تحریر: سید مبارک علی شمسی
سانحہ پشاور کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے کہ سانحہ اٹک نے پوری قوم ہلا کرر کھ دیا ہے۔ سانحہ پشاور پاکستان کی تاریخ کاسب سے بڑا واقعہ ہے کہ جسمیں پاکستان دشمن انتہا پسندوں نے وزیر داخلہ پنجاب کرنل (ر) شجاع خانزادہ کے ڈیرہ پر خود کش حملہ کر کے وزیرداخلہ اور DSPسید شوکت شاہ گیلانی سمیت 20 افراد کو موت کی وادی میں دھکیل دیاہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر سے پوری قوم میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔ کیونکہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کی شہادت کے بعد MQM کے راہنما عبدالرشید گوڈیل حملے میں شدید زخمی جبکہ ان کا ڈرائیور جانبحق ہو گیا۔دہشت گروں کی جانب سے یہ حملے جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میںلشکر جھنگوی کے سرپرست ملک اسحاق اور اس کے ساتھیوں کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کا ردعمل ہیں۔دہشتگروں نے پنجاب اور سند ھ دونوں بڑے صوبوں میں کاروائیاں کرکے نہ صرف تاحال اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے بلکہ سیکورٹی اداروں کو بھی ایک واضع پیغام دیا ہے۔
لیکن اگر سانحہ اٹک اور رشید گوڈیل پر ہونے والے حملہ کا جائزہ لیا جائے تو انکی ٹائمنگ خاصی اہم نظر آتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سانحہ اٹک سیکورٹی اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جہاں تک رشید گوڈیل پر ہونے والے قاتلانہ حملے کا تعلق ہے تو ایم کیو ایم کے راہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے اسے مذاکرات ثبوتاژ کرنے کی ایک سازش قرار دیا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ شجاع خانزادہ اور رشید گوڈیل سمیت دیگر سیاستدانوںکو انٹیلی جنس اداروں کی کی جانب سے ہائی الرٹ کر دیا گیا تھا تو پھر مناسب سیکورٹی کا انتظام کیوں ضروری نہیں سمجھا گیا۔ ایک ایسے وقت میں جب سیکورٹی اداروں کی جانب سے ضرب عضب آپریشن لازوال کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے تو اسکا دائرہ کار پورے ملک میں اور خصوصا جنوبی پنجاب میں پھیلا کر دہشتگردوں کے لیئے زمین تنگ کر دینی چاہیے اور سیکورٹی اداروں کو دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنیوالے سہولت کاروں کے خلاف بھی سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیں اور وزیراعظم پاکستان کو چاہیے کہ وہ وزیرقانون اور دہشتگروں کے سرغنہ رانا ثنااللہ کی زبان کو لگام دیں۔
ان حالات میں جب پاکستان چہار سو خطرات کا شکار ہے ۔ بھارتی جارجیت سے پیدا ہونے والی کشیدگی اسی طرح اگر افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی بات کیجئے تو وہاں سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا ۔ دہشت گردی کے حالیہ لہر نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں سیاسی و عسکری قیادت کا دہشتگروں کو دوبارہ منظم نہ ہونے دینے کا عزم خوش آئند ہے۔ تاہم سیاسی جماعتوں کومتنازعہ بیان دے کر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے سے گریز کرنا چاہیے اور ملکی سلامتی کے لیئے ہم سبکو ایک جگہ اکٹھا ہونا ہو گا ۔
جس طرح ہم آجکل تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں اسی طرح وزیرداخلہ پنجاب کرنل (ر) شجاع خانزداہ حالت جنگ میں تھے اور انہوں نے ملک و قوم کی خاطر میدان جنگ میں جان دیکر شہادت کا جام نوش کر لیا کیونکہ انہوںنے دہشتگردوں کو للکارا تھا۔ شجاع خانزداہ نیشنل ایکشن پلان کے انچارج تھے۔ شہادت سے کچھ روز قبل یوحنا آباد دہشتگردوں کے بارے میں میڈیا کو بتایا اور دبنگ انداز میں دہشتگردوں کے متعلق بریفنگ دیں انہوںنے مدارس کے خلاف کریک ڈائون میں بھی مکمل حمایت کی تھی۔ ملک میں قیام امن شجاع خانزادہ کا پہلا اور آخری مشن تھا اس مشن کی تکمیل کے لیئے وہ دہشتگردی کو ملک پاکستان سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں دن رات کوشاں تھے اور دہشتگردوں کے ناپاک عزائم کو ختم کرنے کے لیئے ہمیشہ سینہ سطر رہتے تھے اور دہشت گردوں کے آگے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے تھے دہشت گرد اس بات سے باخوبی واقف تھے کہ اگر یہ شخص ہمارے درمیان حائل رہا تو ہم اپنی مذموم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں گے۔
دہشت گرد شجاع خانزادہ کی جان کے در پے تھے بلاآخر دہشت گردوں نے باہم صلاح مشور ہ ہو کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت شجاع و دیانت کے پیکر وزیرداخلہ پنجاب کرنل (ر) شجاع خانزادہ کو اٹک کے گائوں شادی خان میں ان کے ڈیرہ پر خود کش حملہ میں شہید کر دیا (ان للہ و ان علیہ راجعیون) حملہ اس وقت کیا گیا جب ان کے ڈیرہ پر جرگہ جاری تھا جس میں ایک DSP شوکت شاہ سمیت حلقہ کے عمائدین شامل تھے۔ شجاع خانزادہ کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ ان کا خون ضرور رنگ لائے گا۔ اور ان کی عطر بیز یادیںہمارے نہاں خانہ دلوں میں ہمیشہ محفوظ رہیں گی۔ سانحہ اٹک کے شہدا کی شہادت پر زمین رو رہی ہے آسمان اشک بار ہے۔فضائیں ماتم کناں اور موسم سوگوار ہے۔ ہر محبت پاکستانی کے چہرے پر اداسیوں کے بادل شائے ہوئے ہیں۔ بقول شاعر
تمہیں کس پھول کا کفن ہم دیں
تم جدا ایسے موسموں میں ہوئے
جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے
تحریر: سید مبارک علی شمسی
mubarakshamsi@gmail.com