تحریر : راجہ جاوید
زندگی کی کہانی کسی نے کیا خوب کہی ہے تاک صفیں چار تکبیریں اور فاتحہ کس نے کیسی ہی کیوں نہ گزاری ہو، خاتمہ یہی ہوتا ہے اور خوش نصیب ہیں وہ جن کو یہ بھی نصیب ہوتا ہے، ورنہ اس زمانے میں زندگی مزید بے ثبات ہو گئی ہے، لوگوں کے پاس کرنے کو کچھ نہیں مگر مصروف زیادہ ہو گئے ہیں، کسی کے لئے دعائے مغفرت کو بھی وقت نہیں نکال سکتے۔ مگر کیا مقدر والے ہیں وہ لوگ، جوانیوں کے ہاتھوں میں جان دینتے ہیں ہزاروںمحبت کرنے والوں کے جلو میں قبر تک پہنچائے جاتے ہیں اور صدقہ جاریہ کی مصداق نیک اور صالحہ اولاد جانے کے بعد بھی ایصال ثواب کیلئے اہتمام کرتی ہے موت ایسی آفاتی سچائی ہے جس سے کسی کو انکار نہیں اور اس سے کوئی راہ فرار بھی نہیں کچھ لوگوں کی موت دیکھنے والوں کیلئے باعث عبرت ہوتی ہے تو کچھ کی موت قابل رشک بھی ایسی ہی ایک شخصیت گزشتہ دونوں عازم فردوس ہوئی جس کی زندگی تو محنت اور محبت سے بھر پور تھی ہی موت نے بھی دکھادیا کہ مرنے والے میں کچھ وصف فرور ایسے تھے کہ ہزاروں لوگ جنازے کیلئے آئے تھے۔ اور ہر ایک اس صدمے کو ذاتی صدمہ ہی سمجھ رہا تھا جی ہاں یہ اسلام آباد کے مضافاتی قصبے ترلائی کلاں کی ایک مشہور سماجی سیاسی اور کاروباری شخصیت محترم الحاج عبدالقادر بٹ تھے، جن کی زندگی زندہ دلی اور کشادہ ظرفی کا ایک نمونہ تھی تو موت ہزاروں دلوں میں غم و اندوہ کے سائے چھوڑنی والی۔
مگر انہوں نے جس طرح مصروف اور مسرور زندگی گزاری اسی طرح مطمئن اور سرخرو ہو کر رخصت بھی ہوئے ”انا للہ و انا الیہ راجعون” الحاج عبدالقادر بٹ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایک معزز کشمیری بٹ فیملی سے تعلق رکھتے تھے مگر قیام پاکستان کے وقت ان کا خاندان راولپنڈی کے مشہور قصبے ترلائی کلاں میں آباد ہو گیا۔ ترلائی بنیادی طور پر تھتھال راجپوت کی اکثریت کا گائوں تھا اگرچہ چند گھر سادات کے بھی تھے مگر بٹ برادری کا صرف ایک ہی گھرانہ تھا الحاج عبدالقادر بٹ کے آبائو اجداد نے یہاں کچھ زمین خریدی اور زمینداری کرنے لگے جب اسلام آباد نام سے ملک کا دارلخلافہ آباد ہونے لگا تو مقامی لوگوں کیلئے روز گار کاروبار کے کئی مواقع بھی میسر آئے، عبدالقادر بٹ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور تعمیراتی سامان کی سپلائی کا کام شروع کر دیا۔
اس طرح ان کی محنت کے نتیجے میں گھر کے حالات دن بدن بدلنے لگے اور ترلائی کے بڑے زمیندار چوہدریوں کے درمیان عبدالقادر بٹ نے اپنی نہ صرف شناخت بنائی بلکہ علاقے میں ان کا نام عزت و تکریم سے جانا جانے لگا۔ انہوں نے دیانت اور امانت داری کو اپنا زاد راہ بنایا اور اسی وجہ سے پراپرٹی اور ٹائون پلاننگ جیسے کام میں بھی ان کا نام اعتماد کی علامت سمجھا جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا فضل و کرم دراز کیا اور جب وسائل بڑھے تو انہوں نے اللہ کے بندوں کی خدمت کرنے اور راہ خدا میں دینے میں کبھی حساب کتاب نہیں رکھا، جو کوئی ضرورت مند ان کے پاس گیا، مایوس نہیں لوٹا اور بہت سے خاندان ایسے تھے۔ جن کی خاموشی سے ضروریات پوری کرتے یہ سلسلہ انہوں نے اپنی زندگی میں جاری رکھا اور ساتھ اپنی فرمانبردار اولاد کو بھی یہ تربیت دے گئے کہ ان سے امید رکھنے والوں کی امیدیں پوری ہوتی رہیں گی۔
