تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
اولیائے کرام اور صوفیائے عظام دین ِاسلام کی تعلیمات کے حقیقی مبلغ اور ذات ِقدرت کے منتخب نمائندے ہیںجن کی توانائیاں خدا ورسول کی رضاجوئی کے لیے وقف ہیں۔ یہ مقدس ہستیاں ہر دور میں تیرگی ٔ دوراں میں اجالوں کے چراغ روشن فرماتی رہی ہیں ۔ ہندالولی ہوںیا لعل شہباز قلندر، علی ہجویری گنج بخش ہوں یا الٰہی شاہ گنج البحر، جملے شاہ ہوں یا بلھے شاہ، بری امام ہوں یا شاہ نظام، ہر نمائندئہ الٰہی عصری تقاضوں کے مطابق قلوب ِ انسانی کی آبیاری کرتا آیا ہے۔ان کے نورانی چہرے اللہ کی یاد دلاتے ہیں۔ان کی زندگیاں جیتا جاگتا قرآن ہیںاور ان کی سیرتیںسرکار ِدوعالم ۖکے اتباع میںڈ ھلی ہیں۔ان نفوس ِقدسیہ کی خانقاہیں اور درگاہیں طاقت وقوت کا سرچشمہ ہیں۔ تاریخ میںان آستانوں کا اہم کردار رہا ہے۔
انہوں نے معاشرے کو سنوارا،دلوں کو نکھارا ،سلطنتوں کو بنایا اور زمانے کا رخ پلٹاہے۔دلوںپر حکومت کی ہے ۔اللہ رب العزت نے ان کے نقوش کو صراط ِمستقیم قرار دیا ہے ۔ان کے آثار کو وسیلہ ظفر بناکر ان کے پیغام کو ذریعہ نجات بنایاہے۔یہ اشرف المخلوقات انسان ہیں ۔ ہر دور ِپرفتن میں اللہ کی روشن نشانیاں ہیں ۔ صدیوں بعد بھی ان کی یاد لوگوں کے دلوں میں راسخ ہے ۔ان کے قلوب، جمال ِالٰہی اور اسرار ِکائنات سے لبریز ہوتے ہیں اور ان کے طائر فکر کی پرواز تا بہ عرش رہتی ہے ۔ان پر کائنات کے سربستہ رازمنکشف ہوتے رہتے ہیں اوران ہی کی وساطت سے یہ رموز،بشریت کو عطا ہوتے ہیں۔
اولیاء اللہ جہاں بھی گئے اسلام کی روشنی لے کر گئے ۔اسوئہ محمدی کی خوشبو پھیلائی ۔جہاں گئے ماحول کو جگمگا دیا ۔فضا کو مہکا دیا۔اپنے عمل ِصالح اور دل میں اتر جانے والی تعلیمات کی بنا پر دین ِاسلام کودنیا کے طول وعرض میں پھیلا دیا ۔صدیوں کی محنت ِشاقہ اور اور عمل ِصالح کی ذاتی مثالوں سے ان مردان ِحق آگاہ نے وہ تعلیمات عام کیں جنہوں نے لوگوں پر تجلیات کے ہزارہا عالم منکشف کر دیے اور انہیں نگاہ ِآشنا سے روشناس کرایا ۔انہی کے باعث آج اسلام ایک عظیم عالمگیر مذہب کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور انہی کے تربیت یافتہ خلفائے طریقت شب وروز گلشن ِدین کی آبیاری میں منہمک نظر آتے ہیں۔ان اہل اللہ اور مشائخ نے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ برصغیر میںبھی فروغ ِاسلام کے لیے انتھک جدوجہد کی اور اپنے کرداروعمل سے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کر کے صحت مند انقلاب برپا کیا ۔ان کی روح پرور شخصیات نے خواص وعوام کے دلوں کو مسخرکیا اور ان میںزندگی اور معرفت ِحیات وکائنات کی امنگیں پیدا کیں ۔ان کے گلہائے فکر ونظر کی مہک نے ہر انسان کے دل ودماغ کو معطر کیااور یہ مہک آج بھی اپنی تمام تر شگفتگی وتازگی کے ساتھ فضائے بسیط میں مہمیز ہے۔
یہ ہستیاں پوری انسانیت کے لیے رہنما ہیں جنہوں نے ہر دور میں علم وعرفان کی قندیلیں روشن کر کے مخلوق ِخدا کو صحیح اور سچے راستے پر گامزن کرنے کی جہد ِمسلسل کی ۔عوام الناس میں اخلاقی اقدار کا شعور پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انوار وتجلیات سے ان کے قلوب واذہان کو منور کر دیا ۔یہ سفیران ایزدی ،درس ِمساوات دیتے رہے ۔ اخوت ویگانگت کی تعلیم دیتے رہے ۔ان کی تعلیمات متاثر کن اور دلنشیں تھیں ۔یہ بندوں کو سرائے فانی کی حقیقت سے آگاہ کرتے تھے۔ اس گلشن عارضی کی مصنوعی رنگت اور طلسم رنگ وبو کا پردہ چاک کرتے اپنی دور رس نگاہوں سے نئے افق دریافت کیے اور عوام الناس کو آگاہی بخشی ۔اولیاء اللہ نے درویشانہ زندگی بسر کی اور دوسروں کو بھی سادگی کی تلقین کی۔تمام تر عظمتوں کے باوجود انکساری کے پیکر رہے ۔بلندیوں پہ بیٹھ کر عاجزی اپنائی ۔ان خدا والوں نے لوگوں کے سامنے علم وعمل کے ذاتی نمونے پیش کیے۔یہ ظاہری وباطنی رموز کے مرد ِمیدان تھے ۔
علم،عقل،وفا،عشق وزہد کے پیکر تھے ۔استغنا وتوکل ایسا کہ شاہی آسائشیں اور دنیاوی نازونعم چھوڑ کر ریگستانوں اور ویرانوں میں چراغ روشن کر دیے لیکن پائے ثبات ایسا کہ جابر وقاہر سلاطین بھی انہیں ہراساں نہ کر سکے ۔ تزکیہ نفس اور مجاہدئہ باطن کے ان غازیوں نے اپنے اندر کی دنیا پر فتح پا کر باہر کی دنیا بھی مسخر کر لی ۔شاہان ِعالم ان سے خوف کھاتے لیکن یہ صرف خدا تعالیٰ سے خوف کھاتے تھے ا ور یہی ان کی عظمت،بزرگی وسر بلندی کا راز تھا ۔ پاک و ہنداور دیگر ممالک میں اسلام کی ترویج واشاعت اولیا وصوفیا کی مرہون منت ہے جنہوں نے اس بلند مقصد کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور علم وعمل کی ایسی روشن مثالیں قائم کیں کہ شاہوں کی سربفلک سنگین عمارتیں ناپید ہو چکیں مگر ان اولیاء اللہ اور صوفیا کی یادوں کے چراغ آج بھی ضوفشاںہیں ۔
برصغیر میں سندھ ” بَابُ السْلاَم ”کہلاتا ہے ۔خورشید اسلام کی کرنیں سب سے پہلے اس خطہ میں پھیلیں۔سندھ ،متبحر علما،اولیا ،صوفیا اور مشائخ ِاسلام کی سرزمین ہے جن میں حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی ذات بابرکات ،والاصفات ،عالی درجات ،کثیر الجہات ہے ۔آپ صوفی منش، وحید ِعصر درویش تھے اور تاعمر روحانیت ،عظمت ِانسانی ، فقر ودرویشی کے علم بردار رہے ۔ تفسیر،حدیث،فقہ،رجال،کلام اور شعر و ادب میں وہ نام پیدا کیا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی ۔آپ کی زندگی کا ہر نقش،نقش ِجاوداں ہے اورآپ عظمت وبزرگی کی معراج پر دکھائی دیتے ہیں۔آپ نے اپنی شیریں بیانی اور حسن ِاخلاق سے لوگوں کے دلوں کو متاثر کیا اور عشق ِرسول ۖوآل ِرسول سے لبریز دل نے علم ومعرفت کے دریا بہا کر لوگوں کے دلوں میں اپنے افکار کی جوت جگائی اور اہل ِاسلام کی عقیدتیں اور محبتیں ہمیشہ کے لیے سمیٹ لیں۔