پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر نے اپنے ایک اخباری بیان میں میاں نواز شریف صاحب کے انتخابی تعرے اور منشور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرمحترم میاں صاحب کی سیاست اور موجودہ حالات کے پس منظر میں اس نعرے پر غور کیا جائے تواس کے معنی اور مطلب صرف اور صرف یہ ہیں کہ ناجائز طور پر جمع کئے گئے ’’نوٹ کو عزت دو‘‘ ۔ ان کے نزدیک ہر وہ پاکستانی جو ان کی ناجائز طور پر کمائی ہوئی دولت کا عدالتی احتساب چاہتا ہے ووٹ اور جمہوریت کا دشمن ہے ۔
جناب تاج حیدر نے سوال کیا کہ ووٹ اور جمہوریت کی عزت اس وقت کہاں تھی جب 2013 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری دو جماعتوں کو بندوق کے زور پر انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایک کارنر میٹنگ کرنے کی جسارت کرنے پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی کے صاحب زادے کو انتہا پسندوں نے اغوا کیا اور انتخابی میٹنگ میں شامل کئی افراد کو شہید کیا ۔ دہشت گرد تنظیم سے قریبی تعلق رکھنے کے باوجود وزیر اعظم بننے کے بعد بھی محترم میاں نواز شریف نے علی گیلانی کی بازیابی کے لئے کوئی کوشش نہیں کی اور یہ اللہ کا کرم اور ایک معجزہ تھا کہ دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد علی گیلانی گھر واپس آگئے ۔محترم میاں نواز شریف جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کی منتخب عوامی حکومت کا عدلیہ کے ذریعے تختہ الٹنے کے لئے سرگرم رہے وہ بھی ان کی جمہوریت سے ’گہری وابستگی ‘ اور ووٹ کو عزت دینے کے اصول کا ایک ’درخشاں ‘باب ہے ۔
محترم میاں صاحب کی تمام تر سیاست اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار حاصل کرنے پر مرتکز رہی ہے ۔ ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے باہمی اختلافات اور جھگڑوں کی حقیقت ’گھریلو جھگڑوں ‘ سے زیادہ نہیں رہی ہے ۔ وہ اداروں پر حملے صرف اداروں سے مزید مدد لینے اور نئے معاہدے کرنے کے لئے کرتے ہیں ۔ پچھلی مرتبہ انہوں نے آمریت سے اپنا نیا معاہدہ کرنے کے لئے بیرون ملک تک سے مدد لی تھی ۔مشرف آمریت کے دوران اندرون ملک پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکن جیلوں میں تھی اور جمہوریت کی بحالی کے لئے جد و جہد کر رہی تھی جب کہ محترم میاں صاحب ناجائز طور پر کمائی ہوئی دولت سے بیرون ملک اپنے ذاتی اثاثے بنا رہے تھے ۔ اب اگر پانامہ لیکس کے نتیجے میں پاکستان کی عدالت عظمی نے ان سے سوال کیا ہے کہ وہ اپنے بیرون ملک اثاثوں کے لئے حاصل شدہ سرمائے کی وضاحت کریں تو وہ جمہوریت کی دہائی دے رہے ہیں اور ریاستی اداروں کو سیاست میں ملوث کر نے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ان کے اور ریاستی اداروں کے درمیان کوئی بھی نیا معاہدہ اب بعید از امکان ہے کیونکہ چالاکی کا زمانہ اب ختم ہو چکا ہے ۔
محترم میاں صاب کی خدمت میں ان کی جمہوری نقاب کے حوالے سے صرف ایک مصرعہ پیش ہے ۔
’ پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے