لاہور (ویب ڈیسک) علیحدگی… شیخ مجیب کا پہلا آپشن نہیں تھا‘‘ پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔ ایسے بھی تھے جو مجیب کو ازلی و ابدی غدار سمجھتے ہیں۔ بیشتر کے خیال میں علیحدگی واقعی مجیب کا پہلا آپشن نہیں تھا‘ جبکہ اکثریت کا اصرار تھا کہ علیحدگی مجیب کا آخری آپشن بھی نہیں تھا۔ نامور کالم نگار رؤف طاہر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔خود میرا غالب رجحان بھی یہی ہے کہ علیحدگی مجیب پر مسلط کی گئی۔ اس حوالے سے متعدد دلائل و شواہد میں سے ایک، سردار شوکت حیات کا وہ بیان ہے جو انہوں نے حمودالرحمن کمیشن کو دیا۔ تحریکِ پاکستان زوروں پر تھی جب نوجوان کپتان نے انگریز کی فوج سے استعفیٰ دے کر مسلم لیگ کا پرچم تھام لیا اور ”شوکتِ پنجاب‘‘ کا خطاب پایا۔ ایوب خاں کے عہدِ آمریت میں، سرکاری مسلم لیگ (کنونشن) کی بجائے خواجہ ناظم الدین (اور مادرِ ملت) والی کونسل مسلم لیگ سے وابستگی کو ترجیح دی۔ ایوب خاں کے مد مقابل مادر ملت کی انتخابی مہم کے دوران، خواجہ صاحب اگلے جہاں سدھار گئے۔ فیلڈ مارشل کی عائد کردہ ایبڈو کی پابندیاں ختم ہوئیں تو ممتاز محمد خاں دولتانہ کونسل مسلم لیگ کی صدارت کے سزاوار ہوئے۔ وہ مغربی پاکستان کے ان لیڈروں میں سے تھے‘ جن کے اصرار پر ”اگرتلہ کیس‘‘ کے ملزم شیخ مجیب کی رہائی اور ایوب خاں کی طلب کردہ گول میز کانفرنس میں ان کی شرکت ممکن ہوئی۔ سردار شوکت حیات کونسل مسلم لیگ میں دولتانہ صاحب کے دستِ راست شمار ہوتے۔ 1970ء کے انتخابات میں پنجاب میں بھٹو کے طوفان کے باوجود کونسل مسلم لیگ نے قومی اسمبلی کی جو سات نشستیں نکال لیں، ان میں دولتانہ اور شوکت حیات کی نشستیں بھی تھیں۔
دسمبر 1970 کے انتخابات کے بعد تین ماہ کی تاخیر سے بلایا گیا، آئین ساز اسمبلی کا (3 مارچ کا) اجلاس یحییٰ بھٹو گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ملتوی ہوا تو مشرقی پاکستان میں آگ سی لگ گئی۔ ہر آنے والے دن بحران سنگین تر ہوتا جا رہا تھا۔ ایسے میں مغربی پاکستان سے جو لیڈر پاکستان کو بچانے کی آخری کوشش کے لیے ڈھاکہ پہنچے‘ ان میں ممتاز دولتانہ، سردار شوکت حیات اور ولی خاں بھی شامل تھے۔ حمودالرحمن کمیشن کے روبرو بیان میں سردار شوکت حیات کا کہنا تھا: 19 مارچ 1971 کو دولتانہ صاحب کے ہمراہ شیخ مجیب سے ملاقات، اُس ملاقات سے مختلف تھی جو جنوری میں ہوئی تھی۔ وہ ملاقات مجیب کے ساتھ اکیلے میں ہوئی لیکن اب وہ عوامی لیگ کے سیکرٹری جنرل شیخ تاج الدین اور نذرالاسلام کے حصار میں تھے (یہ دونوں عوامی لیگ کے انتہا پسندوں میں شمار ہوتے تھے) مجیب کی کوشش تھی کہ علیحدگی میں ملاقات کا کچھ موقع مل سکے‘ لیکن میٹنگ کے دوران ان دونوں میں سے کوئی ایک ضرور موجود رہا۔ مجیب نے بھٹو کی ”اِدھر ہم، اُدھر تم‘‘ والی تقریر کا ذکر کیا، جرنیلوں سے ملاقات کے حوالے سے بتایا کہ جنرل یحییٰ خاں نے انہیں آئین ساز اسمبلی کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسلام آباد اور ڈھاکہ میں الگ الگ اجلاسوں کی پیشکش کی ہے (دو آئین ساز اسمبلیوں کی تجویز)۔ مجیب حیران تھا کہ جنرل یحییٰ خاں نے انہیں اس کی خواہش سے کہیں زیادہ کی پیشکش کر دی تھی (مجیب تو زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری چاہتے تھے جبکہ یحییٰ خاں انہیں ”آزادی‘‘ پیش کر رہے تھے) ملاقات کے بعد الوداع کہتے ہوئے شیخ مجیب نے چپکے سے کہا کہ اس کی طرف سے کوئی شخص ہم سے ملاقات کے لیے آئے گا۔ اس رات عوامی لیگ کا ایک اہم رہنما ایک مشترکہ دوست کے ہاں ملاقات کے لیے آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ عوامی لیگ کی ورکنگ کمیٹی میں مجیب اور ان کے مٹھی بھر ساتھی 7 مارچ کے بعد حقیقتاً ”قیدی‘‘ بن کر رہ گئے ہیں۔ انہیں ”پاکستان کا حامی‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ ورکنگ کمیٹی کے ارکان کی اکثریت، 7 مارچ کے یوم احتجاج پر یکطرفہ اعلانِ آزادی کی حامی تھی۔ صرف تین ارکان اس کے مخالف تھے۔ شیخ نے تمام تر دباؤ کے باوجود آزادی کا اعلان کرنے کی بجائے، مارشل لاء اٹھانے، فوج کو واپس بیرکوں بھیجنے، اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے اور اس ہفتے کے دوران ہونے والی قتل و غارت کی عدالتی تحقیقات کے چار مطالبات پیش کر دیئے اور اپنی تقریر کا اختتام ”جَے بنگلہ‘‘ کے ساتھ ”جَے پاکستان‘‘ کے نعرے سے کیا۔ سردار شوکت حیات کے بقول، شیخ مجیب کے نہایت قابلِ اعتماد پیغام بر نے اپیل کی کہ ہم جرنیلوں سے کہیں کہ وہ اس موقع پر مجیب کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے، ”انتہا پسندوں‘‘ کے مقابلے میں ان کی مدد کریں‘ جو شیخ مجیب پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کر دیں۔ شیخ مجیب کا پیغام بر یہ یقین دلانے آیا تھا کہ شیخ اور اس کے ساتھی اب بھی ”ایک پاکستان‘‘ میں یقین رکھتے ہیں اور انتہا پسند عناصر پر قابو پانے میں ان کی خواہش جرنیلوں کی خواہش سے کم نہیں ہے (سردار شوکت حیات نے کمیشن کو بتایا کہ وہ اس پیغام بر کا نام علیحدگی میں بتا دیں گے۔) حمودالرحمن کمیشن کے روبرو مفتی محمود کی کہانی بھی دلچسپ تھی، یہ کہ بھٹو صاحب نے انہیں اسمبلی کے اجلاس کے بائیکاٹ پر آمادہ کرنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے، خود جنرل یحییٰ خاں نے بھی اس کے لیے کیا کیا جتن کیے‘ جس پر مفتی صاحب نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ مجیب کے چھ نکات سے تو پاکستان کو ٹوٹنے میں برسوں لگ جائیں گے‘ لیکن اسمبلی کے بائیکاٹ کے نتیجے میں، یہ تباہ کن عمل اسی سال مکمل ہو جائے گا۔
