مادری زبان سے کئی پنجابی‘ انفرادی طور پر اور پنجابی زبان کے فروغ کی ادبی اور ثقافتی تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں۔ 5 دسمبر 2015ءکو روزنامہ ”خبریں“ کے چیف ایڈیٹر جناب ضیاءشاہد ”خبریں“ کے زیراہتمام پنجابی کے شاعروں‘ ادیبوں‘ صحافیوں اور دانشوروں کے منعقدہ سیمینار کی کارروائی شائع ہُوئی، جِس میں لِکھا گیا تھا کہ ”سندھ سے سندھی زبان کے 100 سے زیادہ اخبارات اور ماہوار رسالے شائع ہوتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا سے پشتو زبان کے سات روزانہ اخبارات‘ بلوچستان سے بلوچی زبان میں چار اور براہوی زبان میں ایک روزنامہ شائع ہوتا ہے۔
رپورٹ میں لِکھا گیا تھا کہ ”پنجاب سے پنجابی زبان میں شائع ہونے والے دو روزانہ اخبارات روزنامہ ”بُھلیکا“ اور ”لوکائی“ کو حکومتِ پنجاب کی طرف سے “Zero” کے برابر اشتہارات مِلتے ہیں۔ مَیں نے اُس سیمینار کی کارروائی پر‘7 دسمبر 2015ءکے ”نوائے وقت“ میں کالم لِکھا‘ جِس میں لِکھا تھا کہ ”اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ سندھ‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتیں اپنی اپنی مادری زبان سے محبت کرتی ہیں لیکن پنجاب کے حکمرانوں کو اپنی مادری زمان سے محبت نہیں ہو گی؟“۔ 16 جنوری کو روزنامہ ”خبریں“ میں روزنامہ ”بھلیکا“ لاہور کے چیف ایڈیٹر جناب مُدثر اقبال بٹ نے ”پنجابی زبان کے محافظوں کی ذمہ داری کے عنوان سے اپنے کالم ”آوازِ پنجاب“ میں مادری زبان کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کی ہے۔
مدثر اقبال بٹ صاحب نے وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کو ”پنجابی زبان کے محافظ ذمہ دار “ قرار دے کر مادری زبان پنجابی کے سِلسلے میں انہیں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔ اچھی کوشش ہے۔ مَیں نے اپنے کالم میں ذرا تلخی سے بات کی تھی کہ ”حکومت پنجاب کی طرف سے پنجابی کے روزانہ اخبارات ( ہفتہ وار اور پندرہ روزہ رسائل) کو”زیرو” کے برابر اشتہارات دئیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ”پنجاب کے حکمرانوں کو اپنی مادری زبان سے محبت نہیں ہے“۔ جناب مدثر اقبال بٹ وزیراعظم نواز شریف کی اِس ادا پر ہی فِدا ہو گئے ہیں کہ ”اُنہوں نے 11 جنوری کو ضلع چکوال میں ہندوﺅں کے متبرک مقام کٹاس راج میں اردو زبان میں تقریر کرتے ہُوئے پنجابی کے نامور شاعر بابا بُلّھے شاہ کا شعر بھی پڑھا حالانکہ وزیراعظم صاحب نے بھی وہ شعر بھی غلط پڑھا تھا۔
29 جون 2013ءکو ہمارے وزیراعظم کے دفتر میں ”پاک انڈیا تجارتی کونسل“ کے اجلاس میں بھارتی وفد میں شامل پنجابی کاروباری شخصیات نے جنابِ وزیراعظم سے پنجابی زبان میں گفتگو کی تھی۔ بابا بُلّھے شاہ اور حضرت میاں محمد بخش کی شاعری کا حوالہ دیتے ہُوئے جب ایک بھارتی مہمان نے حضرت میاں محمد بخش کا شعر غلط پڑھا تو وزیراعظم نے اُس کی تصیحح بھی کردی تھی۔ شعر تھا
”ٹُٹے دِل کدِی نئیں مِلدے‘
بھاویں گُھٹّ گُھٹّ جپّھیاں پائیے“
ترجمہ (جب رنجش یا کسی اور وجہ سے) اِنسانوں کے دِل ٹوٹ جائیں تو وہ پھر نہیں جُڑ سکتے خواہ وہ کتنی ہی گرمجوشی سے ایک دوسرے سے بغل گِیر کیوں نہ ہوتے رہیں“۔ 2 جولائی 2013ءکو ”نوائے وقت“ میں میرے کالم کا عنوان تھا۔ ”وزیراعظم کی پنجابی سے دلچسپی“ مَیں نے لِکھا تھا کہ ۔ ”مہمان بھارتی پنجابی شخصیت نے حضرت میاں محمد بخش کا شعر سُن کر ہمارے وزیراعظم کو یہ پیغام دِیا تھا کہ ”پاکستان اور بھارت میں تجارت تو ہو سکتی ہے لیکن دونوں ملکوں کے تاجر اگر گُھٹّ گُھٹّ جپھّیاں وی پاﺅندے رہن“ پھر بھی اُن میں مخلصانہ دوستی نہیں ہو سکتی“۔
