counter easy hit

احساس

Shafqat Ullah Sail

Shafqat Ullah Sail

تحریر ۔۔۔ شفقت اللہ سیال
آج ہم صرف نام کے مسلمان بن کررہے گئے ہیں۔ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ہے۔اکثریت لوگ اس دوڑ میں ہے ۔کہ میں بڑا بنولیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہا وہ بڑا کس سے بننا چاہتے ہے ۔اور اس بڑا بننے کے چکر میں وہ اپنا اچھا برا بھی بھول چکے ہے۔ان کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ایک دن مرنا ہے اور اس وقت اللہ تعالی کو کیا منہ دیکھنا ہے۔ایسے لوگ ہی ہے ۔جن کی تنخواہیں تو چند ہزار روپے ہوتی ہے ۔مگر ان لوگوں کے اخراجات دیکھوں تو آپ کو ایسے معلوم ہو گا۔

جیسے کہ وہ کسی راجامہاراجا یا کسی سلطنت کے شہزادے ہو۔ان کے بچے پرائیویٹ سکول کالجوں میں تعلیم حاصل کررہے ہے۔یہ پیسے کہا سے آرہے ہے۔ایسے لوگوں کے پاس ۔آج اس مہنگائی کے دور میں تنخواہ سے تو گھر کا چولہا مشکل سے چلتا ہے ۔لیکن نہ جانے ایسے لوگوں کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں ۔ہم لوگ صرف نام کے مسلمان بن کر رہے گئے ہیں ۔سب ایک دوسرے کو اس وقت یاد کرتے ہے جب اس سے کوئی مطلب ہو۔جب مطلب پورا ہوا تو پھر تو کون میں کون ۔او اللہ کے بندوں ہم مسلمان سب آپس میں بھائی بھائی ہے۔کوئی ہے جو اپنے ہی غریب مسلمان بھائیوں کا احساس کرئے۔آج ہم یہ بھی بھول چکے ہے۔کہ کتنی قربانیاں دی ہمارے بزرگوں نے اور اس کے بعد جا کر ہمارا پیارا ملک پاکستان بنا۔کیا قائداعظم ۔علامہ اقبال یا ہمارئے بزرگوں کا یہی پاکستان تھا ۔کیا اسی لیے ہمارئے بزرگوں نے قربانیاں دی۔

کیا اس لیے ہمارا پیارا ملک پاکستان بنا۔کہ آج اگر کوئی عام آدمی کسی محکمہ میں کام کروانے کے لیے چلا جائے۔تو نہ جانے اس غریب کو یہ لوگ دفتر کے اتنے چکر پے چکر لگوائے گئے۔ یا تو وہ شخص اس کام کو بھول جائے گا ۔اور دفتر جانے کا وہ شخص دوبارہ پھر سے نام ہی نہیں لیتا ۔ٹی ایم اے جھنگ کی نقشہ برانچ کو ہی دیکھ لو۔تو آپ کو معلوم ہو جائے ۔کہ تحصیل جھنگ میں کتنی عمارات ۔بلڈنگ ۔دوکانے۔مارکیٹ۔پلازئے۔کوٹھیوں وغیرہ تعمیر ہوئی ۔یا جن لوگوں کی بلڈنگ کے کام چل رہے ہے۔ان سب لوگوں کے پاس ان کے نقشے ماجود ہے کہ نہیں ۔اور جو شہر میں مارکیٹ ۔پلازئے وغیرہ بنے ان کی پارکنک کی جگہ ان لوگوں نے رکھی بھی کہ نہیں۔

افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے۔کہ یہ سب کرئے گا کون ۔اس نقشہ برانچ کی پہلے بھی اخبارات میں خبریں وغیرہ آتی رہی ہے ۔ لیکن نہ جانے سب کس مصلحت کے تحت خاموش ہے۔آج اگر سرگودھا روڈ ۔فیصل آباد روڈ۔گوجرہ روڈ۔ٹوبہ روڈ۔بھکر روڈ۔جھنگ شہر۔جھنگ صدر۔اور گردونواح کا وزٹ کیا جائے۔ تو آپ کو معلوم ہو جائے گا۔کہ کتنی بلڈنگ تعمیر ہو چکی یا جو ہو رہی ہے۔اور شہر کے علاقوں اور بازارں ۔سبزی منڈی۔غلہ منڈی جھنگ صدر ۔غلہ منڈی جھنگ شہر وغیرہ ۔ان کے نقشے ایمانداری سے چیک کیے جائے ۔اور جن لوگوں نے نقشے نہیں بنوائے ۔ان کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔نیک اور ایماندار لوگوں کی ٹیم جو تحصیل جھنگ کا وزٹ کرئے۔اور جن لوگوں نے نقشے نہیں بنوائے ان کے خلاف کاروائی کرئے۔

