکان ، فاٹا کے ارکان اور جے یو آئی (ف) کے ارکان کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر جائے گا، حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں ہی پر امید ہے کہ وہ چیئرمین سینٹ کا عہدہ حاصل کر لیں گے، اب دیکھنا یہ ہے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بقول ہارس ٹریڈنگ کرکے کون سی سیاسی جماعت چیئرمین سینٹ کا قرعہ اپنے نام نکالنے میں کامیاب ہوتی ہے۔
دوسری طرف اس مرتبہ بھی پاکستانی عوام چیئرمین سینٹ کے انتخاب سے بے نیاز اور عدم دلچسپی کے مظاہرے میں مصروف ہے، باشعور پاکستانی عوام کی چیئرمین سینٹ کے حوالے سے رائے یہ ہے کہ چیئرمین سینٹ کا انتخاب کسی بھی پارٹی سے ہو اس سے عام عادمی کو کوئی ریلیف نہیں مل سکتا اور نہ ہی چیئرمین سینٹ کا کردار ماضی میں قانون سازی کے حوالے سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل رہا ہے، جہاں تک چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے حوالے سے اکثریت کی رائے ہے وہ اگر 100 فیصد نہیں تو 90 فیصد درست ضرور ہے کیونکہ ماضی میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت سے منتخب ہونے والے چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری پاکستان پیپلز پارٹی سے وفاداری نبھاتے رہے اور کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہ کر سکے، یہاں تک کہ راقم الحروف کا تعلق بھی موجودہ چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری کے انتخابی حلقے سے ہے جس میں وہ 2008 ء کے الیکشن میں شکست کا مزہ چکھ چکے ہیں، نیئر حسین بخاری کے بارے میں ان کے حلقے کی عوام کی رائے یہ ہے کہ آج تک وہ اپنے حلقے کیلئے بھی کوئی خاطر خواہ کام نہ کروا سکے ، موجودہ چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری کے انتخابی حلقہ NA-49 اسلام آباد میں اس وقت بھی 60 فیصد حلقے کی عوام سوئی گیس جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہے اور ان کا حلقہ مسائل کا گڑھ بن چکا ہے، 2008 ء کے انتخابات میں بھی یہی بے اعتنائی موجودہ چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری کی شکست کا سبب بنی تھی اور چیئرمین سینٹ کی مضبوط سیٹ پر ہوتے ہوئے بھی نیئر حسین بخاری کا حلقے کو سراسر نظر انداز کرنا ان کے سیاسی مستقبل پر فل سٹاپ لگا دے گا۔
ابتدائی طور پر چیئرمین سینٹ کے انتخاب کیلئے پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور راجہ ظفر الحق کا نام سامنے آیا تھا لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے خود کو چیئرمین سینٹ کی دوڑ سے باہر کر لیا ہے ۔۔۔ شاید وہ ابھی ملکی خزانے کے وزیر کے عہدے کو انجوائے کرتے ہوئے اسی پر ”اکتفائ” کرنا چاہتے ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے چیئرمین سینٹ کیلئے سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک، رضا ربانی اور اعتزاز احسن میں سے کسی ایک کو امیدوار نامزد کیا جا سکتا ہے۔ سینٹ انتخابات کے حوالے سے تجزیہ نگارنجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خدشات بالکل صحیح تھے اور سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ ہو رہی تھی، میڈیا کے دبائو اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران کے واویلے سے لوگ ہارس ٹریڈنگ سے پیچھے ہٹ گئے، پاکستان تحریک انصاف کے ارکان پر عمران خان کا دبائو تھا کہ ہارس ٹریڈنگ نہ کریں جبکہ تحریک انصاف میں کچھ ”بکنے” والے لوگ موجود تھے جو اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا چاہ رہے تھے اور پیسے بنانا چاہ رہے تھے” ایسے حالات میں قوم یہ توقع کیسے رکھ سکتی ہے کہ چیئرمین سینٹ کا انتخاب شفاف ہوگا ۔۔ با وثوق ذرائع کے مطابق پاکستانی سیاست کے گھاگ سیاستدان مولانا فضل الرحمان نے اس بار بھی کارڈ کھیلتے ہوئے ڈیل کر لی ہے اورلازمی بات ہے کہ جے یو آئی (ف) کے ارکان کا ووٹ عین انتخابی وقت پر اپنا رنگ دکھا دے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا چیئرمین سینٹ انتخاب کے حوالے سے کہنا ہے کہ وہ چیئرمین کے انتخاب میں پی پی اور ن لیگ کو ووٹ نہیں دیں گے کیونکہ سینٹ میں ٹکٹ بکتے ہیں جبکہ ہمارے ارکان نہیں بکے، عمران خان کا سینٹ کے ٹکٹ بکنے کا انکشاف کوئی نئی بات نہیں بلکہ اکثریت جانتی ہے کہ سینٹ میں پیسوں کے عوض ممبران خریدے اور بیچے جاتے ہیں، عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے وزیر اعظم نے ترمیم کا ڈرامہ رچایا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب نظر آتے ہیں، عمران خان اس حوالے سے بھی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ عدالتی کمیشن بنائے ورنہ ہم پھر سڑکوں پر ہوں گے، عمران خان کے مطالبات سے اگر حکومت وقت کو پریشانی نہیں تو وہ عدالتی کمیشن کے قیام میں تاخیری حربے کیوں استعمال کر رہی ہے؟ اگر ہارس ٹریڈنگ کا یہی سلسلہ جاری رکھنا ہے تو عوام الناس کے پیسوں پر انتخابات کا ڈرامہ رچانے کی کیا ضرورت ہے، سیدھے سیدھے ارکان خریدے جائیں اور حکومت قائم کرکے ملک کا صحیح معنوں میں بیڑہ غرق کیا جائے۔
تحریر: فیصل اظفر علوی
جنرل سیکرٹری : کالمسٹ کونسل آف پاکستان (CCP)