counter easy hit

سینئر صحافی نے وارننگ جاری کر دی

لاہور (ویب ڈیسک) حکومت میں تبدیلیاں ہوگئیں۔عمران خان کے قریبی ساتھی اسد عمر رخصت ہوگئے اورفوادچوہدری کا قلمدان تبدیل ہوگیا۔جنرل مشرف کی ٹیم کے اراکین ڈاکٹر حفیظ شیخ اور فردوس عاشق اعوان نئی ٹیم میں شامل ہوگئے۔ اس کے علاوہ فاروق اعوان اور اعجاز شاہ بھی نئی ٹیم میں داخل ہوگئے۔ نامور کالم نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔سپریم کورٹ کے سخت ریمارکس کے باوجوداعظم سواتی بھی اس ٹیم کا حصہ بن گئے۔ انٹیلی جنس بیوروکے سابق سربراہ اعجاز شاہ بھی وزیر داخلہ ہوگئے۔اسد عمر گزشتہ دنوں امریکا میں آئی ایم ایف کی ٹیم سے کامیاب مذاکرات کے بعد وطن پہنچے تھے،وہ اچھے دنوں کی نوید سنا رہے تھے کہ اچانک رخصت ہوگئے۔اب اسد عمر کہتے ہیں کہ نئے وزیرخزانہ کے لیے حالات بہت زیادہ سازگار نہیں ہونگے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نئے وزیر خزانہ سے معجزوں کی امید نہ رکھی جائے ۔دودھ اور شہدکی نہریں اب نہیں بہیں گی۔ وفاقی کابینہ میں تبدیلیوں کی خبریں کافی دنوں سے آرہی تھیں مگر ٹی وی چینلز کو کنٹرول کرنے والی اتھارٹی ان خبروں کو جعلی قرار دینے کے زمرے میں شمار کرتی تھی اور ان خبروں کو نشر کرنے والوں کو نوٹس جاری کر رہی تھی مگر آخر یہ خبریں سچ ثابت ہوگئیں۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے9 ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوا مگر ہمیشہ کی طرح ملک کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ملک میں امن وامان کی صورتحال بدستور خراب ہے۔کوئٹہ میں ہزارہ برادری خودکش حملے کا نشانہ بنی۔اس حملے میں 20 کے قریب افراد شہید ہوئے۔ ہزارہ برادری نے ہمیشہ کی طرح کئی دنوں دھرنادیا، گورنر، صدراور وزیرِاعظم سب کوئٹہ پہنچے، وعدے کیے گئے، ملزمان کو قرار واقعی سزا دلانے کی یقین دہانی کرائی گئی مگر ہزارہ برادری والے اب بھی غیر مطمئن اور پریشان ہیں۔ پھرسیکیورٹی فورسز کو دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے پشاور کے شہری علاقے حیات آباد میں15گھنٹے تک آپریشن کرنا پڑا۔ اس آپریشن میں ایک پولیس افسر شہید ہوئے۔ 5کے قریب دہشتگرد مارے گئے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ دہشت گرد جدید ترین آلات سے لیس تھے۔ مکران ڈویژن کے شہر اورماڑہ میں دہشتگردوں نے بس سے اتار کر 15 افراد کو گولی مار کر شہید کردیا۔ شہید ہونے والے افراد کا تعلق سیکیورٹی فورسز سے تھا۔پھر پنجاب میں امن و امان کی صورتِحال پرعدم اعتمادکا اظہارکرتے ہوئے پولیس کے سربراہ کو تبدیل کیا گیا۔ گزشتہ 9 ماہ کے دوران حکومت نے معیشت کو سدھارنے کے اعلانات کیے مگر کوئی حقیقی شکل نہ بن سکی ۔ حکومت کے مشیر تجارت رزاق داؤد نے خود یہ اقرار کیا کہ ضروری اشیاء کی مدمیں 40 فیصد اضافہ ہوا ۔ درآمدات کا ہدف پورا نہ ہوسکا اور انکم ٹیکس جمع کرانے والوں کی تعداد کم رہی۔ پھر ادویہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ادویہ کی قیمتوں میں اضافے پر جب میڈیا میں واویلاہوا تووزیر صحت کو خیال آیا اور انھوں نے قیمتوں میں اضافے سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ گزشتہ حکومت کے دور میں ہوا تھا جس کی معیاد کو ختم ہوئے سال بھر سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔اسی طرح روزگار کی سہولتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد جن میں انجینئر،ایم بی بی ایس اورپی ایچ ڈی ڈگری یافتہ افراد شامل ہیںان میں بیروزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ تحریکِ انصاف نے اپنے منشور میں عہد کیا تھا کہ15 لاکھ افراد کو ملازمتیں دے دی جائینگی۔ ایک وفاقی وزیر فیصل واؤڈا عجیب و غریب اعلانات کرنے اور کاؤ بوائے کا کردار ادا کرنے کی شہرت رکھتے ہیں نے ایک ٹی وی شو میں یہ اعلان کردیا کہ ملازمتوں کی بارش ہونے والی ہے۔ وزیرِ موصوف اس سے پہلے بھی یہ اعلان فرما چکے ہیں کہ پاکستان کو تیل و گیس کا عظیم ذخیرہ ملنے والا ہے ۔ اسی طرح حکومت نے غریبوں کو لاکھوں مکانات دینے کا بھی وعدہ کیا، کوئٹہ میں ایک رہائشی اسکیم کا اعلان ہوا مگر اس وعدے کی کوئی ملک گیر عملی صورت نظر نہیں آئی۔ سابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری ہفتے میں دو دن میاں برادرن،زرداری اور مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤ ں کی کرپشن کے اسکینڈل افشا کرتے ہوئے آخر وزارتِ اطلاعات سے محروم ہوئے۔ نیب نے حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر پہلے کارکنوں نے مزاحمت کی اور پھر لاہور ہائی کورٹ کی ضمانت ملنے پر نیب والے مایوس ہوئے اور وزراء کی حمزہ شہباز، آصف زرداری، شہباز شریف اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کی پیشگوئیاں ہوامیں تحلیل ہوگئیں۔بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ میں تبدیلیاں دراصل تحریکِ انصاف کے مختلف گرہوںکی کشمکش کا منطقی نتیجے کی صورت میں برآمد ہورہی ہیں۔ان تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سے سزا یافتہ جہانگیر ترین اب بھی عمران خان کے پاس سب سے مضبوط شخصیت ہیں۔ ان کی مخالف وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی ،اسد عمر، چوہدری سرور اور دیگر اس کشمکش میں شکست کھا رہے ہیں اور تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ سابق صدر مشرف کی ٹیم کو عمران خان کے گرد جمع کر دیا گیا ہے ، ڈاکٹر حفیظ شیخ اور اعجاز شاہ اور محمد میاں سومرو جو پرویز مشرف ٹیم کا حصہ تھے۔ ان کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ڈاکٹر حفیظ شیخ اور فردوس عاشق اعوان بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ بنے ۔سینئر صحافی آئی اے رحمان نے لکھا ہے کہ کابینہ میں تبدیلیوں سے محسوس ہوتا ہے کہ غیر منتخب افراد کو منتخب نمایندوں پر ترجیح کی دی گئی ہے جس سے 60ء کی دہائی کے جنرل ایوب خان کے دور کی یاد تازہ ہوگئی ۔ 2002 سے دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونماہوئی ہیں،اس وقت ملک ایک شدید قسم کے اقتصادی بحران کا شکار ہے،دوسری طرف بین الاقوامی برادری اس بحران میں پاکستان کی اس طرح مدد کرنے کو تیار نہیں جس طرح اس نے ماضی میں کی تھی،اقتصادی بحران کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں،ایک وجہ تو یہ ہے کہ فنانشل ٹیرارزم کی ٹاسک فورس کی لگائے جانے والی سخت پابندیوں کی وجہ سے ملک کا بینکنگ کا نظام براہ راست متاثر ہورہا ہے۔ حکومت اس ٹاسک فورس کی ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس سے غیر رسمی معیشت سکڑ رہی ہے۔دوسری طرف نیب ،ایف آئی اے اور ایف بی آر کی مسلسل کارروائیوںکے نتیجے میں حکومت کے دعووں کے باوجود ملک کی معیشت جان نہیں پڑ سکی۔سرمایہ کار نئی سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں اور روپے کی قیمت کم ہونے سے اور ڈالر کی قیمت بڑھنے کے نتیجے میں برآمدات کی شرح گر گئی ہے۔پھر ماحولیاتی تبدیلیوں نے زراعت کے شعبے کو سخت نقصان پہنچایاہے۔گزشتہ ہفتے پنجاب اور سندھ میں ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں  گندم کی فصل کو سخت نقصان پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ اسد عمر نے آئی ایم ایف کی شرائط مان لی تھیں۔ جس کے نتیجے میں حکومت نے اس معاہدے پر عمل ہونے کی صورت میں حکومت کو بجلی،گیس،پٹرول،شکر اورکیمیائی کھاد کی قیمتوں کومتوازن رکھنے کے لیے دی جانے والی زرتلافی کو واپس لینا پڑے گا جس سے بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔امریکا ،برطانیہ اور فرانس مسلسل یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مولانا مسعود اظہر کو دہشتگرد قرار دیا جائے اگرچہ کہ چین نے قرارداد کو بار بار ویٹو کیا ہے مگر امریکا، برطانیہ اور فرانس کی ناراضگی کی بنا پر عالمی مالیاتی اداروں کا رویہ بہت سخت ہوگیا ہے جس کے منفی نتائج برآمد ہورہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کی اپنی کابینہ میں حالیہ تبدیلیوں سے ملک کے اقتصادی بحران پر کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا۔جب تک سرحدوں پر صورتحال معمول پر نہیں ہوگی اور کالعدم تنظیموں سے جان نہیں چھوٹے گی امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں ہوگی۔ بنیادی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ جب تک ملک میں اس وقت سنگین بحران کی جو بنیادی وجوہات ہیں وہ دور نہیں ہونگی یہ بحران جاری رہے گا۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ جب تک موجودہ حکومت مکمل طور پر اقتدارِ اعلیٰ کی مالک نہیں ہوجاتی وہ بین الاقوامی حالات کے مطابق اپنی پالیسیاں ترتیب نہیں دے پائے گی اور معیشت کو بچانے کے لیے حقیقی اقدام نہیں کرسکے گی۔ کابینہ میں کتنی بھی تبدیلیاں ہوں یہ بحران جاری رہے گا ۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website