تحریر : حافط محمد فیصل خالد
سینٹ انتخابات سے قبل پارلیمان میں موجود تمام جماعتیں سینٹ انتخابات کی تیاری میں غیر معمولی طور پر سر گرمِ عمل نظر آئیں۔اطلاعات کے مطابق سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے اپنے اپنے ممبران سے وفادار رہنے کیلئے قسمیں لیں گئیں۔ یہاں تک کہ پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعت کو بھی اپنے جیالوں سے عہدِ وفاداری لینا پڑا۔ جبکہ دوسری جانب ایک مسلمہ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان سب کاوشوں کے باوجود ممبران کی بولی لگی اور بڑی تعداد میں لگی۔ کچھ لوگ قیادت سے ناراض نظر آئے تو کچھ نے مانی اپنے من کی۔ لیکن در حقیقت ایوانِ بالا میں اس قسم کی منفی سیاست کی سب سے بڑی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ ایوانِ بالا میں موجود تمام جماعتوں کے سربراہان کا آمرانہ رویہ ہے۔ اگر ماضی قریب یا بعید میں ان منتخب ممبران کے ساتھ قیادت کا رویہ مناسب ہوتا تو آج نقشہ کچھ اور ہوتا۔ جب ممبران نے اس تلخ حقیقت کو محسوس کیا کہ لیڈران کے ہاں معیار پارٹی سے ٰ وفادری کی بجائے پیسہ و اثرورسوخ ہے تو پھر ان ممبران نے بھی اپنی وفاداریاں بدلنے میں دیر نہ کی۔
جب یہ معاملہ کھل کے سامنے آیا کہ کیپٹن صفدر صاحب کے کہنے پرانکے ہم نوائوں کو سینیٹر بنا دیا گیا تو پارٹی ورکرزاور ممبران جو اپنی وفادریوں کے پیشِ نظر قیادت سے اچھی امیدیں اگائے بیٹھے تھے انکا کا دماغ خراب نہ ہونے کی کوئی وجہ باقی نہ رہی۔جب ممبران دیکھتے ہیں کہ سید غوث علی شاہ جیسے وفادار کو پارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہیں ملتا جبکہ انکی جگہ دوسری سیاسی جماعت سے آنے والی ماروی میمن صاحبہ کو ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چئیر پرسن بنا دیا جاتا ہے تو ممبران شاید قیادت کے اس فیصلے کو ہضم نہ کر سکے۔ جب تہمینہ دولتانہ جیسی پرانی رہنماء کو نظر انداز کر کے انکی جگہ ایوانِ صدر میں بیٹھے ایک ایسے شخص (جس نے پارٹی ممبر شپ کا فارم تک نہیں فِل کیا تھا) کو معاونِ خصوصی بنا دیا گیا تو پھر شاید قیادت کے پاس مطمئن رہنے کا کوئی جواز باقی نہ بچا۔اور یہی وہ جانبدار معاملات تھے جنکا کہیں نہ کہیں قیادت کو بھی احساس تھا۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف بھی اس سلسلہ میں خاصی پریشان نظر آئی کیونکہ انکو بھی یہی خدشہ تھا کہ انکے ممبران بھی بڑی تعداد میں بکیں گے۔ اور اسی سلسلہ میں عمران صاحب نے آصف علی زرداری صاحب سے بھی رابطہ کیا تاکہ قانون سازی کر کے ایسے افعالِ مکروہہ کو روکا جا سکے۔ لیکن یہاں بھی بنیادی سوال وہی ہے کہ انصاف کے علمبردار وں اور خود کو سادق و امین کہنے والے ہیں کیوں ان افراد کی فہرست میں کیوں شامل ہونا چاہتے تھے جو بکائو مال کہلاتے ہیں؟۔اور اتفاق سے یہاں بھی بنیادی وجہ جماعت کی اعلی قیادت کا جانبدار اور غیر منصفانہ رویہ ہے جب انصافیوں نے بھی یہ نظارہ دیکھا کہ انکی جماعت کے ہاں وفاداری کی بجائے معیار دولت و طاقت ہے تو انہوں نے بھی اپنے وضع شدہ معیاربدل ڈالے۔
جب اسد قیصر جیسے ذہین اور قابل انسان کو نظر انداز کر کے دولت کی بناء پر جناب پرویز خٹک صاحب کو وزیارتِ اعلی کے منصب پر فائز کر دیا گیا ( جو کہ پہلے شیر پائو صاحب کی حکومت میں اور بعد میں امیر حیدر ہوتی صاحب کی حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں)۔ جب جہانگیر ترین صاحب جیسے متنازعہ شخص کو محض انکی دولت کی بناء پر کے۔ پی۔ کے۔ حکومت کا والی وارث بنا دیا گیاتو عام رکن جو خلوصِ نیت سے قیادت کے ساتھ چلا تھا اسکے ذہن میں کئی جائز سوالوں نے جنم لیا۔جب گزشتہ حکومت میں مولا فضل الرحمان کی جماعت کی جانب سے وزارت کے عہدے پر فائز رہنے والے اعظم خان سواتی صاحب کو انکے اثر و رسوخ کے بلبوتے پر اہم عہدے سے نوازہ گیا تو قیادت کے ایسے فیصلوں کے نتیجے میں ممبران بشمول سیاسی ورکرز کے ذہنوں میںکئی شک و شبہات نے جنم لیا۔
قابلِ افسوس عمل یہ کہ قیادت نہ ایسے سولات کے جواب دینے میں سنجیدہ ہے اور نہ ان سوالات کے جواب دینے میں کوئی دلچسپی رکھتی ہے۔اور یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جو آج سیاسی رہنمائوں کے لئے درد سر بنی ہوئی ہیں۔ اگرماضی میں ان لیڈان کا رویہ اپنے ممبران بشمول کارکنان کے ساتھ احسن ہوتا تو آج انکو کسی قسم کی ہارس ٹریدنگ کا خدشہ نہ ہوتا۔ بہرحال اب کے تو انتخابات گزر گئے اور ان انتخابات کے احوال بھی سب کے سامنے ہیں لیکن اگر تمام تر سیاسی قیادت کو مستقبل میں اس قسم کے افعال مکروہہ سے بچنا ہے
قانون سازی کے ساتھ ساتھ انکو اپنی اپنی جماعتوں میں منصفانہ اور احسن طریقے سے معاملات کو آگے لیکر چلنا ہوگا۔ اور اگر اب بھی انکا رویہ نہ بدلاتو پھر عین ممکن ہے کہ آنے والے ایام میں نتائج اس سے بھی بد ترہوں۔
تحریر : حافط محمد فیصل خالد