اس کے چہرے پربلاکی تکلیف تھی۔وہ پاکستان کی مشہور ماڈل اورکامیابی کی سندخاموشی سے کرسی پربیٹھی باتیں کررہی تھیں۔ذاتی زندگی کے متعلق ایسے منفی انکشافات جوبہت بہادرانسان کرسکتے ہیں۔ بنیادی طورپروہ ایک دلیر لڑکی ہے۔بچپن سے ہی سیلانی طبیعت کی مالک۔ یہ لڑکی عین جوانی ہی میں فیشن انڈسٹری میں آچکی تھی۔ماڈل کے طورپر اپنے شعبہ میں شاندار کامیابیاں حاصل کرلی تھیں۔چھوٹی سی عمر میں دومرتبہ لکس ایوارڈحاصل کرچکی تھی۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں فین اس کے اشارہِ ابروکا انتظار کرتے تھے۔ جس بیگ کووہ خریدتی تھی، نوجوان لڑکیوں کی اکثریت دیکھتے ہی دیکھتے وہی خریدنا شروع کردیتی تھی۔جس برانڈکے اشتہار میں ماڈلنگ کرتی تھی، اس کی فروخت حددرجہ بڑھ جاتی تھی۔
پیسہ،شہرت اور خوبصورتی کی بہتات اس کے سامنے دم بھرتے تھے۔ ذاتی دوستوں کی فہرت بھی طویل تھی۔کبھی ملایشیاء میں فوٹو شوٹ توکبھی لندن کے مشہورمقامات پر ماڈلنگ۔ جوانی ہی میں کامیاب ہوچکی تھی۔ اس کی شادی،شوبز سے منسلک ہی ایک نوجوان سے ہوئی تھی۔دونوں کی پسندکی شادی تھی۔تقریبات میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ہراخبارمیں شادی کی تصاویرنمایاں اندازمیں شایع ہوئیں۔خوش قسمتی اس جوڑے کی دہلیزکی باندی سی تھی۔مگردونوں کا مقدر بے حد تنزلی کاشکارہونے والاتھا۔ایک ایسی تاریکی،جسکا تصور کرنا بھی محال ہے۔
شادی سے قبل ہی لڑکی کواندازہ تھاکہ اس کا شوہر سگریٹ میں ملاکر کچھ پیتاہے۔اس کے لیے یہ ملاوٹ عجیب سی تھی۔وہ سگریٹ پینے کے بعدایک حیرت انگیزسی بلندی پر چلاجاتاتھا۔کسی پُرسکون وادی کی سیرپر۔ یا پرندوں کے ساتھ اُڑان کی مہم پر۔نوجوان لڑکی کویہ ضرورپتہ تھا کہ یہ سگریٹ عام نہیں ہے۔یہ کوئی خاص غذا ہے جواپنے اندرطاقتِ رکھتی ہے۔خیرشادی کے بعد جب مستقل طورپروہ شوہر کے ساتھ منتقل ہوئی تواسے بھی شوق چڑھاکہ سگریٹ میں سفید پاؤڈر ملا کرپیے۔پاؤڈر گھر میں ہروقت موجود رہتا تھا۔
ہرہفتہ ایک نامعلوم شخص مقررہ وقت پر آتا تھا۔ شوہر کومطلوبہ چیز دیتا اور پیسے لے کرغائب ہوجاتاتھا۔ لڑکی کی نظرمیں منشیات فروش ایک سایہ ساتھا۔ ایک دن خاوندنے اپنے لیے سگریٹ بنایاتولڑکی نے دوسگریٹ بنانے کے لیے کہا۔سگریٹ کے کش لیتے ہی وہ بھی خلامیں پہنچ گئی۔سکون اورمزے میں آگئی۔ یہ سگریٹ اسے اَزحد پسند آیا۔
ایک ہفتہ تک روز سگریٹ پینے سے کیف ساطاری ہوگیا۔اگلے ہفتے شوہر کسی کام سے شہر سے باہرگیا۔تقریباًدو ہفتے کے لیے۔ایک دن بعدگھرمیں سفید پاؤڈرختم ہوگیا۔ پورا دن نشہ نہ ملنے پراسے لگاکہ مرنے والی ہے۔اس کیفیت میںاس نے نامعلو م فون کیا۔ ایک گھنٹہ میں سامان گھرپہنچ گیا۔ مگر قیمت بڑھ چکی تھی۔پولیس کے بھتے کی وجہ پاؤڈرکی قیمت دوگنی ہوچکی تھی۔ مگر خوشحالی کے سامنے مہنگائی بے معنی تھی۔فوری طور پرادائیگی ہو گئی۔
