counter easy hit

کئی دہائیاں قبل انکے ساتھ بنگلہ دیش کا دورہ کرنے والے حفیظ خان کی خصوصی تحریر

Several decades ago, special written by Hafiz Khan, who visited Bangladesh

لاہور (ویب ڈیسک) مشہور صحافی، دانشور اور پنجاب یونیورسٹی ، لاہورکے پروفیسر، وارث میر مرحوم کو یاد کرتے ہوئے میں اپنے قارئین کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ہنگامہ خیز دور، 1971 ء میں لیے چلتا ہوں۔ جب میں پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کا صد ر تھا تو وارث میر اسٹوڈنٹ آفیئرز کے ایڈوائزر تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن حفیظ خان اپنی ایک خصوصی تحریر میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔جاذب اور دلکش شخصیت، مضبوط جسم، دل موہ لینے والی مسکراہٹ، اور انتہائی ذہین دماغ رکھنے والے وارث میرسے انسان بے اختیار محبت کرنے لگتا۔ اُن کی شخصیت کو سمجھنا ناممکن تھا، تاوقتیکہ آپ اُن کی پیشانی کی لکیروں کو غور سے دیکھیں۔ وہ ہماری نوجوان حرکتوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے ، لیکن انجان بننے کا دکھاوا کرجاتے ، یا نظر انداز کردیتے ۔ پروفیسر خواجہ غلام صادق ڈائریکٹر اسٹوڈنٹ آفیئرز تھے۔ وہ فلاسفی کے شعبے کے صدر تھے، اور یہ اُن کے پاس اضافی چارج تھا۔ وہ بہت مہربان سرپرست تھے،اور بلاضرورت معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تھے ۔ پروفیسر میرکادفتر نیوکیمپس لاہور کے ’’اسٹوڈنٹ ٹیچر سنٹر‘‘(ایس ٹی سی) میں تھا۔ یہ اسٹوڈنٹ یونین کے دفتر کے قریب تھا ۔ چنانچہ باقاعدگی سے ملاقات رہتی۔وہ طاقتور جذبات رکھتے تھے، اور جو محسو س کرتے، بے دھڑک کہہ دیتے ، لیکن دل کے بہت اچھے تھے ۔ جذبات کا طاقتور اظہار اُن کی تحریروں میں بھی ملتا ہے۔ انسانی تعلقات کو قائم رکھنے کی صلاحیت کا اظہار اس بات سے ہوتاہے کہ وہ یونین کے نائب صدر، راشد بٹ، جو پی پی پی کے کٹر حامی تھے ، کو بھی کنٹرول کرلیتے، اور جنرل سیکرٹری جاوید ہاشمی کو بھی ، جن کا تعلق مخالف نظریات رکھنے والی اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔ پروفیسر میر دونوں سے نہایت متوازن طریقے سے نمٹ لیتے کیونکہ وہ صاف گو اور ایماندار تھے ۔ اسٹوڈنٹ یونین پرطویل پابندی کے خاتمے کے بعد ہم منتخب ہونے والے پہلے اسٹوڈنٹ لیڈر تھے ۔ اہم عہدیداروں کے مختلف رجحانات کے باوجود یونین کی کارکردگی بہت متوازن تھی۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ کے لیے یہ چیز باعث ِ افتخار تھی۔چنانچہ یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے ہمیں انعام کے طور پر غیر ملکی دورے پر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ پروفیسر وارث میر کے پاس ہمارے ٹور کی قیاد ت تھی، جبکہ میں طلبہ وفد کا لیڈر تھا۔ اُس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر علامہ علائوالدین صدیقی سے ملاقات میں ترکی یا یورپی ممالک کے دورے کی تجویز سامنے آئی۔ میں نے مشاورت کے لیے کچھ وقت مانگا۔یہاں اختلاف ِرائے پایا گیا۔ اس معاملے پر بات کرنے کے لیے میں میر صاحب کے پاس بیٹھا تھا۔ وہ ، جیسا کہ عمر بھر رہے، ایک مثالیت پسند تھے ، جبکہ میں حب الوطنی کے جذبات سے لبریز ایک نوجوان تھا۔ ہم مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی اور بغاوت کے جذبات بھڑکانے والی مکتی باہنی سے آگاہ تھے۔ ہم نے مشرقی پاکستان کے دورے کا دلیرانہ فیصلہ کیا تاکہ ملک کے دونوں دھڑوں کے عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کیا جاسکے ۔ یونیورسٹی انتظامیہ کارد ِعمل حوصلہ افزا نہیں تھا، لیکن ہمارے دلائل کی طاقت غالب آئی۔ اس خطرناک مہم کے لیے ہم نے تیاریاں شروع کردیں۔ اس وفد میں پروفیسر وارث میر اور میرے علاوہ راشد بٹ، جاوید ہاشمی، مرتضیٰ رحیم، معین الاسلام اور ایک اور صاحب شامل تھے ۔ ہمارے میزبان ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر، ڈاکٹر محمود حسین تھے۔ انڈیا نے پاکستان کی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کی ہوئی تھی۔ ہم کراچی گئے، اور 1971 ء تک موجود آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پی آئی اے کی پرواز سے کولمبوکے راستے ڈھاکہ پہنچے۔ ڈھاکہ میں ہمارا بہت اچھا استقبال کیا گیا۔ ہمیں رہائش کے لیے ڈھاکہ یونیورسٹی کے انٹر نیشنل ہاسٹل میں لے جایا گیا۔ راستے میں ، میں نے دیکھا کہ ہر طرف عجیب سا سکوت ہے۔ آسیب زدہ سکوت۔ کوئی چیز مجھے بے چین کررہی تھی۔ ہر کسی کے چہرے پر اجنبیت تھی، ہر مسکراہٹ جبری تھی، کوئی بھی ہم سے نظریں ملانے کا روادار نہیں تھا ۔ پہلی شب ہمیں ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کھانے پر مدعو کیا۔ ہم نے جی بھر کے کھایا، اور وہاں موجود دیگر افراد سے تعارف ہوا۔ وہاں پریس کے نمائند ے بھی تھے ۔ ڈنر کے بعد وائس چانسلر میر صاحب اور مجھے ایک طرف لے گئے، اور بتایا کہ ہمارا ڈھاکہ میں استقبال تو کیا گیا ہے، لیکن اُن کا لہجہ بتا رہا تھا کہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ جتنی جلدی ہوجائے، یہاں سے نکل جائو ۔ اسی میں آپ کی اور ہماری بہتری ہے ۔ میرے ذہن میں یہ خیال گردش کررہا تھا کہ یہ ہمارا ملک ہے ، ہم سے کیا غلطی ہوئی ہے؟ اگلے روز ہمارے دورے کا کافی چرچا ہوچکا تھا۔ وہاں تعینات کچھ فوجی دوستوں نے مجھ سے رابطہ کیا۔ میں نے اُنہیں ہاسٹل میں بلایا۔ ہم نے اپنے تجربات کا تبادلہ کیا۔ مکتی باہنی کے ظلم ،اور فوج کے رد ِعمل پر بات ہوئی۔ میں نے غیر ارادی طور پر ایک فوجی دوست سے ایک پستول لے لیا۔ فوج امن عامہ قائم کرنے والی فورس نہیں ہوتی ۔ آپ اُنہیں کہیں تعینات کردیں تو وہ گولی کی زبان میں بات کریں گے ۔ ہماری رہائش گاہ کے سامنے ایک یونیورسٹی ہاسٹل تھا ، جو مزاحمت کا گڑھ تھا۔ اُسے فوجی کارروائی سے تباہ کیا جاچکا تھا۔ اس سے پتہ چلتا تھا کہ معاملات کس خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔آہستہ آہستہ حالات کی سنگینی ہم پر عیاں ہونے لگی۔ فضا میں شدید تنائو موجود تھا، سکیورٹی کا مسلۂ بے حد سنگین تھا، میرا ذہن تیزی سے کام کررہا تھا: ملک کے دونوں بازو مخالف سمت میں زور کیوں لگارہے ہیں؟اس دورے کے کچھ واقعات میں اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ وارث میر صاحب جلدی سونے کے عادی تھے۔ ہمارے کمرے ملحق تھے۔ اُس شب اُن کی کھڑکی پر دستک ہوئی ، اُن کی آنکھ کھل گئی، اوروہ دبے پائوں ہمارے کمرے میں آگئے۔ میں اور راشد بٹ کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ میر صاحب کا رنگ زرد ہورہا تھا، جیسا کہ اُنھوں نے کسی بھوت کو دیکھ لیا ہو۔ اُنھوں نے ہمیں دستک کے بارے میں بتایا۔ قبل اس کے کہ میں کچھ کہہ سکتا، راشد نے مجھ سے پستول چھینا ، ایک ٹارچ لی، اور کمانڈوز کی طرف پیٹ کے بل رینگتے ہوئے عمارت کے گرد چکر لگایا۔ دریافت کیا ہوا؟ ایک بڑا سا گھاس کا ٹڈا، جوکھڑکی کے شیشے سے ٹکرایا تھا۔ ہم نے سکون کا سانس لیا، لیکن یہ واقعہ ہمارے اندرونی خوف کی عکاسی کرتا ہے ۔ اگلے روز ہمیں ریڈیو اسٹیشن پر طلبہ کے ایک سیشن کے ساتھ ملاقات کی دعوت دی گئی۔ جب ہم پہنچے تو شریک طلبہ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ ابھی گفتگو کا آغاز ہوا ہی تھا کہ سکیورٹی آئی اور ہمیں کہا کہ فوراً یہاں سے نکل جائیں۔ ہم نے حکم کی تعمیل کی۔ پتہ چلا کہ ہمارے بعد ایک لڑکی نے آخری لمحے پر اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔ اُس روکا گیاتو پتہ چلا کہ اُس نے اپنے جسم کے ساتھ اتنا دھماکہ خیز مواد باندھا ہوا تھا کہ پوری عمارت کو اُڑاسکتا تھا۔ یہ دھشت گردی سے میرا پہلا تعارف تھا۔ یہ دیکھ کر دل دکھنے لگا کہ وہ ہمیں پاکستانی بھائی نہیں ڈھاکہ میں مزید قیام کچھ سادہ سے دوپہر کے کھانوں تک محدود ہوگیا، اب کوئی ڈنر نہیں تھا۔ اس کے بعد البدر اور الشمس کے ٹریننگ کیمپس کے دورے کا اہتما م کیا گیا۔ ریاست ان تنظیموں کو منظم کررہی تھی ۔ نوجوان مارچ پاسٹ کررہے تھے ۔ میری یاد داشت میں ہے کہ نوجوان لڑکوں نے اپنے قد سے بھی بڑی بندوقیں اٹھا رکھی تھیں۔ وہ بہت جوشیلے تھے ، لیکن میرا دل دکھ رہا تھا کہ یہ نوجوان قربانی کے بکرے ہیں۔ ہمارا اگلی منزل چٹاگانگ تھی۔ ایئرپورٹ کے راستہ پر ایک منظر میرے ذہن پر نقش ہوگیا۔ ایک پہاڑی پر خوبصورت درختوں میں گھرا ہوا کمشنر کا دفتر تھا۔ بیورو کریسی کا وہی پر رعونت انداز ۔ زیادہ تر افسران کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔ اُن کی بدانتظامی نے بنگالیوں کے دل میں نفرت پیدا کی تھی، جو اب بغاوت میں ڈھل رہی تھی ۔ دیر تک نظر انداز کی گئی قوم، جسے کبھی اپنے مساوی نہیں سمجھا گیا تھا، اورجو شدید احساس ِ محرومی کا شکا ر تھی، کے پاس اب دہکتی ہوئی نفرت کے سوا کچھ نہ تھا۔چٹاگانگ نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔ ہر طرف تباہی اور بربادی کی داستاں رقم تھی۔ دل گھائل، روح زخمی، آنکھوں سے خاموش آنسو بہہ نکلے ، روتے روتے میرا گلا روندھ گیا۔ مکتی باہنی کے ذبع خانوں کے دورے کا اہتمام کیا گیا۔ وہ اپنے شکار کو الٹا لٹکا کر اُس کی نسیں کاٹ دیتے تھے تاکہ اُس کا تمام خون جسم سے نکل جائے۔ ذہن پر ہتھوڑے برس رہے تھے۔ ہم نے واپسی کی فلائٹ لی۔ ہر کوئی جاں گسل اذیت سے دوچار تھا۔ میری روح زخمی تھی۔ وارث میر صاحب صدمے سے نڈھال تھے ۔ یہ جنگ گزشتہ دو دہائیوں سے پیش آنے والے واقعات کا نقطہ ٔ عروج تھی۔اب ذہن میں سوچ ابھرتی ہے کہ لالچی سیاست دانوں اور کج فہم جنرلوں کا آخری چارے کے طور پر کیا فوجی ایکشن صورت ِحال کو کنٹرول کرنے کے لیے کافی نہ تھا۔ وارث میر نے واپس آنے پر آرٹیکلز کی ایک سیریز لکھی۔ اس پر حب الوطنی کے نام نہاد ٹھیکداروں نے اُنہیں فوراً ہی پاکستان کا غدار قرار دے دیا۔ بنگلہ دیشی حکومت نے ہمارے دورے کو مختلف نظروں سے دیکھا۔ اُنھوں نے پنجاب یونیورسٹی کے ایک فارغ التحصیل طالب علم کا شکریہ ادا کیا، غیر منقسم پاکستان میں ہماری کوشش کو مثبت قدم قرار دیا ، اور پروفیسر وراث میر اور کچھ دیگر مشہور پاکستانیوں، جیسا کہ فیض احمد فیض اور حبیب جالب کو2013 ء میں ’’فرینڈ ز آف بنگلہ دیش ‘‘ایوارڈ دیا۔ کیا تضادہے! امریکہ کی مختلف جنگوں کے دوران کئی لکھاریوں اور صحافیوں نے ان کی کھل کر مخالفت کی ، لیکن کسی نے اُنہیں غدار قرار نہ دیا۔اُن کا آئین اُنہیں اس کا حق دیتا ہے ، آزادی ٔ اظہار کا حق۔ ہم نے محبت بھرا، حساس دل رکھنے والے درویش منش انسان پر ذہنی طور پر اتنا تشدد کیا کہ وہ جواں عمری میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ وارث میرصاحب نے اپنی صحافتی سرگرمیوں کا آغاز فیلڈ مارشل ایوب خان کی فوجی حکومت کے دور میں کیا ۔ افسوس، صحافت کا یہ درخشاں سفر نوجولائی 1987 ء کو جنرل ضیا الحق کے دور میں اُن کی بے وقت رحلت سے ختم ہوگیا۔ وارث میر نے عمر بھر سچ، انصاف، جمہوری اصولوں اور سوچ اور اظہار کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website