counter easy hit

سرائیکی صوبہ حقائق کیا ہیں۔۔

تحریر: رانا عبدالرب
ذوالفقار علی بھٹو کے دیرینہ رفیق اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر غلام حسین کی طرف سے نومبر 1996ء میں ہمارے ایک قلم کار دوست ایم۔آر ملک کو پاکستان نیشنل کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔یہ کانفرنس فرید پارک لاہور میں ہوئی۔کانفرنس کے روح رواں ایئر مارشل محمد اصغر خان تھے۔کانفرنس میں وطن عزیز کے نامور دانشور، سیاسی شخصیات شریک ہوئیں۔ شرکاء نے تقریر کیں۔

اپنا اپنا مدعہ بیان کیا۔مگر ایک مقرر نے سرائیکی عوام کے غصب کئے جانے والے حقوق کی بات کی ،ان کے استحصال کا ذکر کیا اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے انداز حکمرانی پر بحث کی۔یہ سرائیکی نیشنل پارٹی کے سربراہ عبدالمجید کانجو تھے۔ہمارے دوست کہتے ہیں کہ جب انہوں نے سرائیکی خطہ کے حقوق پر بات کی تو ان کی باتیں سمجھ سے بالا تر لگیں اور میں نے اسے لسانیت کو ہوا دینے والا ایک ایشو سمجھا جبکہ عبدالمجید کانجو کے مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے مرے ذہن سے یہ بات کئی برس تک نہ نکل سکی کہ سرائیکی اور پنجابی کی بات کرنے والے لوگ علاحدہ وطن کے حصول کے بعد بھی زبان کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔اب پبلک مقامات پر بیٹھے ہوئے وہ جب 6کروڑ لوگوں کے استحصال کو دیکھتے ہیں تو14برس قبل لاہور میں مزنگ روڈ پر ہونے والی نیشنل کانفرنس کے مقرر عبدالمجید کانجو کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔

کئی سال قبل تاج لنگاہ جب چوبارہ میں آئے تو مذکورہ قلم کار اور راقم کی بھی ان سے ملاقات ہوئی۔تاج لنگاہ مرحوم نے سرائیکی بیلٹ پر تاریخ کے اس جبر کو واضح کیا جس سے ہماری نئی نسل ناواقف ہے ۔تاج لنگاہ نے ہمیں بتایا کہ جب یونان ،دمشق،سنٹرل ایشیا ء کی ریاستیں،عرب،ایران کے قیصرو کسریٰ تھے تو ملتان اس وقت بھی موجود تھا۔سکندر اعظم جب برصغیر سے گزرا تو ملتان موجود تھا۔محمد بن قاسم کی آمد ہوئی تو ملتان ایک ریاست تھی۔بیرونی حملہ آوروں نے اس ریاست کو تہہ وبالا کردیا مگر سب سے زیادہ نقصان رنجیت سنگھ نے پہنچایا جس نے ملتان کی شناخت کو تاراج کر دیا۔ٹھٹھہ کی حدود سے لے کر گجرات تک ریاست ملتان کی عمل داری تھی ۔رنجیت سنگھ نے 2جون 1818ء کو یہاں کی مذہبی کتابوں کے علاوہ عید گاہ سے خانیوال روڈ پر قلعہ ملتان کے اردگرد40ہزار سپاہ کے ٹھہرنے کی رہائش گاہیں اور بیرکیں تباہ و برباد کیں۔رنجیت سنگھ سے کشمیر ،پشاور،جلال آباد کو وہاں کے باسیوں نے آزاد کرایا،ملتان کی عوام پے در پے حملوں کی وجہ سے تاراج ہوچکے تھے۔ اس بناء پر وہ ملتان کو آزاد نہ کرا سکے۔انگریز سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد نے سب سے زیادہ حصہ سرائیکی خطہ کے لوگوں کا ہے۔

