لاہور (ویب ڈیسک) پی ٹی آئی حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر وزیر اعظم عمران خاں کے پہلے سو د ن، پھر پہلے چھ ماہ اور پھر ایک سال کی کارکردگی کا ان کے وعدوں اور اعلانات کی روشنی میں جائزہ لینے سے اب کیا حاصل ہو گا، جو گذر گیا، سو گذر گیا نامور کالم نگار سعید آسی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی اس ایک سال کی کارکردگی کو عوام بدترین مہنگائی اور لاانتہاء ٹیکسوں کی سر پر پڑی افتاد کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے قریبی ساتھی اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر ہی اس معاملے میں اپنی حکومت کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہیں۔ اگر مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر نہ ہوا تو اس طوطی کی آواز پر کان دھرتے ہوئے شائد حکومتی اقتصادی پالیسیوں میں ’’تبدیلی‘‘ کی سمت درست کر لی جائے۔ مجھے تو آج ان تین چار پیغامات کا تذکرہ کرنا ہے جو حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر خود وزیر اعظم عمران خاں اور دوسرے حکومتی حلقوں کے اٹھائے گئے اقدامات کی صورت میں ببانگ دہل قوم تک پہنچائے گئے ہیں۔وزیر اعظم عمران خاں کا دورۂ امریکہ بلاشبہ کامیاب دورہ تھا جس پر وزیر اعظم کی ملک واپسی پر پی ٹی آئی کا جشن منانا بنتا تھا اور اسی سرخوشی میں جیسے سابق جرنیلی آمر مشرف نے عدلیہ بحالی تحریک کے بانی جسٹس افتخار محمد چودھری کا استقبال روکنے کے لیے 12 مئی 2007ء کو کراچی کو خون میں نہلانے کے بعد اسلام آباد میں مُکا لہراتے ہوئے اپنے مخالفین کو باور کرایا تھا کہ ہم سے مت ٹکرانا ورنہ مارے جائو گے۔ عین اسی طرز پر وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت نے اپوزیشن کے 25 جولائی کے یوم سیاہ کا حشر نشر کر دیا اور حکومت مخالف ریلیوں کو روکنے کے لیے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کرنے اور وسیع پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں لانے سمیت دور آمریت والے حشر نشر کی یاد تازہ کرنے والا ہر اقدام اٹھا لیا گیا اور لاہور میں ریلی نکالنے کی پاداش میں اپوزیشن جماعتوں کے 18 سو سے زائد قائدین اور کارکنوں کے خلاف مقدمات بھی درج کر لئے گئے۔بات پھر اِدھر اُدھر ہو جائے گی اس لیے میں قوم کو موصولہ حکومتی تین چار پیغامات کے تذکرے تک ہی خود کو محدود رکھتا ہوں، قوم خود ہی سوچ لے کہ آگے چل کر سلطانیٔ جمہور کا کیا حشر نشر ہونے والا ہے اور ملکی سلامتی کے معاملات کی کیا درگت بننے والی ہے۔ وزیر اعظم عمران خاں نے امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران ان سے کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی استدعا کی اور انہیں یہ بھی دل خوش کن ’’پھونک‘‘ دے دی کہ انہوں نے مسئلہ کشمیر حل کرا دیا تو خطے کے ایک ارب لوگ ا ن کے لیے دعا گو رہیں گے۔ ٹرمپ خوش ہوئے اور ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے بھارت کی مودی سرکار کی آنکھیں جھکانے کے لیے یہ پتہ بھی پھینک دیا کہ دو ہفتے قبل نریندر مودی بھی ان سے ملاقات میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کرانے کی درخواست کر چکے ہیں۔ اس پر آتش فشاں پھٹنے جیسا بھارتی ردعمل ابھی تک ماحول کو کبیدۂ خاطر کئے ہوئے ہے اور خود مودی اتنی دفاعی پوزیشن پر آ گئے ہیں کہ ان کے لیے بھارتی راجیہ سبھا اور لوک سبھا کا سامنا کرنا مشکل ہو گیا ہے مگر ہمارے وزیر اعظم نے امریکی ٹی وی فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے دفاعی پوزیشن پر آئے‘ اسی مودی کو یہ پیشکش کر دی کہ آپ اپنے ایٹمی ہتھیار ترک کر دیں تو ہم بھی ایسا کر لیں گے۔ مودی کے لیے تو یہ پیشکش سونے پر سہاگے کے مترادف ہو گی۔ ابھی تو وہ اپنی اپوزیشن کی چڑھائی کی تاب نہیں لا پا رہے، وہ کچھ سنبھلیں گے تو ہمارے وزیر اعظم کی ایٹمی ہتھیار ترک کرنے کی پیشکش کو فوراً اچک لیں گے کیونکہ یہ ان کے لیے گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں۔خود ہمارے دفاعی ماہرین کو اس حقیقت کا احساس ہے کہ بھارت جنگی ہتھیاروں اور سازو سامان کے حوالے سے ہم سے چھ گنا زیادہ طاقتور ہے۔ ا گر وہ ایٹمی ہتھیار ترک بھی کر دے گا تو ہمارے ایٹمی ہتھیاروں سے محروم ہونے کے بعد ہماری سلامتی پر شب خون مارنا اس کے لیے چنداں مشکل نہیں ہو گا جو اس کی شروع دن کی نیت بھی ہے جبکہ ہمارے تحفظ و بقاء کی ضامن تو صرف ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی ہے۔ اگر ہم اس سے ہی دستبردار ہو گئے تو اپنے موذی دشمن کو اپنی سلامتی کے خلاف اس کے جنونی عزائم کی تکمیل سے کیسے روک پائیں گے۔ اسی حکمت کے تحت ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے مضبوط ہاتھوں میں محفوظ کی گئی ہے چنانچہ آج اسے نقصان پہنچانے کی کوئی امریکی ، بھارتی اور اسرائیلی سازش کامیاب نہیں ہو سکی، سوچنے کی بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خاں نے بھارت کو ایٹمی ہتھیار ترک کرنے کی پیش کش کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کی مشاورت کے بغیر کی ہے تو ان کا یہ پیغام کس کے لیے ہے اور ہمیں اپنی سلامتی کے حوالے سے اس کے کتنے اور کیا نقصانات اٹھانا پڑ سکتے ہیں۔ بھئی ہم تو اس معاملے میں کچھ نہیں بولے گا کہ اس پیشکش سے کس کی جبینِ نیاز پر بل پڑے ہوں گے۔ آپ خود سمجھدار ہیں۔ سوچیں اور نتیجہ نکالیں۔دوسرا پیغام وزیر اعظم کی امریکہ سے ملک واپسی پر ان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دہری شہریت والوں کو انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لینے کی اجازت دینے کی صورت میں جس اہم ریاستی ادارے کو دیا گیا وہ بھی ’’کر لو جو کرنا ہے‘‘ کے مصداق ببانگ دہل پیغام ہے۔ سپریم کورٹ نے پاکستان کی سیاست میں اتھل پتھل کا ایجنڈہ رکھنے والے ڈاکٹر طاہر القادری کو ان کی دہری شہریت کی بنیاد پر ہی انتخابی عمل میں حصہ لینے سے روکا تھا اور اس فیصلے کا لب لباب یہ تھا کہ جو شخص ایک دوسری ریاست کے ساتھ وفادار رہنے کا حلف اٹھا لیتا ہے وہ پاکستان کی شہریت رکھنے کے باوجود اس کا وفادار کیسے رہ سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے متعدد دیگر ارکان اسمبلی کی بھی اس بنیادپر ہی رکنیت منسوخ کی چنانچہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کو پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے کے لیے اپنی برطانوی شہریت ترک کرنا پڑی۔ آئین کی دفعہ 63 سی میں بھی اسی تناظر میں دہری شہریت والوں کو پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے۔ پھر کابینہ نے دہری شہریت والوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی کھلی چھوٹ دے کر اپنے اقتدار کے آنیوالے دنوں کے حوالے سے کیا اور کس کو پیغام دیا ہے؟ سلطانیٔ جمہور کی ایسی کی تیسی۔ غالب کو برا کہتے ہو۔ اچھا نہیں کرتے۔ میرے دماغ میں کیڑے پڑیں اگر میں کوئی برا نتیجہ اخذ کروں۔ اس فیصلے کے ذریعے جنہیں چیلنج کیا گیا ہے وہی جانیں۔ مجھے زیادہ سرپھٹول کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ ’’پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدا کی‘‘۔اور پی ٹی آئی اقتدار کا ایک سال پورا ہونے پر تیسرا پیغام ریاست کے چوتھے ستون میڈیا کو صرف دیا ہی نہیں گیا، اس پر عملدرآمد کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ ایک سال کے عرصہ میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو جس مالی اور اقتصادی بدحالی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ چوروں، لٹیروں، ڈاکوئوں والی جس اصطلاح کی گردان حکومت مخالف سیاستدانوں کے لیے کی گئی ، ویسا ہی تصور قومی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں بھی اجاگر کیا جاتا رہا اور لفافہ صحافی کا الزام لگانا تو ’’پٹواری‘‘ جیسا فیشن بنا دیا گیا۔ ایسے کٹھن حالات میں بھی میڈیا نے آزادی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کا پرچم سربلند رکھنے کی تڑپ پیدا کئے رکھی تو قید و بند کا ڈر اوا دے کر نیب کو اس کے پیچھے چڑھا دیا گیا جس نے میڈیا سے دس سالوں کے حاصل کردہ اشتہاروں کا حساب کتاب طلب کر رکھا ہے۔ میڈیا کے لیے اس پیغام کو مزید بے رحم بنانے کے لیے میڈیا کورٹس کا بھی ڈراوا دے دیا گیا اور پیمرا کو الیکٹرانک میڈیا ہی نہیں ، پرنٹ میڈیا پر بھی سنسر شپ کے لیے غالب کر دیا گیا۔بھئی میڈیا کورٹس تو ابھی باضابطہ طور پر تشکیل بھی نہیں پائیں مگر ان عدالتوں کی جھلک اسلام آباد کی اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے ایک انتہائی معمولی اور قطعی قابل ضمانت جرم میں بزرگ سابق صحافی اور حکومت مخالف مسلم لیگ (ن) کے خیر خواہ و ترجمان عرفان صدیقی کو ضمانت دینے کے بجائے 14 دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھجوانے کی صورت میں دکھا دی گئی ہے اور اس جھلک میں ’’ہور چوپو‘‘ کا مزہ چکھانے کے لیے انہیں ہتھکڑیوں میں باندھ کر عدالت کے روبرو پیش کرنا بھی ضروری سمجھا گیا۔ یہ پیغام تو حق بحق دار رسید کے مصداق متعلقین کو پہنچ گیا مگر اس کے بعد عرفان صدیقی کی گرفتاری اور انہیں ہتھکڑیوں میں پیش کرنے پر خود وزیراعظم عمران خاں اور پھر ان کی کابینہ کے ارکان بریگیڈئر اعجازشاہ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور مزید براں وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کے اظہار تشویش اور غالباً اسی کی بنیاد پر اتوار کے روز اسی اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے عرفان صدیقی کی ضمانت پر رہائی والے مراحل میں کس کس کا پیغام کس کس کے لیے تھا۔ متعلقین کو اس کی بھی آگاہی ہونی چاہیے۔ میں جان کی امان پاتے ہوئے صرف اتنا ہی عرض کروں گا کہ …ع۔۔۔اتنا بے سمت نہ چل ، لوٹ کے گھر جانا ہے۔