مولانا ظفر علی خاں ٹرسٹ کی ہفتہ وار نشست میں پروفیسر ڈاکٹر علقمہ کی گفتگو کا بیشتر حصہ بھی سقوطِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے تھا۔ ڈاکٹر علقمہ کے بزرگوں کو ڈھاکہ میں مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس (1906) کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ قائد اعظم کے انتقال کے بعد خواجہ ناظم الدین پاکستان کے (دوسرے) گورنر جنرل بنے۔ لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد ان کی جانشینی کے لیے قرعہ فال بھی خواجہ صاحب کے نام نکلا۔ ایوب خاں کے عہدِ آمریت میں وہ جمہوری جدوجہد کے قافلہ سالاروں میں شامل تھے۔ علقمہ کے والد خواجہ خیرالدین 1970 کے الیکشن میں شیخ مجیب کے مد مقابل تھے۔ وہ ہار گئے لیکن ہارنے والوں میں سب سے زیادہ ووٹ انہی کے تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد قیدوبند کے مراحل سے بھی گزرے۔ پھر علاج کے بہانے لندن پہنچے۔ وہاں سے پاکستان چلے آئے اور یہاں بھٹو صاحب کے خلاف کاروانِ جمہوریت کا حصہ بن گئے۔ ضیاء الحق دور میں ان کی زیر قیادت مسلم لیگی دھڑا، ایم آر ڈی کا حصہ تھا۔ڈاکٹر علقمہ کا کہنا ہے کہ مسئلہ علیحدگی کا نہیں، مشرقی پاکستان کے سیاسی و اقتصادی اختیارات کا تھا۔ مجیب بھی یہی چاہتے تھے۔ یحییٰ خاں کے دور میں جس ”لندن پلان‘‘ کا بہت شور مچایا گیا‘ وہ ممتاز محمد خاں دولتانہ، شیخ مجیب اور ولی خاں کی ملاقات تھی جس میں ملک کے دونوں حصوں میں پاور شیئرنگ پر تبادلہ خیال کیا گیا اور یہ کہ الیکشن ( اور آئین سازی) کے بعد یہ تینوں مل کر مخلوط حکومت بنائیں گے۔ مجیب کو ”مستقبل کا وزیر اعظم‘‘ قرار دینے کے بعد یحییٰ کو توقع تھی کہ مجیب بھی جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ”مستقبل کا صدر‘‘ قرار دے گا لیکن ان کی سوچ مغربی پاکستان سے کسی سیاستدان کو صدر بنانے کی تھی۔ ڈاکٹر علقمہ کا کہنا تھا: کیا ممتاز محمد خاں دولتانہ جیسا محب وطن پاکستان کے خلاف کسی پلان کا حصہ بن سکتا تھا؟ علقمہ نے یاد دلایا کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد مغربی پاکستان سے رہائی کے بعد لندن پہنچ کر شیخ مجیب کا بیان تھا کہ وہ پاکستان سے کسی نہ کسی طرح کا تعلق قائم رکھنے کی کوشش کریں گے‘ لیکن ظاہر ہے، ڈھاکہ پہنچ کر یہ کام آسان نہ تھا۔ 25 مارچ کے آپریشن کے بعد مغربی پاکستان میں غداری کا مقدمہ بھگتنے والے شیخ مجیب کے وکیلِ صفائی ممتاز قانون دان اے کے بروہی تھے۔ سقوط ڈھاکہ سے کوئی 2 ماہ قبل الطاف حسن قریشی (نصیر سلیمی کے ہمراہ) بروہی صاحب سے ملنے گئے تو وہ بہت اداس تھے۔ ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا، پاکستان قائم نہیں رہ سکے گا حالانکہ میں نے شیخ مجیب سے پاکستان کے حق میں بیان لے لیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دشمن اِدھر بھی ہیں اور اُدھر بھی۔ وہ اگر زندہ بچ کر ڈھاکہ چلا گیا تو اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں مارا جائے گا۔ ”… اور وہ مارا گیا‘‘