Saraiki People

Saraiki People

اس وقت جب سرائیکی نیشنل ازم کا سوال پبلک مقامات پر زیر بحث ہے اور سرائیکی قوم پرست الگ قومی تشخص کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔سرائیکی نیشنل ازم کا گلا گھونٹنے کے لئے چند ایسی قوتیں متحرک ہیں جن کا یہاں کے عوام کی محرومیوں سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ بہاولپور صوبہ کی بحالی کی آواز نواب زادگان آف ریاست بہاولپور عباسیوں کی طرف سے اٹھنی چاہیے تھی اور یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ یکم اگست1975ء کو جب ریاست بہاولپور کے سربراہ جنرل سر صادق محمد عباسی کے صاحبزادے اور بہاولپور کے چودہویں امیر برگیڈئر محمد عباس عباسی نے بطور گورنرحلف اٹھایا تو اپنی پہلی کانفرنس میں یہ وضاحت کی کہ بہاولپور کا الگ صوبہ بنانے کی تحریک ختم ہوچکی ہے۔جن عوامل کی بناء پر تحریک نے جنم لیا وہ باقی نہیں رہی ۔علاوہ ازیں جب 1955ء میں پاکستان کی چھوٹی قومیتیوں کے علاقوں سندھ،بلوچستان،خیبر پختونخواہ اور بہاولپور کو پنجاب میں ضم کرکے مغرنی پاکستان کے ون یونٹ کانام دیا گیا تو سرائیکی نیشنل ازم نے سرائیکی صوبہ محاذ سے سفر کا آغاز کیا مگر اقتدار میں آنے کے باوجود اور وعدوں کے باوجود 19اضلاع کے 6کروڑ عوام کی آواز کو ابھی تک سیاسی ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا۔

سرائیکی صوبہ کی تحریک سرائیکستان ،سرائیکی صوبہ کی شکل میں بلوغت سے نکل رہی ہے۔سرائیکی نیشنل ازم کا سوال مستقبل میں سیاسی طور پر بھرپور اندازمیں اپنے آپ کو کیسے منواتا ہے اور اپنے الگ قومی تشخص کے لئے جدوجہد کے کن مراحل سے گزرتا ہے یہ تو آنے والا کل ہی بتائے گا مگر یہ بات عیاں ہو چلی ہے کہ ڈاکٹر نخبہ تاج لنگاہ،محترمہ ساجدہ لنگاہ ،عبدالمجید کانجو،خواجہ غلام فرید کوریجہ اور معروف سرائیکی دانشور ظہور دھریجہ ،ڈاکٹر عاشق بزدار، پروفیسر شفقت بزدار ،عبدالقیوم جتوئی اور اللہ نواز سرگانی کی شکل میں سرائیکی نیشنل ازم کی گونج ملک میں ایک عرصہ سے شدت کے ساتھ ہمیں سنائی دے رہی ہے ۔ہم جب تاریخی اور سیاسی عوامل پر غور کرتے ہیں تو ماضی کے آئینے میں سرائیکی وسیب کی سیاسی ،معاشی اور ثقافتی محرومیاں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔محرومیوں کے شکار کی غالب تعداد نوجوان نسل کی ہے ۔جن کی کثرت بے روزگاری بھٹی میں جھلس رہی ہے ۔بے روزگاری کا مسئلہ بھی سرائیکی قوم پرستی کامحور بن چکا ہے۔جوں جوں سرائیکی وسیب کا نچلا اور درمیانہ طبقہ زمین سے آزاد ہو کر ملازمتوں کی تلاش میں شہروں کا رخ کررہا ہے اس کی توقعات ریاست سے اور زیادہ وابستہ اور گہری ہوتی جارہی ہیں۔ماضی میں چونکہ سرائیکی وسیب پر برسراقتدارجاگیردار طبقہ نے صنعتوں کے قیام کے لئے سرمایہ کاری نہیں کی سو اس بناء پر بھی سرائیکی وسیب کے بیروزگار نوجوانوں کا انحصار ریاستی شعبہ پر ہے۔چونکہ ریاست بڑی تعداد میں ملازمتیں فراہم کرنے سے قاصر ہے اور سرائیکی خطہ کو اس کے وسائل کے مطابق اقتدار میں حصہ نہیں مل رہا اس لئے سرائیکی وسیب کے بیروزگاروں کی بے اطمینانی اور اشتعال میں اضافہ فطری عمل ہے ۔6کروڑ عوام اپنی علاحدہ شناخت کے لئے کیوں بے چین ہے؟ یہ سوال اب شدت کے ساتھ اپنا جواب مانگ رہا ہے ۔ماضی کے آمرانہ فیصلوں کے تسلط اورپنجابی بیوروکریسی کے ہتھکنڈوں نے سرائیکی وسیب کے سیاسی اور معاشی قتل پر جبکہ اقتدار اور حاکمانہ روش نے سرائیکی عوام کے اندر نفرت کی خلیج وسیع کردی ہے۔