صرف ایک سگریٹ پینے سے وہ بالکل ٹھیک ہوگئی۔اس وقت اسے اندازہ ہوا کہ اس کی عادی ہوچکی ہے۔ یہ کوئی معمولی چیزنہیں تھی۔ دراصل یہ ہیرؤئن تھی جواب اس کی جسمانی ضرورت بن گئی تھی۔شوہر کے واپس آنے تک وہ گھرمیں ہی مقیدرہی۔شوہرکی واپسی ہوئی تودونوں ہیرؤئن کے اسیرہوچکے تھے۔اب یہ جوڑاسارادن ہیرؤئن پیتا تھا۔انکاکام بھی متاثر ہونے لگا۔پہلے فوٹوشوٹ پروقت پرپہنچتے تھے۔تندہی سے کام کرتے تھے۔اب ہرچیزاُلٹی ہوگئی۔جوڑاکئی کئی دن گھر میں رہتا تھا۔
معاہدہ کرنے کے باوجود لڑکی اب شوٹنگ پرکئی کئی گھنٹے تاخیرسے پہنچتی تھی۔ شوبزمیں فوری طورپرسب کوعلم ہوگیاکہ وہ اب “پاؤڈری”بن چکے ہیں۔ مقدر یکسرتبدیل ہوگیا۔ جو لوگ ہروقت اردگرد موجود رہتے تھے،فوری طورپر غائب ہوگئے۔جہاں بھی وہ جاتی تھی، دوست ان کے متعلق منفی باتیں کرتے تھے۔ مذاق اُڑاتے تھے۔ دونوں کوکام ملنابھی بند ہو چکا تھا۔قسمت کی سنہری دیوی ان کے حصارسے باہرنکل چکی تھی۔اسی مشکل میں بہت وقت گزر گیا۔
وہ ایک باہمت لڑکی تھی۔سمجھ گئی کہ موت کے راستے پرتیزی سے دوڑرہی ہے۔فیصلہ کیاکہ علاج کروائے گی۔ دونوں نے علاج کے لیے ایک پرائیویٹ کلینک میں داخلہ لے لیا۔دوہفتے کے علاج نے ہیروئن سے نجات دلوادی۔ کئی ہفتہ شمالی علاقوں میں رہنے کے بعداب اس قابل ہوچکے تھے کہ نارمل رہ سکیں۔کراچی جانا اوروہاں رہنا ان کے لیے کافی مشکل تھا۔چنانچہ دونوں لاہور میں رہنے کا فیصلہ کیا۔
پانچ برس پہلے یعنی2012ء میں اس لڑکی نے زندگی کی قیامت خیزمشکلات ایک خاتون اخبارنویس سے شیئر کیں۔یہ معمولی بات نہیں تھی۔صرف اورصرف جرات رکھنے والے لوگ ہی اپنی زندگی کے تاریک گوشوں کوعوام کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔بزدل لوگ توپیداہی گلے شکوے اورشکایتیں کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔موت سے لڑنے کے بجائے اسے مقدر سمجھ لیتے ہیں۔اس لڑکی نے جس بہادرانہ طریقے سے خوفناک بلاکواسیرکیا،وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے۔
یہ کہانی لکھنے کی وجہ بہت خاص ہے۔ہروقت ملک میں مختلف مصائب کامرثیہ پڑھتے رہتے ہیں۔ امریکا،روس،چین،سعودی عرب سے تعلقات کے ہردم مناظرے کرتے نظرآتے ہیں۔مگرمنشیات کے خلاف اس درجہ توانائی کی مہم نظرنہیں آتی،جسکی اصل ضرورت ہے۔ پاکستان میں نوے لاکھ کے لگ بھگ منشیات کے عادی افرادموجودہیں۔پندرہ برس سے لے کرساٹھ سال کے تیس لاکھ لوگ صرف اورصرف ہیروئن کے غلام ہیں۔یہ لوگ پاؤڈرکے بغیرسانس نہیں لے سکتے۔موذی پاؤڈرانکی جسمانی غذابن چکاہے۔
