تحریر: میاں نصیر احمد
ایسا ہی ایک دن وطن عزیز پاکستان پر بھی آیا جب بھارت نے اپنے عزائم سے مجبور ہو کر ستمبر 1965ء کو پاکستان پر شب خون مارا بھارت کا خیال تھا کہ راتوں رات پاکستان کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیں گے اور ناشتے میں لاہور کے پائے کھائیں گے لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ شیر سویا ہوا ہو پھر بھی شیر ہی ہوتا ہے۔ افواج پاکستان اور عوام پاکستان نے مل کر دیوانہ وار دشمن کا مقابلہ کیا۔ سروں پر کفن باندھ کر دشمن سے بھڑ گئے، جسموں سے بارود باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، عوام نے اپنا سب کچھ دفاع وطن کے لئے قربان کر دیا اور ہندو ںکے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔طاقت کے نشے سے چور بھارت پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لئے آیا تھا لیکن ہمیشہ کے لئے ناکامی کا بد نما داغ اپنے سینے پر سجا کر واپس گیا وہ شاید اس بات سے بھی واقف نہیں کہ جو زمین شہداء کے لہو سے سیراب ہوتی ہے وہ بڑی ذرخیز اور بڑی شاداب ہوتی ہے۔
اس کے سپوت اپنی دھرتی کی طرف اٹھنے والی ہر انگلی کو توڑنے اور اس کی طرف دیکھنے والی ہر میلی آنکھ کو پھوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جان وار دیتے ہیں لیکن وطن پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ اور اس کا بہترین مظاہرہ 6ستمبر 1965ء کو کیا گیا، انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں بھی جرات و بہادری کی وہ درخشاں مثالیں قائم کی گئی جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی گئیں 6 ستمبر بھارتی افواج نے اچانک لاہور پر حملہ کیا اس موقع پر پاک افواج نے نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کا حق ادا کر دیاا س دن کو یوم دفاع کے طور پر قوم ہر سال مناتی ہے ایسی ہی ایک گھڑی 6 ستمبر 1965کو پاکستان کی تاریخ میں بھی آئی تھی لیکن سلام ہے اس قوم کو جس نے اپنے فرائض سے آنکھیں نہیں چرائیں ان نوجوانوں کو جن کے لیے ملکی سلامتی ان کی اپنی جان و مال سے کہیں زیادہ تھی سلام ہے ان شہیدوں کو جنہوں نے اپنے جسموں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ کر شہادت کا رتبہ پایا ملک کے لیے کچھ کرنے کے عزم کی جھلک اور محبت جس میں رچی بسی ہے 6ستمبر 1965ء کو جب ہندوستان کی افواج نے پاکستان پر رات کے اندھیرے میں حملہ کر دیا تھا اپنے سے کئیگنا زیادہ فوج کے دانت کھٹے کر کے رکھ دیئے اور ان کی ناپاک امیدوں اور ارادوں پر پانی پھیر دیا ایسے ہی جانباز مجاہدوں اور اسلام کے سپاہیوں نے ایک نئی اسلامی تاریخ رقم کی تھی کوئی بھی قوم اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتی۔
