تحریر : انجینئر افتخار چودھری
انہوں نے کہا کہ ایک روز میں اپنی جیپ میں بارڈر کی جانب جارہاتھا تو میں نے راستے میں ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو پانی کا چھڑکائو کر رہی تھی۔میں حیران ہو گیا کہ اس حبس کے موسم میں یہ عورت اس سنسان راستے پر کیا کر رہی ہے۔میں نے ڈرائیور سے کہا جیپ واپس کرو۔ہم اس تک پہنچے اور اماں سے سوال کیا ماں جی آپ اس وقت اس سنسان راستے پر کیا کر رہی ہیں۔جنرل صاحب نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا عورت نے جواب دیا بیٹا میں مسکین اور غریب ہوں میرا بیٹا کوئی نہیں میں گھروں کا کام کرتی ہوں کھیتوں میں مزدوری کر کے پیٹ پالتی ہوں میرے پاس دفاعی فنڈ میں دینے کے لئے کچھ نہیں میں نے سوچا میرے فوجی بچے اس راستے سے گزرتے ہیں ۔یہ گرد ان کی آنکھوں میں پڑتی ہے سوچا پانی کاچھڑکائو کر دوں کم از کم ان کی آنکھوں میں دھول نہیں پڑے گی اور وہ دشمن کا مقابلہ بہتر طور پر کر پائیں گےیہ تھے وہ جذبے جن کی بنیاد پر جنگ ستمبر لڑی گئی۔مجھے اس دن دلی دکھ ہوا جب جاوید ہاشمی نے ١٩٦٥ کی جنگ کے بارے میں پاکستانی قوم کے سامنے جھوٹ بولا کہ وہ جنگ انڈیا نے نہیں ہم نے شروع کی تھی۔گرچہ جب سے وہ سترے بہترے ہوئے ہیں اس قسم کی یاوہ گوئی کرتے رہتے ہیں میں ان کی بات مان لیتا مگر دوسرے ہی لمحے جب انہوں نے کہا کہ میرا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے نہیں ہے تو میں نے اپنی سوچ کا رجوع کر لیا کر لیا کہ بھائی صاحب کو فوج سے دلی دشمنی ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم قومی جھوٹ کی بیماری میں مبتلا ہیں ۔ہمیں اس بے و قوف اور جاہل قوم کا درجہ دینے میں ہمارے اس قسم کے لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے۔اس قسم کی سوچ کوخود احتسابی کا شدید بخار کہا جا سکتا ہے۔میں ایک روز محترمہ شیرین مزاری کی ایک تنظیم کے جلسے میں گیا وہاں ایک ریٹارڈ جرنیل جن کا نام بھی لکھے دیتا ہوں جنرل طلعت مسعود اور ایک سابق سفیر شائد ان کا نام سرور ہے وہ ڈاکٹر قدیر خان اور ان کی ایٹمی صلاحیتوں پر انتہائی منفی تبصرہ کر رہے تھے،وہ انہیں ایک غلط انسان کے روپ میں پیش کرنے کی جسارت کر رہے تھے میں نے اس سیمینار میں ان کی کلاس لے لی مگر لگتا تھا کہ میں ایک اور کلاس کا باشندہ ہوں اجلاس کے اختتام پر چائے کی میز پر مجھے ایک بھی پاکستانی نہیں ملا جس نے اس بات کی تائد کی ہو کہ ڈاکٹر قدیر ہمارے ہیرو ہیں۔
البتہ شیرین مزاری نے جرنیل کی خوب دھلائی کی،دیکھئے یہ کلاس اس طبقے کی نمائندگی کرتی ہے جس نے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ پاکستانیوں کو پاکستان سے محروم کر دینا ہے اس کے مستقبل سے مایوس کر کے چھوڑنا ہے۔اردو بولنے والے اس ملک سے جڑے ہوئے ہیں اس قسم کے لوگ آپ کو زیادہ تر انگلش میڈیم سے پڑھے ہوئے ملیں گے جہاں پاکستان پڑھایا ہی نہیں جاتا۔اسی طرح مسلمان ہونے کا تفاخر بھی اسی کلاس سے دور ہوتا جا رہا ہے۔جاوید ہاشمی کوئی ایک اکیلے شخص نہیں جنہیں فوج کے ہاتھوں رگڑا لگا ہو۔میں مانتا ہوں کہ ان کی جمہوریت کے لئے قربانیاں عظیم ہیں انہیں مشرف دورمیں پابند سلاسل کیا گیا ۔اس ظلم و ستم سے اور بھی لوگ گزرے ہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ فوج کی قربانیوں اور اس کے قابل فخر کردار سے منہ موڑ لیا جائے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ نجی چینیل ١٩٦٥ میں ہوتے تو ساری صورت حال بدل کے رکھ دیتے۔جاوید ہاشمی کی طرح قوم کو کنفیوز کر کے سڑکوں پر ننگا دوڑا دیتے۔ایک چینیل تو خاص طور پر جنرل چودھری کا جیم خانہ کی بجائے انار کلی میں انٹرویو بھی چلا دیتا ۔ جو قصاب کو پاکستانی قرار دینے میں بازی لے گیا تھا اس سے یہ کیا بعید تھا۔رات گئے پروگرام کرنے والا ہکلاتا ہوا صحافی لاہور کو بھارت کے قبضے میں چلے جانے کی خبر بھی سنا دیتا۔دوستو! ١٩٦٥ ہمارا تفاخر ہے۔جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی چونڈہ میں لڑی گئی اور اسی جنگ میں ہمارے سپوت سینوں پر بم باندھ کے ٹینکوں کے نیچے آ گئے۔دشمن کو عبرت ناک شکست دی گئی۔اگر بھارت پر پاکستان نے ہی حملہ کیا تھا تو عزیز بھٹی کئی دن اور راتیں بی آر بی پر کیا کرتے رہے،ظالمو اس قوم سے اس کا فخر تو نہ چھینو۔میں اس وقت دس سال کا تھا مجھیاپنے فوجیوں کے وہ ٹرک یاد آتے ہیں جب وہ ہمارے شہر گجرانوالہ سے گزرتے تھے تو لوگ ان پر صدقے واری جاتے تھے۔
میں نے جنرل سرفراز کی زبانی ایک واقعہ سنا ہے جس میں انہوں نے ایک بوڑھی عورت کی فوج سے محبت کا تذکرہ کیا ہے۔یہ بات میں نے گجرانوالہ کے شیرانوالہ باغ میں سنی تھی جب وہ لاہور سے الیکشن لڑ رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ ایک روز میں اپنی جیپ میں بارڈر کی جانب جارہاتھا تو میں نے راستے میں ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو پانی کا چھڑکائو کر رہی تھی۔میں حیران ہو گیا کہ اس حبس کے موسم میں یہ عورت اس سنسان راستے پر کیا کر رہی ہے۔میں نے ڈرائیور سے کہا جیپ واپس کرو۔ہم اس تک پہنچے اور اماں سے سوال کیا ماں جی آپ اس وقت اس سنسان راستے پر کیا کر رہی ہیں۔
جنرل صاحب نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا عورت نے جواب دیا بیٹا میں مسکین اور غریب ہوں میرا بیٹا کوئی نہیں میں گھروں کا کام کرتی ہوں کھیتوں میں مزدوری کر کے پیٹ پالتی ہوں میرے پاس دفاعی فنڈ میں دینے کے لئے کچھ نہیں میں نے سوچا میرے فوجی بچے اس راستے سے گزرتے ہیں ۔یہ گرد ان کی آنکھوں میں پڑتی ہے سوچا پانی کا چھڑکائو کر دوں کم از کم ان کی آنکھوں میں دھول نہیں پڑے گی اور وہ دشمن کا مقابلہ بہتر طور پر کر پائیں گے۔یہ تھے وہ جذبے جن کی بنیاد پر جنگ ستمبر لڑی گئی۔جاوید ہاشمی اور دیگر لوگ ہم سے یہ جذبے نہ چرائیں۔قوم کی آنکھوں میں دھول مٹی نہ جھونکیں۔
نئی نسل سچ مانگتی ہے ہم نے چودھری رحمت علی کو جھوٹ کی دھول میں چھپا دیا قومی لیڈر کو گہنا دیا اسی طرح ہمارے دانشور اس جنگ کو بھی پاکستان کے اعزاز کی بجائے اسے پاکستان کی جارحیت کا نام دینا چاہتے ہیں۔در اصل دشمنی فوج سے ہے اس کا سامنا تو نہیں کرتے جنگ ستمبر کو غلط سلط بتا رہے ہیں۔لوگ بڑے بزدل ہیں اسلام کی مخالفت کی جرئت نہیں کر پاتے مولوی کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔
نئی نسل کے لوگو!ان کی باتوں میں نہ آنا۔ اس جنگ میں ایم ایم عالم بھی ہیں جنہوں نے دشمن کے طیارے گرانے میں عالمی ریکارڈ بنایا میجر عزیز بھٹی بھی ہیں جنہوں نے اکیلے دشمن کو روکے رکھا۔بیدیاں نہر اس کی گواہ ہے۔
مت سننا جھوٹے لوگوں کی جھوٹی باتیں ۔٦ ستمبر اعزاز ہے فخر ہے۔پاکستان کے بیٹوں نے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔وہ جسے ڈکٹیٹر کہتے ہیں ایوب خان نام ہے جس کا اس کی تقریر ضرور سننا جو انہوں نے ٦ ستمبر کی صبح کو کی تھی۔لوگ تو ناشتے جیم خانے میں کرنا چاہتے تھے
لیکن اللہ نے انہیں شکست دی۔پاک فوج تمہیں سلام۔میں اس فوج کے سپہ سالار سے یہ ضرور کہوں گا کہاس موقع پر پاک فوج میں ایک اسلامی فوج کی روح پھونکیں اور اندرونی و بیرونی دشمنوں کو پیغام دے دیں کی یہ قوم آج بھی اپنے سینوں پر بھارتی ٹینکوں کی بربادی کے جذبے سجائے ہوئے ہے۔ یہ تھی چھ ستمبر اور یہ ہیںجھوٹے لوگ۔پاکستان زندہ باد پاک فوج پائیندہ باد
تحریر : انجینئر افتخار چودھری