 Saraiki People Protest

Saraiki People Protest

مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بنا؟ اس سوال کا جواب بھی مغرنی پاکستان سے مشرقی پاکستان پر مسلط ہونے والی بیوروکریسی ہے جس نے اپنے دفاتر کے باہر سنتری بیٹھا دئیے ہیں اور آئین پاکستان میں جن کے لئے پبلک سرونٹ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ حاکم بن کر دفاتر میں بیٹھ گئے اور اپنے دفاترکے باہر وقت ملاقات کی تختیاں آویزاں کردیں۔بنگالی قوم کو یہ بات نا گوار گزری ۔علاوہ ازیں ان درآمدی بیوروکریٹس نے اپنے ظالمانہ رویوں سے بنگالی قوم کے اذہان میں نفرت بھر دی ۔بالآخر اس ناانصافی کی بنا پر 25برس بعد اکثریتی بنگالی آبادی ہم سے علاحدہ ہو گئی یہی وتیرہ اپر پنجاب کے آفیسرز نے سرائیکی وسیب کی عوام کے ساتھ روا رکھا ہے ۔یہ درآمدی بیوروکریسی سرائیکی وسیب کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے ناصرف لوٹنے میں مصروف ہے بلکہ یہاں کی عوام کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح سمجھا جاتا ہے ۔سرائیکی وسیب کے ہیرو اور عظیم صوفی بزرگ خواجہ غلام فرید کوٹ مٹھن کے دربار کی تالہ بندی بھی اسی بیوروکریسی کا کیا دھرا ہے اور یہ سزا صرف سرائیکستان کی شکل میں آواز اٹھانے پر غلام فرید کوریجہ کو دی گئی ۔جب ہم ماضی کے سالانہ بجٹ کودیکھتے ہیں تو سرائیکی وسیب کے ساتھ یہاں بھی ناانصافی کی انتہاء نظر آتی ہے۔

زیادہ آبادی اور وسائل رکھنے والا خطہ 68برسوں سے نظر انداز ہے ۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ 170ارب روپے کے پنجاب کے سالانہ بجٹ میں 6کروڑ عوام کے خطہ کے لئے صرف2.3فی صد یعنی صرف 5ارب رکھے گئے ہیں۔جبکہ صرف لاہور کے فیروز پور روڈ کے لئے 32ارب،رنگ روڈ کے لئے 10ارب مختص کر دئیے جائیں۔وطن عزیز بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے خردنی اجناس کے علاوہ ایسی اجناس پیدا کرنے والا خطہ جن کی بیرونی منڈیوں میں ہمیشہ مانگ رہی اور قیمتی زرعہ مبادلہ حاصل ہوا یہ حیثیت مشرقی پاکستان کی موجودگی میں پٹ سن کو حاصل رہی اور وطن عزیز کی معیشت کا دارو مدار آج کپاس کی فصل پر ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 80فی صدر کپاس سرائیکی خطہ پیدا کرتا ہے جو ایک کروڑ بیس لاکھ گھانٹھ سالانہ ہے۔ساڑھے 8ارب زر مبادلہ صرف کپاس سے حاصل ہوتا ہے۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ خام مال پیدا کرنے والا خطہ (Cotton Based)انڈسٹری سے آج تک محروم ہے ۔زرعی ادارے اور ریسرچ سنٹر ز بھی سرائیکی خطہ میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔زرعی مشینری ،کھاد،ڈیزل،بیج،کیڑے مار ادویات،بجلی و پانی کی قلت اور مہنگائی نے پیداواری لاگت کو آسمان پر پہنچا دیا ہے ۔سرائیکی خطہ کے لوگوں کو فصل کی قیمت بین الاقوامی منڈی کے عشر عشیربھی نہیںملتی۔کیوں کہ حکومت خود کپاس کی تجارت کرتی ہے اور کپاس پیدا کرنے والی قومیتیوں کے عوام کی نمائندگی فیصلہ کی قوت رکھنے والی بیوروکریسی میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔اس لئے حکومت نرخوں کے معاملے میں مٹھی بھر ٹیکسٹائل مافیا سے گٹھ جوڑ کرکے من مانی کرتی ہے ۔اس طرح حکومتی منافع اور زر مبادلہ کے مفادات سے سرائیکی خطہ مکمل طور پر محروم چلا آرہا ہے۔سندھ طاس منصوبہ کے تحت جب وطن عزیز کے تین دریائوں کو بھارت کے ہاتھ فروخت کیا گیا تو اس آمرانہ فیصلہ نے بیوروکریسی کے بنائے ہوئے مضبوط مرکز کا دخل تھا۔ایسا مرکز جس میں بنگالی،سرائیکی،سندھی ،پختون،بلوچ قومیتوں کی کوئی حیثیت کی کوئی شنوائی نہ تھی۔جب سرائیکی بیلٹ کی زمینیں قابل کاشت تھیں تو حکمرانوں کے چہیتے بیوروکریٹس،ان کے رشتہ داروں اور دیگر مراعات یافتہ لوگوں میں وہ زمینیں مال مفت اور دل بے رحم کے مصداق تقسیم کی گئیں۔سرائیکی بیلٹ کے پسماندہ ضلع لیہ کی مثال دینا ضروری ہے جہاں تھل کی آبادکاری کے وقت پانی کے بدلے جو دو تہائی اراضی مقامی لوگوں سے ہتھیائی گئی وہ اراضی ایک معاہدہ کے تحت واپس کرنے کی بجائے لاہور اور اپر پنجاب سے آنے والے اضلاع کے انتظامی آفیسروں نے جعلی کلیموں کے ذریعے منظور نظر اور قریبی عزیزوں کو حق ملکیت کی شکل میں تفویض کردی اور یہ انتظامی آفیسرز خود بھی بڑے بڑے قطعات اراضی کے مالک بن گئے۔