پچاس لاکھ پاکستانی چرس استعمال کرتے ہیں۔چرس ان کے لیے خوراک کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کے علاوہ لاکھوں لوگ گانجا، کوکین، شراب، شیشہ اورنشہ آورگولیاں استعمال کررہے ہیں۔ملک کے کسی بھی حصے میں ہوں۔ہیروئن اورچرس آرام سے مل جائے گی۔
ہمارے ملک میں کسی سیاسی یامذہبی جماعت نے یہ نہیں کہا کہ اس ملک کوہیروئن سے پاک کردیگی۔مذہبی جماعتوں کی طاقت کے پی اوربلوچستان میں طویل عرصے سے قائم ودائم ہے۔ انھی علاقوں میں ہیروئن کااستعمال سب سے زیادہ ہے۔ افغانستان جوہمارے لیے مسائل کی جڑہے پاؤڈر مہیا کرنے والاسب سے کامیاب عفریت ہے۔دنیاکی پچھتر فیصد منشیات افغانستان میں جنم لیتی ہیں۔ہیروئن مہیاکرنے کی فیکٹریاں پورے افغانستان میں بڑی آسودگی سے کام کر رہی ہیں۔ کے پی اوربلوچستان کے ہرمحلہ میں یہ پاؤڈر میسر ہے۔
اس کے علاوہ اس پاک سرزمین کے ہرانچ پریہ کاروبار کامیابی سے جاری وساری ہے۔کوئی اس پرآوازنہیں اُٹھاتا۔حالت اس درجہ ابترہے،کہ منشیات کے علاج کے لیے صرف1990ء بستر موجود ہیں۔ یہ علاج گاہیں صرف اور صرف تیس ہزارلوگوں کا سالانہ علاج کرنے کی استطاعت رکھتی ہیں۔ انسدادمنشیات فورس کے پاس بھی صرف چار یا پانچ اسپتال ہیں۔پاکستان میں ہرسال ساٹھ بلین ڈالرکی منشیات استعمال کی جاتی ہے۔قرائن یہ ہیں کہ کسی بھی سرکاری مددکادوردورتک کوئی وجودنہیں ہے۔
اس صورتحال میں سب سے بھاری ذمے داری گھر والوں کی ہے۔جوان بچے یابچیوں کے طرزِ زندگی کو جانچنے کی اَشدضرورت ہے۔اہل خانہ کو نظر رکھنی چاہیے کہ گھرکاکوئی فردذہنی دباؤیاڈپریشن کا نشانہ تونہیں بن رہا۔کیا کسی منفی عادتوں والے دوستوں میں شامل تونہیں ہوگیا۔ کیا ہر وقت گھرسے باہرتونہیں رہنے لگا۔غرض یہ کہ درجنوں نشانیاں ہیں جس سے کسی بھی منشیات میں مبتلاشخص کو پہچانا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل کوئی مشکل کام نہیں۔مگرآسان بھی نہیں ہے۔
شائدآپ کو یقین نہ آئے۔ پاکستان میں روزانہ سات سونشئی بلاموت صرف اورصرف منشیات کی بدولت سفرِعدم پرروانہ ہوجاتے ہیں۔یہ تعداد دہشتگردی میں مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ڈھائی لاکھ سالانہ اموات کوئی معمولی اَمر نہیں ہے۔ یہ سلسلہ برس ہابرس سے جاری ہے۔ بغیر کسی تعطل کے، ہمارے نوجوان بچے اوربچیاں مرتے جا رہے ہیں۔ مگر ہمارے مقتدرطبقہ کی توجہ صرف اور صرف پیسہ کمانے اورذاتی ہوس اقتدارپرہے۔سات سوبندوں کے روزمرنے سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ معلوم یہی ہوتاہے کہ اقتدارسے وابستہ ہر فرد ہزاروں سال جیے گا۔موت توکسی اورکے لیے تخلیق کی گئی ہے!