بھارت سے تجارت کے شوق میں وزیراعظم نواز شریف نے پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور پھر اُسی پارٹی کے وزیراعظم نریندر مودی سے ذاتی دوستی کرنے کی کوشش کی لیکن بے مقصد رہی۔ وہ شری نریندر مودی سے دوستی کی خاطر اُن کی حلفِ وفاداری کی تقریب میں 26 مئی 2014ءکو دِلّی میں تھے ( معراجِ رسول) کے دِن وزیراعظم مودی نے “ایک ایک” ملاقات میں وزیراعظم نواز شریف کو (مردِ امن) کا خطاب دِیا۔ مودی جی نے ہمارے وزیراعظم کی والدہ¿ محترمہ کے لئے شال بھجوائی اور جواب میں وزیراعظم نواز شریف نے مودی جی کی ماتا جی کو ساڑھی کا تحفہ۔
25 دسمبر 2015ءکو وزیراعظم نواز شریف کی سالگرہ اور اُن کی نواسی (مریم نواز کی بیٹی مہر اُلنسائ) کی رسمِ حنا تھی۔ وزیراعظم مودی اپنا لاﺅ لشکر لے کر رائے ونڈ پدھارے تھے۔ ہمارے وزیراعظم نے انہیں اپنی والدہ¿ محترمہ سے بھی ملوایا۔ والدہ صاحب نے دونوں وزرائے اعظم سے کہا ”مِل کر رہو گے تو خُوش رہو گے“۔ شری مودی نے کہا تھا۔ ”ماتا جی! ہم دونوں اِکٹھے ہی ہیں“۔ وزیراعظم نواز شریف کی زبان پنجابی ہے اور شری مودی جی کی مادری زبان گجراتی ۔ جناب مدثر اقبال بٹ یاد رکھیں کہ ”1947ءمیں پنجابی زبان کو ”ماں بولی“ کہنے والے سِکھوں نے پنجابی زبان بولنے والے 10 لاکھ مسلمانوں کو قتل کِیا اور پنجابی بولنے والی 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغوا کرکے اُن کی آبرو ریزی کی تھی۔
قائداعظم نے سِکھ لیڈروں کو پاکستان کے ساتھ ”سانجھ“ کی دعوت دی تھی لیکن وہ خود کو ہندوﺅں سے قریب سمجھتے تھے۔ 1984ءمیں بھارت کی آنجہانی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے دَور میں بھارتی فوج نے امرتسر میں سِکھوں کے ”ہر مندر“ (گولڈن ٹیمپل) پر چڑھائی کی‘ ہزاروں سِکھ قتل ہوگئے تو انہیں‘ ننکانہ صاحب میں گُرو نانک جی کی جائے پیدائش ”ننکانہ صاحب“ حسن ابدال میں ”پنجہ صاحب“ لاہور میں گُرو ارجن دیو اور مہاراجا رنجیت سِنگھ کی سمادھیاں اور پاکستان میں کئی گوردوارے یاد آگئے۔ سِکھ یاتری پاکستان آتے اور چلے جاتے ہیں۔ وہ پاک پنجاب کی پنجابی اور بھارتی پنجاب میں بولی جانے والی سِکھی پنجابی (گُر مُکھی) اِک مک کرکے ”سانجھا پنجاب“ کا خواب دیکھتے ہیں اور پنجاب میں پنجابی زبان کے بعض شاعر‘ ادیب‘ صحافی اور دانشور بھی نہ جانے کیوں سِکھوں کو خُوش کرنے کے لئے ”سانجھا پنجاب“ کا راگ الاپنے میں اُن کے ساتھ ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی مادری زبان بھی پنجابی ہے۔ وہ دسمبر 2013ءمیں بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ سرکار پرکاش سِنگھ بادل کی دعوت پر بھارتی پنجاب کے دورے پر گئے تھے اور (اُن دنوں) بھارت کے وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سِنگھ سے ملاقات کے بعد اُنہوں نے (کوڑا کرکٹ) سے بجلی پیدا کرنے والے “پلانٹ” کا معائنہ بھی کر لیا تھا۔ وہاں میاں صاحب اپنی پنجابی میں گفتگو کرتے رہے اور پرکاش بادل اور دوسرے سِکھ لیڈران اپنی سِکھی پنجابی میں۔
پاک اور پنجاب اور یہاں بولی جانے والی پنجابی سے محبت اور اسے پرائمری سطح پر لاگو کرانے کے خواہشمند پنجابی شاعروں‘ ادیبوں‘ صحافیوں اور دانشوروں کو ہمارے صوفی شاعروں کی پنجابی کو عام کرنا ہوگا‘ جِس میںعربی‘ فارسی اور اردو کے وافر الفاظ ہیںاور جِسے اردو دان طبقہ بھی سمجھتا ہے۔ ہماری پنجابی اور سِکھی پنجابی دو مختلف زبانیں ہیں۔ ہماری پنجابی میں سِکھی بولی کے الفاظ کی آمیزش کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ میرا دعویٰ ہے کہ
”اِک مک نئیں کر سکدا‘ کوئی گُولا‘ نہ کوئی گُولی
وَکھری پاک پنجاب دِی بولی، وَکھری سِکھّی بولی“