قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس بہت دلچسپ رہا، ارکان نے حلف اٹھایا، مسکراہٹوں کے تبادلے ہوئے، مصافحے اور معانقے کئے گئے، اور اہل وطن نے بہت سے ایسے مناظر بھی دیکھے جو کم کم ہی نظر آتے ہیں، عمران خان نے آصف علی زرداری سے مصافحہ کیا اس تصویر میں عمران خان سنجیدہ نظر آرہے ہیں جبکہ زرداری کے چہرے پر بھرپور مسکراہٹ ہے، دوسری تصویر میں عمران خان اور شہباز شریف بھی مصافحہ کرتے نظر آتے ہیں، یہاں عمران خان کے چہرے پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ کھیل رہی ہے، اور شہباز شریف قدرے سنجیدہ ہیں، کوئی ایسا منظر دیکھنے کو نہیں ملا کہ عمران خان نے خواجہ آصف سے ہاتھ ملایا ہو، جب خواجہ آصف اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم سے عمر بھر کے لئے نا اہل ہوئے تھے تو تحریک انصاف نے بڑا جشن منایا تھا، عمران خان کی خوشی بھی چھپائے نہیں چھپتی تھی کیونکہ اس سے پہلے خواجہ آصف سپریم کورٹ تک اپنے مؤقف کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن ان کے مد مقابل نے اقامے کا مقدمہ دوبارہ دائر کردیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے انہیں تاحیات نا اہل کرانے میں کامیاب رہے، لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی، خواجہ آصف کو الیکشن لڑنے کی اجازت بھی ملی اور وہ اپنے سابقہ حریف عثمان ڈار کو ہرانے میں کامیاب بھی رہے، یہ خواجہ آصف بھی ایوان میں موجود تھے اور عمران خان کے ساتھ ان کی نظریں چار نہیں ہوئیں ورنہ شاید یہ مصافحہ ہو ہی جاتا، کیونکہ خواجہ کا ’’جرم‘‘ آصف زرداری اور شہباز شریف کے مقابلے میں تو کم ہی ہے، اب سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کا مرحل درپیش ہے، ووٹنگ 15 اگست کو ہوگی تحریک انصاف اور اتحادیوں کے امیدوار اسد قیصر ہیں جو پانچ سال تک کے پی کے اسمبلی کے سپیکر رہے، ان کے مد مقابل خورشید شاہ ہیں جو پانچ سال تک قائدِ حزبِ اختلاف کے منصب پر فائز رہے، آٹھ حلقے خالی قرار پانے کے بعد پارٹی پوزیشن میں تبدیلی آگئی ہے، تحریک انصاف نے پانچ نشستیں خالی کی ہیں، مسلم لیگ (ق) دو نشستوں سے دستبردار ہوئی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) نے ایک نشست خالی کی ہے، اس طرح اب این اے 35، این اے 53، این اے 63، این اے 65، این اے 69، این اے 124، این اے 131 اور این اے 243 کی نشستیں خالی قرار دی گئی ہیں۔ یہ نشستیں عمران خان، غلام سرور خان، چودھری پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز شریف نے خالی کی ہیں، اب ایوان میں پارٹی پوزیشن بدلنے کے بعد کچھ یوں ہے، تحریک انصاف 153، مسلم لیگ (ن) 81 اور مسلم لیگ (ق) 3، باقی جماعتوں کی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آیا۔تحریک انصاف کے اپنے ارکان تو 153 ہیں لیکن پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے اتحادیوں میں ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق، بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی مسلم لیگ شامل ہیں ان سب پارٹیوں کے ووٹ ملا کر 183 ہوجاتے ہیں جو اگر سب کے سب تحریک انصاف کو مل جائیں تو اس کا سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیراعظم آسانی سے منتخب ہوجاتے ہیں، لیکن وزیراعظم کے انتخاب کے برعکس سپیکر کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہوگا، ہر رکن اسمبلی بیلٹ پیپرز پر خفیہ طریقے سے نشان لگائے گا اگر اس موقع پر چند ووٹروں کے دل کی حالت بدل جائے اور وہ یہ سوچ لیں کہ وزیراعظم کو ووٹ تو ڈویژن کی بنیاد پر دینا ہوگا اس لئے وہاں تو راز داری نہیں رہ سکتی کیوں نہ سپیکر کے انتخاب میں راز داری کا فائدہ اٹھا کر خورشید شاہ کو کامیاب کرادیا جائے لیکن ایسا اسی صورت میں ہوگا جب متحدہ اپوزیشن کی جماعتیں اپنے 150 ووٹ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے اتحادیوں میں بھی نقب لگائیں اور اپ سیٹ کردیں،الیکشن میں اپ سیٹ کوئی غیر معمولی بات نہیں، آپ کو 85ء میں لے جاتے ہیں جب غیر جماعتی انتخابات ہوئے تھے اور بہت سی جماعتوں نے ان کا بائیکاٹ کیا تھا، اس غیر جماعتی اسمبلی کے سپیکر کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو جنرل ضیاء الحق نے اپنا امیدوار خواجہ محمد صفدر کو بنایا جو ان کی نامزد مجلسِ شوریٰ کے بھی سپیکر رہ چکے تھے ان کے مد مقابل فخر امام الیکشن لڑر ہے تھے، اصولاً تو سپیکر کا انتخاب خواجہ صفدر کو جیت جانا چاہئے تھا کیونکہ ایک تو وہ خود سینئر سیاستدان تھے ان کا ایک مقام و مرتبہ تھا، پھر صدر ضیاء الحق کی بھی یہی خواہش تھی لیکن فخر امام نے ان کو ہرا دیا جس پر جنرل ضیاء الحق خاصے سیخ پا ہوئے لیکن کیا ہوسکتا تھا۔ تاہم سپیکر کے انتخابات کے بعد ان کے نامزد کردہ وزیراعظم محمد خان جونیجو جیت گئے، اس وقت اسمبلی غیر جماعتی تھی لیکن اسمبلی کے موڈ کا اچھی طرح اندازہ نہ کرسکنے کی وجہ سے سرکاری امیدوار کو شکست ہوگئی، موجودہ اسمبلی جماعتی ہے لیکن سب سے بڑی جماعت کے پاس اپنی اکثریت نہیں اور وہ دوسروں کے تعاون کی محتاج ہے، اتحادیوں کے تعاون کے لئے جہانگیر ترین نے بڑی محنت کی ہے اور وہ اپنے جہاز کے پھیروں کے حوالے سے خود کہتے ہیں کہ حرکت میں برکت ہے، انہوں نے بہت سی سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل کرنے میں تو کامیابی حاصل کرلی ہے لیکن یہ ساری دوڑ دھوپ تو وزیراعظم کے انتخاب کے لئے ہے سوال یہ ہے کہ کیا جہانگیر ترین ساری اتحادی جماعتوں سے وعدہ لے رہے ہیں کہ وہ وزیراعظم کے انتخاب سے پہلے سپیکر کے انتخاب میں بھی اس یکجہتی کا مظاہرہ کریں گی۔ خورشید شاہ اور اپوزیشن جماعتیں 85 کی مثال کو سامنے رکھ کر انتخاب لڑیں تو پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے، اسی لئے جب تک سپیکر کا انتخاب ہو نہیں جاتا دلوں کی دھڑکنیں تیز رہیں گی کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے۔