سندھ کے قومی شاعر اور روحانی پیشوا ہونے کے ساتھ ساتھ آپ اہل ِسندھ کے لیے وجہ عظمت وافتخار بھی ہیں۔آپ بجا طور پر سندھی زبان وادب،ثقافت اورتہذیب و تمدن کے مئوسس ومجدد ہیں۔تاریخ ِسندھ میں آپ اسقدر اہمیت رکھتے ہیں کہ آپ کے بغیر سندھ جسد ِبے روح نظر آتا ہے ۔سندھی زبان میں بیان کردہ آپ کے افکار صرف اہل ِسندھ ہی نہیںبلکہ تمام عالم اسلام کے لیے چراغ ِراہ ہیں۔ آپ بھی دیگر اہل اللہ کی مانند سانحہ کربلا اور شہادت ِاما م عالی مقام کو اسلام کی بقا وسربلندی کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں۔
ولادت وخاندانی پس منظر آپ سندھ کے ضلع حیدر آباد کے علاقے ہالہ تعلقہ کے گائوں کٹھیاں میں 18 نومبر 1689ء مطابق 14 صفر 1102 ھ میں متولدہوئے۔ آباء و اجداد افغانستان کے علاقہ ہرات سے تشریف لائے تھے اورسادات ِمٹیاری معروف تھے ۔آپ کا خانوادہ علم وفضل اور روحانیت کے باعث معروف تھا اور عوام وخواص کے لیے سرچشمۂ فیوض وبرکات تھا ۔عوام کی بڑی تعداد وہاں مذہبی تعلیم ، روحانی تسکین اوردعائے خیر وبرکت کے لیے حاضری دیتی تھی ۔آپ کے والد سید حبیب شاہ ،آبائی علاقہ مٹیاری سے بھین پورمنتقل ہوئے اور مخدوم بلاول کے ساتھ مل کر تبلیغ ِاسلام کا فریضہ سرانجام دیا۔سید حبیب شاہ عابد وزاہد ولی اللہ ،صاحب ِوجد وحال تھے۔ استغراق کی کیفیت غالب رہتی ۔آپ کی والدہ معظمہ مخدوم عربی دیانہ کی صاحبزادی ،خدا رسیدہ خاتون تھیں ۔
آپ کے پڑ دادا شاہ عبدالکریم بلڑ والے (1536تا1623ئ)اپنے دور کے نامور ولی اللہ اور صاحب ِطریقت درویش گزرے ہیں جن کے احوال وآثار ،کرامات و صوفیانہ تخیلات عبدالوسیع ٹھٹھوی نے ”بیان العارفین ”میں قلمبند کیے ہیں۔علامہ دائودپوتہ آپ کو سندھی ادب کاچوسرکہتے ہیں۔ان کا مزار حیدر آباد سے چالیس میل کے فاصلہ پرٹنڈومحمد خان میںبلڑ کے مقام پر مرجع ِخلائق ہے۔آپ کے بارہ صاحبزادے ہوئے۔ 1044ھ میں وصال فرمایا۔ ان کا رسالہ شاہ جو رسالو سے قبل اہل ِسندھ کا علمی وادبی ورثہ تھا جو شاہ صاحب کے پاس محفوظ رہا۔شاہ عبداللطیف بھٹائی اپنے پڑدادا صاحب سے بہت متاثر تھے۔
نسب نامہ آپ موسوی الکاظمی سید ہیں اور آپ کا شجرة نسب ستائیس ( 27) پشتوں بعد ساتویں خلیفہ ٔ رسول ۖ، امام اہل ِبیت ، سیدناحضرت امام موسٰی بن جعفر الکاظم سے ہوتا ہوا سرکار ختمی ٔمرتبت سے جا ملتا ہے۔ آپ کا نورانی نسب نامہ اسطرح ہے؛ حضرت سید عبداللطیف شاہ بھٹائی بن سیدحبیب شاہ بن سید عبدالقدوس شاہ بن سیدجمال شاہبن سیدعبدالکریم شاہ بلڑوالے بن سیدلال محمد شاہبن سیدعبدالمو من شاہ بن سیدہاشم شاہ بن سیدحاجی شاہ بن سیدجمال محمد شاہ بن سیدشرف الدین شاہ بن سیدمیر علی شاہ ثانی آپ 802ھ ، 1400ء میںسندھ میں پیدا ہوئے اور یہیںقیام فرمایا۔آپ کے تین صاحبزادے سید شرف الدین، سید احمد اور سید مرتضٰی ہوئے ۔سید شرف الدین کی اولاد پوتاکہلائی ،سید احمد کی اولاد میراں پوتا کہلائی ۔ سید مرتضٰی ، شاہ بھریا معروف ہوئے اور آپ کا مزار منجھند کے شمال میں مرجع خلائق ہے۔