چولستان کی لاکھوں ایکٹر اراضی بھی قابل کاشت بنا کر ان آفیسرز میں بانٹی گئی ۔زرعی معیشت کے علاوہ مدنی و قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود سرائیکی خطہ کے مقامی لوگ و بیروزگار نوجوان لاکھوں کی تعداد میں لاہور، فیصل آباد ،اسلام آباد کی شاہراہوں کی خاک چھانتے ہیں۔دوسرے صوبوں کے علاوہ خلیج کی ریاستوں نے روزگار کے لئے دھکے کھا رہے ہیں۔عرب ممالک نے اس غربت کی بناء پر سرائیکی خطہ کے لوگ اونٹ ریسوںمیں اپنے لخت جگر ایجنٹوں کو بیچ رہے ہیں۔برصغیر پاک و ہند کی حیثیت صدیوں سے ایک کثیر اللسانی ،کثیر الثقافتی اور کثیر اللقومی خطہ کی رہی ہے اور رہے گی 1940ء کی قرار داد پاکستان میں واضح طور پر ریاستوں اور ان حقوق کا ذکر ہے مگر سرائیکی قومیت کو اقلیت میں تبدیل کرکے مکمل غلام بنایا جارہا ہے۔تحریک استقلال کے ایئر مارشل محمد اصغر خان،عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہر القادری کا مؤقف بھی یہی ہے کہ وطن عزیز کوکئی صوبوں میں تبدیل کردیا جائے تاکہ قومتییوں کے اندر پائے جانے والے احساس محرومی کا خاتمہ ہوسکے۔دنیا کے اس وقت 112ممالک کی آباد ی صوبہ پنجاب سے کم ہے ۔کثیر اللقومی ،کثیر اللسانی،کثیر الثقافی پاکستان کا آئین عوام کی مرضی کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے یہ قومی سوال حل طلب ہے ۔اگر انگریزوں کے بنائے ہوئے انتظامی یونٹوں کی خرابی کو دور نہ کیا گیا تو حکومت اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھتے رہیں گے۔طبقات کے درمیان نفرتیںاپنی عروج پر ہیں اس کے باوجود برسراقتدار طبقہ کی صوبوں کی ری آرگنائزیشن کی طرف سے آنکھیں مکمل طورپر بند ہیں۔نہ دیدہ قوتیں اقتدار سے بری طرح چمٹی ہوئی ہیں اور اتنی ہی شدت سے وہ اس آئین کی حفاظت کرہی ہیں۔جس کی وجہ سے ملکی و سیاسی معاملات سے عوام روز بروز دور ہوتے جارہے ہیں۔جبکہ حکومت کے پیرول پر کام کرنے والی کچھ قوتیں سرائیکی صوبہ کے نام پر عوام کو بے وقوف بنانے میں پیش پیش ہیں۔لاکھوں روپے کی فنڈنگ ان کے اکائونٹس میں سرائیکی خطہ سے غداری کی شکل میں منتقل ہورہی ہے۔ضلع لیہ میں ایسے چہرے میڈیا نے بے نقاب کئے ہیں جو ایک طرف تو سرائیکی عوام کے حقوق کی بات کرتے تھے اور دوسری طرف تخت لاہور کے تنخواہ دار تھے۔

Rana Abdulrab

Rana Abdulrab

تحریر: رانا عبدالرب
03456150150
abdulrab.rana@gmail.com