تحریر: چوہدری غلام غوث
دنیا کی پہلی 100 عظیم شخصیات کتاب لکھنے والے غیر مسلم مصنف نے نبی آخر الزماں حضرت محمدۖ کو پہلے نمبر پر رکھا اور اس کے پس منظر میں اس نے ایک واقعہ بطور دلیل پیش کیا ،اس نے تحریر کیا کہ ایک مرتبہ نبی اکرم ۖ اپنے صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے کہ اس دوران ایک صحابی خدمت میں حاضر ہوئے گھبرائے ہوئے تھے پوچھنے پر عرض کی یارسول اللہ میرا بیٹا صبح سے گُم ہے مجھ سمیت تمام عزیز و اقارب ڈھونڈ رہے ہیں مگر تاحال مل نہیں سکا آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کہ دعا فرمائیں میرا بیٹا مجھے مل جائے ابھی یہ صحابی بات مکمل کر پائے تھے کہ اس دوران ایک دوسرے صحابی آ گئے جنہوں نے ساری بات سُن لی عرض کیا یارسول اللہ میں نے اپنے اس بھائی کے بیٹے کو فلاں قریشی سردار کے باغ میں بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا ہے ،اس بات کا سننا تھا تو وہ صحابی جن کا بچہ گُم تھا سر پٹ دوڑنے لگے ،میرے آقا نے روک دیا اور اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ اگر ایک باپ کا بیٹا صبح سے گُم ہو اور شام کو اس کی بازیابی کی اطلاع مل جائے تو شفقت پدری کا تقاضہ ہے کہ اس کا ردعمل آپ جیسا ہی ہونا چاہیے مگر میری بات غور سے سنو جب باغ میں جائو تو بچے کھیل رہے ہوں گے تو اپنے بچے کو بیٹا کہہ کر مت بُلانا بلکہ اس کا نام لے کر پُکارنا صحابی نے عرض کی یا رسول اللہ میرا بیٹا ہی تو ہے فرمایا بالکل درست مگر بیٹا ایک عام بولا جانے والا مشترک لفط ہے ہو سکتا ہے ان بچوں میں کوئی یتیم بچہ کھیل رہاہواور اس کے دل میں خیال آجائے کہ آج میر ا والد بھی زندہ ہوتا تو مجھے بیٹا کہہ کر بُلاتا اور یہ بات اس کا دل رنجیدہ کر دے اور اس کے جذبات ٹھیس پہنچے ، مصنف لکھتا ہے کہ جو نبی یتیموں کے جذبات کا اس قدرخیال رکھتا ہو
اس کو دنیا میں پہلے نمبر پر نہ رکھوں یہ انصاف کے تقاضوں کے منافی ہو گا۔اس عظیم المرتبت نبی کے پیرو کار اور امتی عبدالستار ایدھی نے اس واقعہ کے عین مطابق خود کو یتیم بچوں کیلئے وقف کر دیا وہ بچے جن کو لوگ نام دینے سے بھی گریزاں ہوتے ہیں اور کوڑے کے ڈھیروں پر پھینک جاتے ہیں ان کو بھی ایدھی نے بطور انسان اپنی کفالت میں لے کر پال پوس کو معاشرے کا کار آمد شہری بنانے کا ذمہ اپنے سر لیا یتیم بچوں کے خود والد ان کی بیوی والدہ اُن کے بیٹے بھائی اور بیٹی بہنیں بن کر اس کو ایک خاندان کافر د بنا دیتے اور اسے پر یتیمی اور محرومی کا سایہ بھی نہ پڑنے دیتے اس حد تک یتیموں کے جذبات کا خیال رکھتے ۔
قارئین کرام!خدمت کا جذبہ لے کر انسانیت کیلئے کام کرنے کا عزم دنیا کی کسی ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا اس کیلئے معاشیات دان ہونا ،ٹیکنیکل مہارت ہونا ،آفات و بلیات سے نبٹنے کے ڈپلومے ہونا ، اعلی معیار کی ذہانت عہدوں کی محتاجی اور مال و جائیداد کے انبار درکار نہیں ہوتے ،بلکہ خلوص نیت اور جذبہ خدمت انسانیت واحد ہتھیار اور ڈگریاں ہیں جن کے سامنے زمانے کی ساری ڈگریاں عاجز کھڑی نظر آتی ہیں اس کی عملی اور قطعی مثال عبدالستار ایدھی کی شخصیت ہے ،ایک ایسا فقیر بادشاہ جو عجزو انکساری کا پیکر سادگی کی معراج خدمت انسانیت کا سر خیل ،شریف النفس ،حلیم طبع ایک ایسا باعمل عظیم انسان تھا کہ جس کے سفر آخرت نے ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا جسطرح مسلح افواج کے چاک و چوبند دستوں نے آرمی چیف کے حکم پر اس کے جسد خاکی کو گارڈ آف آنر پیش کیا اور سلامی دی مجھے قوی یقین ہے کہ اللہ تعالی کے حکم پر فرشتوں کے چاک و چوبند دستوں نے بھی اس درویش اور فقیر بادشاہ کو انسانیت کی خدمت کے اعتراف میں گارڈ آف آنر پیش کیا ہو گا۔
