مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مقتول مشعال خان کا سامان ہاسٹل سے گھر پہنچادیا گیا تاہم اہل خانہ نے متعدد اشیاء کے غائب ہونے کا دعویٰ کردیا۔
یونیورسٹی کے ہاسٹل سے گھر منتقل کیے جانے والے سامان میں کتابیں، کپڑے، جوتے، ان کی تصاویر اور بیگس سمیت دیگر اشیاء شامل ہیں۔ سامان گھر پہنچنے پر مقتول مشعال خان کے والدین نے سامان کی جانچ کی تو معلوم ہوا کہ اس میں سے بیشتر سامان غائب ہے۔ مشعال خان کے والدین نے دعویٰ کیا کہ غائب چیزوں میں بٹوہ، کیمرہ، موبائل اور لیپ ٹاپ غائب ہے، جو گھر منتقل نہیں کیے گئے۔ اس موقع پر مقتول مشعال خان کے والدین اپنے بیٹے کا سامان دیکھ کر افسردہ ہوگئے۔
واقعے کے بعد یونیورسٹی سے متصل ہاسٹلز کو خالی کرالیا گیا جبکہ یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا۔
بعدازاں مشعال کی بہن نے ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اپنے بھائی پر لگائے گئے الزامات غلط قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مشعال کا کسی سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں تھا۔
واضح رہے کہ عبدالولی خان یونیورسٹی میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد 15 اپریل کو وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے مشعال خان کی ہلاکت کی جوڈیشل انکوائری کے لیے سمری پر دستخط کرکے باقاعدہ منظوری دی تھی، جبکہ اگلے روز یعنی 15 اپریل کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے مشعال خان کی موت کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے پولیس سے واقعے کی رپورٹ بھی طلب کی۔
تاہم رواں ہفتے کے آغاز میں مشعال خان قتل کیس کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ مکمل کرلی تھی، جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پی ایس ایف کے صدر صابر مایار اور یونیورسٹی ملازم نے واقعہ سے ایک ماہ قبل مشعال کو قتل کرنے کی بات کی تھی، مخصوص سیاسی گروہ کو مشعال کی سرگرمیوں سے خطرہ تھا۔
جے آئی ٹی کا کہنا تھا کہ مشعال یونیورسٹی میں بے ضابطگيوں کے خلاف کھل کربولتا تھا جبکہ مشعال اور اس کے ساتھیوں کے خلاف توہین رسالت یا مذہب کے کوئی ثبوت موجود نہیں ملے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مخصوص گروپ نے توہین رسالت کے نام پر لوگوں کو مشعال کے خلاف اکسایا تھا۔