گذشتہ برس اکتوبر میں امریکی اداکارہ الیسا میلانو نے جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والی خواتین کو می ٹو کے ساتھ ان کی ٹویٹ کا جواب دینے کا کہا تاکہ دنیا کو اس مسئلے کی شدت کا اندازہ دلوایا جا سکے۔ ان کے ٹویٹ کرنے کی دیر تھی کہ ہیش ٹیگ می ٹو ٹرینڈ کرنے لگا۔ برسوں سے سلے ہوئے منہ جب کھلے تو پتہ لگا کہ جنسی ہراسانی کتنا سنگین مسئلہ ہے۔ الیسا کی یہ ٹویٹ اب تک 24480 دفعہ ری ٹویٹ ہو چکی ہے اور تقریباً اڑسٹھ ہزار لوگوں نے اس ٹویٹ کا جو
یہ سب اتنا آسان نہ تھا۔ ان لوگوں کو بہت سخت ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ پھر بھی بولے کہ اب بولنا لازم تھا۔
ہیش ٹیگ می ٹو پوری دنیا سے سفر کرتے ہوئے اب پاکستان میں آ پہنچا ہے۔ یہاں بھی اس کے ساتھ وہی کچھ ہو رہا ہے جو باقی دنیا میں ہوا ہے۔ آپ می ٹو کے ساتھ تویٹ کریں تو درج ذیل اعتراضات آپ کو سننے کو ملیں گے۔
- آپ تب کیوں نہیں بولیں؟
- سوشل میڈیا پر بولنے کا کیا مقصد ہے؟
- آپ کے پاس ثبوت کیا ہے؟
- آپ نے ہی جنسی ہراسانی کی دعوت دی ہوگی۔
- آپ نے کپڑے کیسے پہنے تھے؟
- آپ وہاں گئی ہی کیوں تھیں؟
- مردوں کو دعوت دیتے کپڑے پہنو گی تو ایسا تو ہوگا ہی۔
پاکستان کے تناظر میں درج ذیل اعتراضات کا اضافہ کرلیں۔
- اسی لیے اسلام نے عورت کو بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا ہے۔
- یہ مغربی لباس پہننے کا نتیجہ ہے۔
- شریف گھروں کی عورتیں ایسے سوشل میڈیا پر اس بارے میں بات نہیں کرتیں۔
- مرد و زن کا اختلاط ہوگا تو ایسے ہی ہوگا۔
یہی سب اعتراضات میشا شفیع کے علی ظفر پر جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد لگائے گئے تھے اور یہی سب اعتراضات اب ان لڑکیوں پر اٹھائے جا رہے ہیں جنہوں نے اپنے بورڈ امتحان کے نگران امتحان سعادت بشیر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ہے۔
دو روز قبل بحریہ ماڈل کالج اسلام آباد کی ایک طالبہ نے فیس بک پر بیالوجی کے پریکٹیکل امتحان کے نگران پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے اپنی اس پوسٹ میں بتایا کہ نگران امتحان پریکٹیکل کے دوران لڑکیوں کو جنسی اور زبانی طور پر ہراساں کرتے رہے۔ انہوں نے تقریباً تمام لڑکیوں کو نامناسب انداز میں چھوا۔
ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق نگران امتحان سعادت بشیر کا کہنا ہے کہ یہ ان کے خلاف ایک سازش ہے۔ ان کا رویہ سخت تھا۔ پورے نمبر نہ دینے کی وجہ سے ان کے خلاف سوچی سمجھی سازش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہو سکتا ہے وہ کچھ لڑکیوں کے ساتھ ٹکرا گئے ہوں کہ وہاں اسی طالبات تھیں۔ اخباری رپورٹس کے مطابق ماضی میں بھی سعادت بشیر پر طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگا تھا۔ مناسب ثبوت نہ ہونے کے بائث انکوائری ختم کر دی گئی تھی۔ سعادت بشیر اس الزام کو بھی اپنے خلاف ایک سازش قرار دیتے ہیں۔
