لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان مسلم لیگ کے صدر و سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین نے انکشاف کیا ہے کہ کچھ عناصر مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کو بزور طاقت منتشر کرنا چاہتے تھے مگر چوہدری پرویز الٰہی نے انہیں یہ کہہ کر روکا کہ اگر کوئی نقصان ہوا یا جانیں ضائع ہوئیں تو اسکی ذمہ داری کوئی نہیں لے گا ، پھر حکومت پھنس جائے گا اور اس صورتحال سے نکلنا بھی مشکل ہو گا ۔ چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ کچھ لوگ فضل الرحمٰن کے دھرنے پر دھاوے حامی تھے۔پرویز الٰہی نے روکا، انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دوں گا کہ پرانی باتوں پر پائو، وزیراعظم میر شکیل الرحمٰن اور میڈیا کے مسائل باہمی مشاورت سے حل کریں، سب بھول کر ملک کو بحران سے نکالنے کی کوشش کریں، پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پولیس اور علماء میں لڑائی نہیں ہوئی۔ تفصیلات کے مطابق ایک بیان میں چوہدری شجاعت حسین نے کہا کچھ لوگ فضل الرحمٰن کے دھرنے پر دھاوے کے حامی تھے۔پرویز الٰہی نےوزیراعظم کو کہا اگر جانی نقصان ہو ا تو کوئی ذمہ داری نہیں لے گا آپ کو ہر چیز کا جواب دینا پڑیگا جس پر فیصلہ موخر کر دیا گیا، ہم سب کو تاریخ سے سبق حاصل کر کے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ ملک کے بحران کو سب چیزیں بھول کر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، عمران خان میر شکیل الرحمٰن اور میڈیا کے مسائل باہمی مشاورت سے حل کریں۔چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ملیحہ لودھی کو بغاوت کے کیس میں گرفتار کرنے کا کہا جو اس وقت دی نیوز کی چیف ایگزیکٹو تھیں اس پر میں نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے صحافی برادری اور انٹرنیشنل کمیونٹی میں اچھا تاثر نہیں جائیگا۔چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن جب دھرنے کیلئے اسلام آباد آئے تو اس وقت بھی کچھ لوگ دھرنے پر دھاوا بولنے کے حامی تھے لیکن عمران خان سے جا کر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔سب ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ آپ بات کریں آپ بات کریں، اگرچہ چوہدری پرویزالٰہی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے باضابطہ ممبر نہیں تھے لیکن ان سے کہا گیا کہ آپ عمران خان سے بات کریں۔چوہدری پرویزالٰہی عمران خان سے ملاقات میں مشورہ دیا کہ اگر مار کٹائی شروع ہوگئی اور کوئی آدمی مر گیا تو الزام لینے پر کوئی تیار نہیں ہو گا البتہ آپ کو ہر چیز کا جواب دینا پڑیگا جس پر فیصلہ موخر کر دیا گیا۔چوہدری شجاعت حسین نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے معاملے پر ہماری پارٹی پر جو الزام لگایا گیا اسکے حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ حالات کے مطابق میری اور چوہدری پرویزالٰہی کی باہمی سوچ پر عمل کرتے ہوئے معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہوا۔