یہ الحاج عبدالقادر کی نیک نامی اور سماجی خدمات کا اعتراف تھا کہ 1992کے بلدیاتی انتخابات میں یونین کونسل ترلائی سے بلا مقابلہ کسان کونسلر منتخب ہوئے ان کی ایک طویل عرصہ اسلام کی معروف سیاسی شخصیت حاجی نواز کھوکھر کے ساتھ سیاسی وابستگی رہی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ جب تک حاجی نواز کھوکھر اور ان کا خاندان سیاست میں رہا حاجی عبدالقادر بٹ ان کے ساتھ رہے مگر جب کھوکھر برادران نے سیاست ہی چھوڑ دی تو پھر تعلق صرف سماجی سطح تک ہی رہ گیا۔ جو مرتے دم تک قائم رہا ویسے بھی الحاج عبدالقادر بٹ نے جس کسی کے ساتھ ایک بار تعلق بنا لیا وہ از خود ختم نہیں کیا اور زندگی کے ہرموڑ پر وہ اپنے احباب کے دکھ درد میں شریک رہے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کے حلقہ احباب میں کسی پر مشکل وقت آیا ہو اور وہ خبر گیری کے لئے نہ پہنچے ہوں یہی وصف ان کی ہر دلعزیزی کا باعث بھی تھا ان کو اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسے اوصاف عطا کیے تھے جو دوسروں پر ان کو فوقیت دیتے تھے۔ چونکہ وہ ایک پر خلوص شخص تھے اس لیے کسی بات پر دوسروں کو قائل کر لیتے تھے بالخصوص کسی وجہ سے ناراض خاندانوں میں راجہ نامے کرانے میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا ان کی نیک نیتی کے ساتھ کی گئی کوششوں سے سینکڑوں جھگڑے ختم ہوئے اور ہزاروں ناراضگیاں دور ہوئیں، یقیناً یہ بھی الحاج عبدالقادربٹ کیلئے توشہ آخرت اور سامان بخشش ہو گا کہ دو مسلمانوں میں دشمنی ختم کرانا بہت بڑی نیکی ہے مگر یہ ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا اورموجودہ زمانے میں زیادہ ”معززین” جھگڑوں کو ہوا دینے والے ہیں۔
سماجی سطح پر خدمات اور ضرورت مندوں کی امداد کے ساتھ ساتھ عبدالقادر بٹ دینی معاملات، مساجد کی تعمیر اور بالخصوص دینی محافل کے انعقاد میں کھلے دل کے ساتھ خرچ کرتے اس راقم کے ایک عزیز نے الحاج عبدالقادر کے ہمراہ سفر حج کیا تھا وہ اکثر بتاتے کہ ارض مقدسہ میں عبدالقادر بٹ کی شخصیت بالکل بدل گئی وہ نہ صرف اپنے ہمراہ ہی حجاج کی ہر خدمت میں پیش پیش ہوتے بلکہ مشترکہ اخراجات میں بھی کوشش کر کے اپنے حصے سے زیادہ خرچ کرتے، یہاں بھی ہر سال عید میلاد النبی ۖ کے موقع پر ہر سال اپنے گھر اور پلازے کے ساتھ پوری مارکیٹ میں نہایت خوبصورتی آرائش اور قمقموں اور چراغاں کرتے کہ دیکھنے والوں کے دل بھی جذبہ عشق رسولۖ سے معمور ہو جاتے انہوں نے سجاوٹ کا جو کام شروع کیا وہ نہ صرف پورے ترلائی بازار میں پھیل گیا۔ بلکہ قریبی علاقے بھی اس رونق افروزی میں رنگ کیے ہیں چونکہ اظہار محبت کا یہ سلسلہ الحاج عبدالقادر بٹ نے شروع کیا تھا۔ اور بلا شبہ عبد میلاد کا جشن تا قیامت جاری رہے گا۔ اور ہمارا یقین ہے کہ یہ صدقہ جاریہ ہی ان کیلئے قبر میں چراغ نور بنے گا۔ ان کی سجائی گئی محافل میلاد کا سلسلہ بھی ایسا نہیں کہ ختم ہو جائے اور اس مساعی جمیلہ کی سو غات بھی ان کیلئے جنت کا سامان بنے گی اللہ تعالیٰ اپنے پیارے محبوب ۖ سے محبت کرنے اور اس کا بر ملا اظہار کرنے والوں پر خصوصی رحمتیں نازل فرماتا اور الحاج عبدالقادر بٹ نے خود کو ان رحمتوں کا مستحق ثابت کیا ہے۔
الحاج عبدالقادر بٹ کے بیٹوں حاجی محمد بشیر، محمد خورشید بٹ، محمد ظہیر بٹ اور جو زندگی کے مختلف شعبوں میں ہونے کے باوجود اخلاق و عادات میں اپنے عظیم باپ کی تفسیر ہیں انہوں نے اپنے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اورکاروبار میں بھی دیانت اور ایمانداری پر عمل کرنے کا سبق پڑھایا یہی وجہ ہے کہ ان کی اولاد نہ صرف والد کیلئے بلکہ خاندان کیلئے فخر کا باعث ہے امید ہے کہ وہ عبدالقادر بٹ کی طرح اپنی ذاتی ضروریات کے ساتھ ان مستحق خاندانوں کی بھی کفالت جاری رکھیں گے۔ جن کی حاجی صاحب اپنی زندگی میں کرتے رہے اور سماجی و دینی خدمات کا سلسلہ بھی جاری رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ حاجی عبدالقادر بٹ کو اپنی خاص رحمتوں کے سائے میں رکھے اور ان کی اولاد کو صدقہ جاری بنائے۔ آمین
تحریر : راجہ جاوید