اس طالبہ کی پوسٹ وائرل ہونے کی دیر تھی کہ سوشل میڈیا اعتراضین اپنے اپنے اعتراضات کی پوٹلی لے کر اس پوسٹ پر پہنچ گئے۔ کسی نے لڑکیوں کے لباس کو قصور وار ٹھہرایا تو کسی نے کہا کہ سب لڑکیاں چپ چاپ برداشت کیوں کرتی رہیں؟ کسی نے کہا کہ لڑکیوں کے پریکٹیکل امتحان کے لیے خاتون نگران ہونی چاہئیے تھی تو کسی نے کہا کہ ان لبرل لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئیے تھا۔
جنسی ہراسانی یا جنسی استحصال کسی جنس یا کم و زیادہ تعداد کی وجہ سے نہیں بلکہ طاقت میں فرق کی وجہ سے ہوتا ہے۔ زیادہ طاقت والا اپنے سے کم طاقت رکھنے والے کا استحصال کرنے کی حالت میں ہوتا ہے۔ کمرہ امتحان میں نگران کے پاس زیادہ طاقت ہوتی ہے۔ اگر امتحان بورڈ کا ہو تو یہ طاقت مزید بڑھ جاتی ہے۔ بورڈ کے امتحان سب سے اہم تصور کیے جاتے ہیں۔ طالب علموں سے زیادہ والدین کو ان امتحان کی فکر ہوتی ہے۔
پریکٹیکل امتحان کی بات کریں تو اس میں نگران زیادہ طاقتور اس لیے ہوتا ہے کہ اس نے پریکٹیکل کاپی اور وائیوا کے نمبر خود دینے ہوتے ہیں۔ وہ جتنے مرضی نمبر لگا دے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اس حالت میں اگر نگران طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کر رہا ہو تو وہ کیا کر سکتی ہیں؟ پہلے تو وہ شاک کی کیفیت میں چلی جائیں گی۔ وہ ایک برا لمس تھا جو ان سب نے محسوس کیا لیکن اپنے احساسات وہ عدالت میں پیش نہیں کر سکتیں۔ اگر بولیں تو نگران آگے سے کہے گا، میں نے کیا کیا ہے؟ اسے کیا کہا جائے؟ وقت بھی گزر رہا ہے، مستقبل کا بھی سوال ہے، دیگر ساتھ کچھ فاصلے پر کھڑے ہیں، ذرا سی آواز پر پیپر کینسل ہو سکتا ہے، ایک بولے تو باقی بھی ساتھ دیں گے، اس کی کیا گارنٹی ہے؟ اگر سب بول بھی پڑیں تو امتحان رک جائے گا مگر گھڑی چلتی رہے گی، مقررہ وقت کے بعد وہ امتحان نہیں دے سکیں گی کہ بورڈ کے معاملات ایسے ہی ہیں۔ اس دبائو میں وہ کیسے آواز بلند کرتیں؟
پاکستان میں جنسی ہراسانی اتنا عام ہے کہ اسے مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ جنسی ہراسانی کا شکارلوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے اس بارے میں بات ہی نہیں کرتا۔ جو اس بارے میں بات کرتا ہے اسے چپ کروا دیا جاتا ہے کہ اسی میں عزت ہے۔ اسی چپ کروانے نے ان بھیڑیوں کو مزید شہہ دی ہے۔ اس کمرہ امتحان میں بھی ایک ٹیچر موجود تھی جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی طالبات کو چپ رہنے پر مجبور کر رہی تھی کہ اس کے نزدیک اس مسئلے کا بہترین حل یہی تھا۔
سعادت بشیر کو اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن اگر وہ قصور وار ثابت ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس ٹیچر کو بھی برابر کی سزا ملنی چاہئیے۔ اس کے پاس طاقت تھی، وہ سعادت بشیر کو روک سکتی تھی، پرنسپل کو بلا سکتی تھی، بورڈ کے دفتر فون کر سکتی تھی مگر اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ وہ طالبات کو چپ رہنے پر مجبور کرتی رہی کہ یہاں عورت کا یہی کام ہے۔۔۔ چپ رہنا اور سب کچھ برداشت کرنا۔
اس کے ساتھ ساتھ فیڈرل بورڈ کو ان تمام طالبات کا دوبارہ سے پریکٹیکل امتحان منعقد کروانا چاہئیے تاکہ اگر نگران امتحان سعادت بشیر نے ان کے ساتھ کئی زیادتی کی ہے تو اس سے ان کا مستقبل تاریک نہ ہو۔