دفاع جتنا مضبوط ہو قوم بھی اتنی ہی شاندار اور مضبوط ہوتی ہے۔ 6ستمبر 1965 کی جنگ پاکستانی قوم کیلئے ایک وقار اور لازوال استقلال کا استعارہ ہے 1965کی جنگ میں پاک فوج نے ملک کی سرحدوں کا دفاع باوقار انداز میں موثر بناتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیںاور جنگ ستمبر میں بھی قوم کے بہادر سپوتوں نے جان کے نذرانے پیش کئے اور آج جب قوم کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا سامنا ہے تو بھی افواج پاکستان ملک و قوم کی سلامتی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہے6 ستمبر وہ دن ہے کی جب جرات و بہادری کی وہ تاریخ رقم ہوئی جو رہتی دنیا تک درخشاں رہے گی بھارتی افواج نے سترہ دن میں تیرہ حملے کئے لیکن وہ لاہور کے اندر داخل نہ ہو سکی۔اس وقت بھی امریکہ نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہماری افواج کی امداد بند کر دی اور بھارت کا ساتھ دیاجذبہ ایمانی کے ذریعے بھارت کے شب خون کا منہ توڑ جواب دیا قائداعظم نے فرمایا کہ پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے میں آپ میں سے ہر ایک کو اپنی الگ الگ جگہ انتہائی اہم کردار ادا کرنا ہے اس کے لئے آپ کا نعرہ یہ ہونا چاہئے کہ ایمان، تنظیم اور ایثار آپ اپنی تعداد کے کم ہونے پر نہ جائیے۔
اس کمی کو آپ کی ہمت و استقلال اور بے لوث فرض شناسی سے پورا کرنا پڑے گا کیونکہ اصل چیز زندگی نہیں ہے بلکہ ہمت صبر و تحمل اور عزم مصمم ہیں جو زندگی کو زندگی بنا دیتے ہیں6 ستمبر کو جب بھارتی افواج پاکستان پر چڑھ دوڑیں تو صدر ایوب خان نے کلمہ طیبہ کا ورد کرکے جو تقریر کی، وہ آج بھی پاکستانی قوم کا سرمایہ افتخار ہے اور غالباً یہ کلمہ طیبہ کا ورد تھا جس کی برکت سے پاکستان اس جنگ میں سرخرو ہوا انہوں نے کہا کہ دشمن کو معلوم نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے اس محاذ پر پاک فوج کے زیر کمان قوت صرف سات بٹالینوں پر مشتمل تھی اور محاذ 05 میل لمبا تھا لاہور میں داخل ہونے کے لئے باٹا پورکے پل پر قبضہ ضروری تھا چنانچہ ایک پورے بھارتی بریگیڈ اور ایک ٹینک رجمنٹ نے دوسرا حملہ کیا۔ لاہور کو بھارتی یلغار سے بچانے کے لئے نہر بی آر بی کا پل تباہ کرنا بہت ضروری تھا دن کو یہ کام نا ممکن تھا دشمن نے پل کے دائیں بائیں گولوں کی بوچھاڑ کر رکھی تھی پل تک دھماکہ خیز بارود لے جانے کی کوشش میں ایک جوان شہید ہو گیا اس کے بعد چند رضاکاروں نے ہزاروں پونڈ وزنی بارود ایک گڑھے میں اتارا اس پر ریت رکھ کر آگ لگانے والی تاروں کو جوڑا اور گولیوں کی بوچھاڑ کو چیرتے ہوئے واپس آ گئے۔
ان کا واپس آنا ایک معجزے سے کم نہ تھا یوں لاہور میں داخل ہونے کی بھارتی امیدیں منقطع ہو گئیں اس کے بعد سترہ دنوں کے دوران بھارتی فوج نے تیرہ بڑے حملے کیے مگر ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی پاکستان کے جانباز سپاہیو اور مجاہدو! دشمن پر ٹوٹ پڑ ے اور اس وقت تک جنگ جاری رکھی جب تک کہ دشمن کی توپیں خاموش نہیں ہو ئی اور یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ یوم دفاع پاکستان ہمیں اس دن کی یاد دلاتا ہے جب پاکستان کے شہیدوں، جری جوانوں اور غیور پاسبانوں نے دفاع پاکستان کی خاطر سرحدوں پر اپنی بہادری اور شجاعت کا لوہا منوایا ان کی شجاعت کے ناقابل یقین کارناموں کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی ان کی فرض شناسی اور حب الوطنی جدید جنگوں کی تاریخ میں درخشندہ مقام پر فائز کی جا سکتی ہے۔ ان کا یہی جذبہ شجاعت تھا کہ جس نے پاکستانی عوام کے ساتھ مل کر اپنے سے پانچ گنا بڑے اور جدید اسلحہ سے لیس دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا یہ ایک تاریخی معرکہ تھا جس میں ہمت اور حوصلوں کی بے مثال کہانیوں نے جنم لیا پوری دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ پاکستان کی عوام اور افواج دشمن کے عزائم کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوئے صرف اس کارروائی نے دشمن پر یہ ظاہر کر دیا کہ سمندروں میں اس کو من مانی نہیں کرنے دی جائے گی یہ کارنامہ دراصل ان لوگوں کے لیے بھی قابل فخر ہے جو پاکستان نیوی کے جہازوں کو سنبھالے ہوئے تھے اور ان میں ان لوگوں کا بھی حصہ تھا جو ساحل پر بیٹھے ان جہازوں کو سمندروں میں خدمات بجا رکھنے کے قابل رکھنے کے کاموں میں مصروف تھے۔
پاکستان کی تینوں مسلح افواج ہر محاذ پر برسرپیکار تھیں ان افواج کو حوصلہ اور تقویت عطا کرنے میں پاکستان کی غیور عوام کا بھی نہایت اہم کردار تھا وہ اپنی مسلح افواج پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے تیار تھے لاہور کے عوام کو جب جنگ کی اطلاع ملی تو وہ تانگوں پر کھانا اچار، کپڑے سگریٹ غرض ہر وہ چیز جو ان کی دسترس میں تھیلے کر اپنے جوانوں کو دینے کے لئے سرحدوں کی جانب دوڑے جب فوجیں سرحد کی طرف جاتیں تو بوڑھے مرد اور عورتیں سڑک کے کنارے ان کی سلامتی کے لئے دعائیں مانگتے’ ان کی مدد کے طریقے پوچھتے اوربچے جذبہ عقیدت سے سلوٹ کرتے بہنیں اللہ سے ان کی حفاظت کے لئے دعائیں مانگتیں شاعر ملی ترانے لکھ کر اپنے جذبوں کا اظہار کر رہے تھے۔ غرضیکہ پورا ملک جنگ میں شامل تھا مگر کسی قسم کا خوف نہ تھا۔ پاکستانی عوام فضا میں پاک فضائیہ کے شاہینوں کی کاروائیوں کو دیکھتے تھے الغرض اس جنگ میں ہماری قوم نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ آزمائش کی ہر گھڑی میں پاک فوج کے شانہ بشانہ ہر قربانی دینے کو تیار ہے اس نے دشمن کی عددی برتری کی ماضی میں پروا کی ہے نہ آئندہ کرے گی بلکہ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہو گی۔
جنگ ستمبر 1965 کے دوران قوم کا جذبہ دفاع اپنے عروج پر تھا۔ یہ حوصلوں اور جرتوں کی جنگ تھی اگر بھارت کے پاس کثیر تعداد میں اسلحہ و بارود تھا تو پاکستان کے غازی جذبہ ایمانی سے سرشار تھے انھوں نے وطن پاکستان پر آنچ نہیں آنے دی آئیں آج مل کر عہد کریںکہ مستقبل میں بھی ہم وطن پاکستان کی سلامتی پر آنچ نہیں آنے دیں گے ۔ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر وطن عزیز کی فلاح اور دفاع کے لئے کردار ادا کریں گے۔ اور اپنے قول و فعل سے کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے وطن عزیز کی عزت پر حرف آ ئے اوراس ملک کی بقاء کے لیے جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کریں گے 6ستمبر کا دن پاکستان کا یوم دفاع اور اس دن جرات اور بہادری کی تاریخ رقم ہوئی جو رہتی دنیا تک درخشاں رہے گی میں ان تمام شہیدوں، غازیوں دلیروں اور بہادروں کو سلام پیش کرتا ہوںاللہ تعالی ملک پاکستان کو رہتی دنیا تک قائم و دائم رکھے۔امین
تحریر: میاں نصیر احمد