لاہور (نیوز ڈیسک ) احتساب کا خوف، تحریک انصاف کے سینئر وزیر نے مستعفی ہونے کی دھمکی دے دی، سینئر صحافی و کالم نگار شاہین صہبائی کا دعویٰ ہے کہ وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے، وزیراعظم کو حکومت کی بدنامی کا باعث بننے والے وزراء کیخلاف جلد ایکشن لینا ہوگا، ایک وزیر نے تو دھمکی تک دے دی کہ اگر میرے گزن کو گرفتار کیا گیا تو مستعفی ہو جاوں گا۔تفصیلات کے مطابق معروف صحافی و کالم نگار شاہین صہبائی نے قومی اخبار کیلئے لکھے گئے کالم میں تہلکہ خیز انکشافات کیے گئے ہیں۔ شاہین صہبائی کہتے ہیں کہ وزیراعظم کیلئے ہنی مون پیریڈ ختم ہو چکا ہے، اب انہیں بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔ اس وقت کئی لوگ ان کیخلاف محاذ کھولنے کیلئے سرگرم ہیں۔ جبکہ وزیراعظم پر یہ دباو بھی بڑھ رہا ہے کہ وہ حکومت میں موجود بدعنوان اور نااہل وزراء کیخلاف ایکشن لیں۔شاہین صہبائی کا دعویٰ ہے کہ حکومتی وزراء وزیراعظم کو کھلے عام دھمکیاں دیتے ہیں۔ ایک وزیر کے کزن کو نیب کی جانب گرفتار کیے جانے کا امکان ہے۔ اس تمام معاملے پر وہ شدید نالاں ہیں۔ مذکورہ وزیر نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے کزن کو گرفتار کیا گیا، تو وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔ شاہین صہبائی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو اب ایسے وزراء کیخلاف خود کاروائی عمل میں لانا ہوگی۔ کئی وزراء حکومت کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ وزیراعظم کو ان وزراء کیخلاف ایکشن لے کر انہیں حکومت سے الگ کرنا ہوگا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ میں کہنا ہے کہ اپوزیشن کی اجڑی ہوئی بستی میں اب صرف مہنگائی اور لوگوں کی مشکلات اور عثمان بزدار کی دہائی ہی رہ گئی ہے۔اور پھر جیلوں میں بیٹھے لیڈر آخر اس کونے پر پہنچ گئے کہ انہیں مولانا فضل الرحمان کے مدرسوں کے بچوں پر انحصار کرنا پڑا۔سب کو ایک ہی مصیبت پڑ گئی کہ کسی طریقے سے عمران خان شنکجے سے نکلیں،چاہے بچوں کو ہی استعمال کیا جائے۔پھر یہ نئی کہانیاں شروع ہو گئیں کہ خلائی مخلوق عمران خان کو بقول اپوزیشن کے لائی تھی اوران کے پیچھے کھڑی تھی وہ بھی پیچھے سرکنا شروع ہو گئی ہے اور یہ شور مچنے لگا کہ حکومتی پارٹی کے لوگوں کا احتساب کیوں نہیں ہو رہا ور عمران خان کے پاس اب یوٹرن لینے کے لیے کم وقت بچا ہے۔نئے الیکشن کی آوازیں آنے لگیں اور نواز شریف اور زرداری اس خوش فہمی میں آنے لگے کہ یہ حکومت تو بس اب گئی تب گئی۔اس لیے جیلوں میں تھوڑے دن رہنا کوئی بڑی بات نہیں۔دباؤ بڑھتا گیا اور پھر جنرل اسمبلی کا اجلاس آ گیا اور عمران خان وہاں سے ایک ہنی مون کا وقت خریدے لائے۔اب وہ عالمی سطح پر تو اپنا قد بڑھا کر آ گئے مگر داخلی صورتحال ابھی پوری قابو میں نہیں آ رہی جس کے لیے انہوں نے پھر سے ایک بڑی اکھاڑ پچھاڑ کا ارادہ کر لیا ہے۔آتے ہی ملیحہ لودھی کی چھٹی کرنا ایک بڑا پیغام تھا اور اپنی کابینہ میں اسد عمر کی واپسی اور کئی دوسروں کی رخصتی کا بھی عندیہ دیا،میرے خیال میں اب بڑے فیصلے کرنے کا وقت آ گیا ہے اور زیادہ سے زیادہ گنجائش نہیں رہی ہے۔جن وزیروں نے چاہے وہ اپنی پارٹی کے ہوں یا مانگے تانگے کے،ان کی حکومت کو بدنام کیا ہے ان کی کھلے عام اور دبنگ انداز میں رخصتی کا اعلان ضروری ہے۔جو وزیر حکومت میں بھی ہیں اور اپنا بزنس بھی چلا رے ہیں یا وہ فیصلے نہیں کر رہے جن کی وجہ سے ان کا ذاتی کاروبار متاثر ہو سکتا ہے ان کا حکومت میں رہنا بہت نقصان دن ہو گا۔میڈیا والے چھریاں تیز کر رہے ہیں کہ خان صاحب کی حکومت میں ان کا حقا پانی کم ہو گیا ہے۔صنعت کار بھی پریشان حال حکومت والوں اور اس کے ساتھ ایک صحفے پر کھڑے ہوئے افراد سے کھل کر شکایتیں کر رہے ہیں،مگر جو ملاقاتیں یہ صنعت کار کر رہے ہیں۔ان کے پیچھے ایک چھپی ہوئی کہانی بھی ہے۔ایک انگریزی روزنامہ نے تو یہاں تک لکھ کر دیا ہے کہ ایک وزیر نے دھمکی دے دی اکے ان کے کزن کو گرفتار کیا گیا تو وہ کابینہ سے استعفیٰ دے دیں گے،