توہین یعنی بلاسفیمی کا قانون پاکستان میں ایک ایسا حساس معاملہ بن چکا ہے جس کے بارے میں کسی بھی قسم کی بات کرتے ہوئے خوف آتا ہے۔ کون آ کر جان لے جائے کیا پتا، یہی سوچ کر ہر انسان اس معاملے میں اپنی رائے ظاہر نہیں کرتا۔ دوسری طرف اسی قانون کا سہارہ لیتے ہوئے طاقتور کمزوروں کی زندگی کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں ملک میں مذہبی شدت پسندی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب کوئی بھی شخص کسی پر بھی توہین کا الزام لگا کر اس کی جان لے سکتا ہے۔ قانوں بھی ان لوگوں کے آگے بے بس ہے۔
بلاسفیمی ایک ایسا حساس معاملہ ہے جس کو چھیڑنے کی وجہ سے تقریباً چھ سال پہلے 4 جنوری 2011ء کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کر دیا گیا تھا۔ انہیں قتل کرنے والا ان کا اپنا سیکیورٹی گارڈ ممتاز قادری تھا۔ سلمان تاثیر کا قصور بس یہ تھا کہ انہوں نے ایک عیسائی عورت آسیہ بی بی، جس پر توہین کا الزام لگایا گیا تھا، کی حمایت کی تھی۔
سلمان تاثیر کا خیال تھا کہ بلاسفیمی کا قانون متنازعہ ہے اور اس قانون کا بے جا استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جب انہوں نے یہ باتیں کہیں تو خود ان پر کفر کے فتوے جاری کر دیے گئے اور اسی وجہ سے ان کے محافظ نے انہیں قتل کر دیا۔
سلمان تاثیر نے ارشد شریف کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ : “جب میں نے یہ فیصلہ کیا تھا تب کئی لوگوں نے کہا تھا کے آپ ایسا نہ کریں۔ یہ مذہبی جنون اور انتہا پسند لوگ آپ کے پیچھے پڑ جائیں گے۔ اس وقت مجھے فیض احمد صاحب کا ایک شعر یاد آتا ہے۔
آج بازار میں پابجولاں چلو
رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو
تو میں نے سمجھا کہ ان لوگوں کی دہشت کے سائے میں اگر پاکستانیوں نے اپنی زندگی گزارنی ہے تو اس ملک کا کوئی حال نہیں ہونا”۔
اس ملک میں ایسے سینکڑوں عقل مند سیاست دان ہیں جو ایک ایم این اے یا ایم پی اے کی سیٹ کو جیتنے لیے لاکھوں روپے برباد کر دیتے ہیں، مگر کچھ بیوقوف ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو گورنر کی سیٹ بھی مل جاتی ہے مگر ایک غریب عیسائی عورت کے لیے اپنی گورنر کی کرسی کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی ہی ختم کر دیتے ہیں۔
کبھی کبھار یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ سلمان تاثیر کو آسیہ بی بی کی حمایت کرنے کا نتیجہ معلوم تھا۔ سب جانتے بوجھتے ہوئے انہوں نے اپنے قدم کیوں نہ روکے؟ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ وہ اس ناانصافی کو ایسے ہی بڑھنے نہیں دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کر کے اپنے جیسی ملتی جلتی آوازوں کو بھی بلند ہونا سکھایا۔
اگر سلمان تاثیر ‘عقلمندی’ سے کام لیتے ہوئے اس ‘حساس معاملے’ پر خاموشی اختیار کیے رکھتے تو وہ آج ہمارے ساتھ ہوتےاور دیگر سیاست دانوں کی طرح پر تعیش زندگی گزار رہے ہوتے۔
سلمان تاثیر ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ سیاست میں بھی ایک اہم عہدہ ان کے پاس تھا۔ وہ بھی چاہتے تو باقی گورنروں اور سیاستدانوں کی طرح اپنی بقیہ زندگی بہت پرسکون طریقے سے بیرون ملک میں گزار سکتے تھے مگر انہوں نے مظلوم کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جس کی سزا انہیں اپنی جان کی صورت میں ادا کرنی پڑی۔ اپنی جان دے کر وہ ایک ایسی شمع روشن کر گئے ہیں جو اگر جلتی رہی تو پھر کوئی کسی پر جھوٹا بلاسفیمی کا الزام نہیں لگائے گا۔