ان سادات سے چلنے والی شاخیں جرار پوتا، بقیل پوتا،موسٰی پوتااورمعین پوتا کہلائیں۔شاہ عبداللطیف بھٹائی جرار پوتا قبیلہ سے تھے ۔ بن سیدحیدر شاہہراتی آپ امیر تیمور کے مصاحب اور دربار ِشاہی میں منزلت کے حامل تھے ۔ 800ھ میں ہرات،افغانستان سے سندھ تشریف لائے اورہالکنڈی موجودہ ہالہ میںارباب شاہ محمد کی دختر سے عقد فرمایا، ساڑھے تین سال قیام فرما کرواپس ہرات تشریف لے گئے۔ بن سیدمیر علی شاہ بن سیدمحمد شاہ بن سیدحسین شاہ بن سیدعلی شاہبن سیدیوسف شاہ بن سیدحسین شاہ بن سیدابراہیم شاہ بن سیدعلی جاوری شاہ بن سیدحسین الأکبر بن سیدناامامزادہ جعفر ثانی الحوار آپ کی اولاد حواریون یا شجریون کہلاتی ہے۔
بن سیدناحضرت امام موسیٰ کاظم آپ کی اولاد ِاطہار چودہ امامزادوں سے جاری ہے اور ساداتِ موسویہ کاظمیہ دنیا کے کونے کونے میں جلوہ فرما ہیں۔ آپ کی اولاد ِاطہار میں بکثر ت اولیاء اللہ ،صوفیا ،علما ،فقرا اورصاحب علم ودانش گزرے ہیں ۔حضرت خواجہ معین الدین سید حسن موسوی سنجری ،حضرت سیدعلی احمد صابر کلیری ،حضرت سیدعبداللطیف بری امام ، حضرت سیدحسن ابدال قندہاری آپ ہی کی عترت وذریت کے دمکتے ستارے ہیں۔بن سیدناحضرت امام جعفر صادق صَادِقُ الْأقْوال بن سیدناحضرت امام محمد باقر بَاقِرُ الْعُلُوْم بن سید نا حضرت امام زین العابدین سَیِّدُالْسَّاجِدِیْن بن سیدناامام حسین سَیِّدُالْشُّہَدا شہید ِ کرب وبلا بن سیدناامام علی المرتضٰی شیر خدا ،زوج ِبتول داماد پیغمبر اعظم ۖ بن سیدناابوطالب عبد ِمناف سَیَّدِ بَطْحَابن سیدناعبدالمطلب شَیْبَةُ الْحَمْدسید ِ عرب بن سیدناعَمروْالْعُلا ألْہَاشِمْ سَیِّدُالْقُرَیشْ بن سیدناعبد ِمناف مغیرة قَمَرُالْبَطْحَا بن سیدنازیدألْقَصَِبن سیدنا أبُوْزُہْرَةْ کَلاَّبْبن سیدناابو یقظ مرة بن سیدناابوہصیص کعب بن سیدناابوکعب لوی بن سیدناابو تمیم غالب بن سیدنافہر القریش بن سیدناابوالحارث مالک بن سیدناابویخلد قیس النضر بن سیدناکنانہ بن سیدناأبُوْالْأسَدْخُزَیْمَة بن سیدنا ابوہذیل عمروْ مُدْرِکَةْ بن سیدناابوعمروْالیاس بن سیدنامضَر بن سیدناابوآباد نزار بن سیدنا معد آپ حضور کی بعثت سے 1108سال قبل تھے ،بن سیدنا عدنان شہر عدن آپ ہی کے نام پر بسایا گیا۔