کیونکہ انسانیت کی خدمت ہی اسکی اصل معراج ہے ،جسطرح مسلح افوج ہر بُرے وقت میں اپنے پاکستانی بھائیوںکی خدمت کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں اسطرح ایدھی بھی ہمیشہ دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے صف اول میں کھڑے نظر آئے شاید مسلح افواج اور ایدھی کے مابین یہ قدر مشترک تھی جس کا اعتراف بر ملا کیا گیا۔
راقم نے 80 کی دہائی میں جب کالج میں پڑتا تھا عبدالستار ایدھی کو انجئیر نگ یونیورسٹی کے کینسر کے طالب علم کے بیرون ملک علاج کیلئے مال روڈ پر جھولی اٹھا کر بھیک مانگتے دیکھا تھا جبکہ دو عشرے قبل گھرکی ٹرسٹ ہسپتال لاہور کے سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر ان سے میری ملاقات ہوئی اور چند لمحات ان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملااس موقع پر کی گئی ان کی تقریر کے وہ الفاظ آج بھی میرے ذہن میں دستک دیتے ہیں فرمایا میں پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ کہ وہ صرف ایدھی کو ایک روپیہ ما ہا نہ دیں اور ایمانداری سے فرض سمجھ کر دیں تو یہ 16کروڑ روپے ماہانہ بنتے ہیں تو اس سے میں اپنے ملک کو ویلفیر سٹیٹ بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکتا ہوں سادگی کے پیکر ایک نفیس انسان کا کہا گیا ایک ایک لفظ ہیرا اور موتی تھا مگر ہم ایک ایسی بد نصیب قوم ہیں کہ ہم کسی بھی شخصیت کی قدرو قیمت کا ندازہ یا اعتراف اس کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد لگانے کے عادی ہو چکے ہیں۔
دنیا کو کوئی بھی ایوراڈ ایدھی کی خدمات کا عوض نہیں ہوسکتا بے شک ایسی شخصیات دنیاوی ایوارڈ سے بالا تر ہوتی ہیںان کے عظیم مشن کو جاری رکھنے کا عزم ہی شاید ایدھی کیلئے سب سے بڑا اعزاز ہو گا اور قبر میں بھی وہ اس اعزاز کے ملنے پرٹھنڈک محسوس کریں گے اللہ تعالی بلقیس ایدھی اور فیصل ایدھی کو ان کے عظیم مشن پر کاربند رہنے کی توفیق بخشے (آمین)اور اس پر کامل استقامت عطا فرمائے وفاقی حکومت سمیت چاروں صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ہر سال 8جولائی کو 100یتیم اور بے سہارا بچیوں کی سرکاری اخراجات پر سادگی کے ساتھ اجتماعی شادیاں کر کے عبدالستار ایدھی کو خراج عقیدت پیش کرنے کی پالیسی بنا کر عملی جامہ پہنائیں اور پورے ملک میں ایدھی ڈے منایا جائے اور اسلام آباد انٹر نیشنل ائیر پورٹ کو عبدالستار ایدھی کے نام سے منسوب کر دیاجائے ،تاکہ پاکستان کی ممتاز سماجی شخصیت تا دیر لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے۔جبکہ اس کے علاوہ سماجی شعبوں میں خدمت کرنے والے پاکستانیوں کیلئے عبدالستار ایدھی خدمت ایوارڈ کا اجراکیا جائے
ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ ایدھی میں پائے جانے والے اوصاف میں سے صرف ان کی سادگی سے زندگی گزارنے والا وصف ہی اختیار کریں تاکہ حکمرانوں کے طرز حکمرانی میں سادگی آ جائے جس پر کسی بھی قسم کے اضافی بجٹ کی بھی ضرورت نہیں بلکہ یہ وصف جب آہستہ آہستہ حکمرانوں سے قوم میں منتقل ہو گا تو معاشرے کا طرز زندگی بدلے گا لوگ خوشحال ہو نگے جس سے ملک خوشحال ہو گا یہی ایدھی کا اصل پیغام ہے۔
تحریر: چوہدری غلام غوث