تو خزانہ سرکار کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔پہلے بھی کئی عمارات کی نقشہ برانچ کو بتایا گیا مگر افسوس۔۔۔آپ اگر ٹی ایم اے جھنگ کے خاکروب حضرات کی لسٹ دیکھوں اور روڈز پر دیکھوں کتنے آدمی کام کر رہے ہے ۔تو آپ کو معلوم ہو جائے گا ۔ٹی ایم اے کے ملازموں نے اپنے ہی لوگوں کو خاکروبوں کی نوکریاں دے رکھی ہے۔ کئی تو ایسے لوگ خاکروب ہے جو سارا دن اپنا کاروبار کرتے اور ہر ماہ تنخواہ ٹی ایم اے جھنگ سے وصول کر کے خزانہ سرکار کو چونا لگا رہے ہے۔ایسے لوگ جو آج تک صرف ٹی ایم اے تنخواہیں لینے آتے ہے۔اور سارا ماہ اپنے کاروبار وغیرہ میں مصروف رہتے ہے۔ٹی ایم اے کے میٹ ہو یا سینٹری انسپکٹرحضرات جو ان لوگوںکی حاضری لگا دیتے ہیں۔

کوئی ایسا افسر آج تک نہیں آیا ۔جو اس کام کوروک سکے۔یہ جو خزانہ سرکار کو ہر ماہ تنخواہوں کی مد میں ٹیکہ لگایا جا رہا ہے۔سفید پوش خاکروب جو صرف تنخواہیں وصول کر رہے ہے۔جتنے بھی خاکروب اس وقت ٹی ایم اے کے ہے اگر امانداری سے روزانہ کام کرئے۔تو شہر میں آپ کو کسی جگہ کوئی گندگی نظر نہ آئے۔مگر یہاں تو سب نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔اور سب اچھا ہے کی رپوٹ بنائے جا رہے ہے۔اور تو اور تنخوائیں بنانے والے بھی سب کی تنخوائیں بناکر دیئے جا رہے ہے۔وہ بھی نہیں دیکھ رہے کہ سفید پوش خاکروب کون ہے ۔اور کام کرنے والے کون۔آج ایسے لوگ ملک قوم کے لیے ناسور بن چکے ہے۔جو خزانہ سرکار کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر کھا رہے ہے۔ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔

شرم آنی چاہئے ۔ایسے کام کرتے ہوئے۔وہ روزہ ۔نماز کس کام کے۔کہ آج حق دار جو خاکروب کی نوکری کے لیے دھکے کھا رہے ہیں ۔اور سفید پوش افراد اپنی خاکربوں کی نوکریاں لگوائے گھروں میں بیٹھے تنخوائیں وصول کر رہے ہیں ۔کئی سفید پوش خاکروب جو دفتر صرف تنخواہ لینے آتے ہیں ۔لیکن سارا ماہ اپنے کاروبار میں مصروف ہوتے ہے ۔کیا یہی ہمارا ملک پاکستان ہے کیا یہی خواب تھے ہمارے بزرگوں کے ۔آج تک کسی بھی افسر نے ان لوگوں سے نہیں پوچھا کہ تمام خاکروب ڈیوٹی کیوں نہیں دیتے۔بس کلرک ۔سینٹری انسپکٹروغیرہ سب اچھے کی رپوٹ لکھنے میں مصروف ہے ۔آج کوئی حق دار خاکروب کی نوکری کے لیے جائے تو اس غریب کو پہلے تو بولے گئے ۔کہ ابھی کوئی سیٹ نہیں ۔یا پھر اس کو اتنے چکر لگوائے گئے۔کہ وہ خود دفتر آنا چھوڑ دئے۔اور کسی نہ کسی سفید پوش کو وہ نوکری خاکروب کی دے دی جائے گئی۔جو کوئی ٹی ایم اے کے کسی سینٹری انسپکٹر۔کلرک وغیرہ کا چہتا ہو۔کون کرئے گاانصاف۔ کون دلوائے گا غریبوں کو ان کا حق ۔کون سوچے گا میرے شہرکے بارئے ۔جو قدیمی اضلاع میں سے ایک ہے۔

تحریر ۔۔۔ شفقت اللہ سیال