آپ سرکار ِدوعالم ۖکے اکیسویں داد احضور ہیں، بن سیدنا اُد بن سیدنا اُود بن سیدناِلْیَسَعْ بن سیدناِلْہَمْیَسَعْ بن سیدناسلامان بن سیدنااحمد حجل بن سیدنانابت بن سیدناقیدار مورث ِاعلیٰ انبیا ئے بنی اسماعیل ، اجدادِمصطفٰی ۖ۔آپ کامزارِاقدس قیداریہ نزدزنجان ،ایران میں مرجع ِخلائق ہے بن سیدنااسماعیل ذبیح اللہ بن سیدناابراہیم خلیل اللہ بن سیدناتارخ بن سیدنا ناخور بن سیدناساروع بن سیدناأرْغَوْ بن سیدنافالغ بن سیدناعابر بن سیدنا شالِخْ بن سیدناأرْفَخْشَدْ بن سیدناسام بن سیدنانوح بن سیدنالاَمَکْ بن سیدنامَتُوْشَلِخْ بن سیدناادریس بن سیدنایارد بن سیدنامِہْلاَئِیْلْ بن سیدناقینان بن سیدناانوش بن سیدناشیث بن سیدناابوالبشرآدم علیہ السلام
ابتدائی حالات آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت انتہائی شاندار ماحول میں ہوئی اور اسلامی و روحانی ماحول میسر آیا۔ حسبی ونسبی اخلاق اور عزت وشرافت کے ورثہ دار تھے ۔جوانی کے ایام بے نیازی کے عالم میں والد بزرگوار کے ہمراہ کوٹری ہی میں گزارے۔علمی وروحانی ماحول نے آپ کی فکرو شخصیت کو جلا بخشی ۔آپ کے والد متمول ہونے کے باوجودمنکسرمزاج تھے۔ ابتدائی تعلیم والدین سے حاصل کی۔ تعلیم کے ساتھ عمدہ اخلاق بھی والدین ہی سے ملا ۔آپ کی بیشتر تعلیم خود آگاہی تھی ۔انسان دوستی، منکسر مزاجی اور نرم دلی میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا ۔اکیس سال کی عمر میں آپ کاتقویٰ، تفکر، تدبر اور درویشانہ وصوفیانہ تخیلات زباں زدعام ہونا شروع ہو گئے۔مشاہدہ ومراقبہ بنیادی خصائل رہے ۔ان خصوصیات کے باعث آپ کے اطراف میںعوام کے اجتماع میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور آپ کا حلقہ ارادت وسیع ترہوتا گیا۔ جیسے جیسے آپ کے حلقہ ارادت میں اضافہ ہو رہا تھا وہیں اس دور کے نام نہاد علماواعظین، پیر، فقیر، امرا،رئوسا اور جاگیردار آپ کی تیزی سے بڑھتی مقبولیت کے باعث آپ سے حسد کرنے لگے اور دشمنی پراتر آئے مگر آپ کی صلح جوئی ،دوراندیشی اور پیام ِصلح وآشتی کے باعث نقصان نہ پہنچا سکے ۔اس وقت آپ والد کے ہمراہ کوٹری میں مقیم تھے۔
اس دور کے معروف دانشور اخوند نور محمد کہتے ہیں،”شاہ عبداللطیف کی روح میں حق پرستی کا ایک چراغ روشن تھا جس کی روشنی نے ایک عالم کو منور کر دیا۔آپ نے اپنے افکاروعلوم ،مختلف زبانوں میں پیش کر کے لوگوں کے قلوب واذہان کو تاباں کیا۔آپ کو ہر وقت تجسس سا رہتا تھا ۔اسی وجہ سے آپ کے چہرہ پر ہر وقت گہری فکر اور سنجیدگی کے آثار عیاںرہتے تھے۔آپ کے روئے مبارک سے ہروقت ایک نور سا برستا محسوس ہوتا تھا۔”
عالم،محدث،ماہر لسانیات قرآن ِمجید کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ شاہ عبداللطیف بھٹائی احادیث ِنبوی کے بھی عالم تھے۔ سندھی زبان وادب کے ساتھ ساتھ فارسی و عربی میں بھی مہارت تامہ اورسَنْسکرِتْ، سرائیکی، اردو،ترکی،براہوی اور بلوچی زبانوں کا بھی وسیع علم تھا۔ عظیم دانشور،مفکر،نقاد،مبلغ ِاسلام،صوفی وفلسفی شاعراور ہمہ جہت شخصیت کے باعث نہ صرف سندھ بلکہ عالمی ادبا و صوفیا میں قدآورشخصیت ہیں۔عالمی کلاسیکی شعرا میں آپ کا تذکرہ کرتے ڈاکٹر ایچ ٹی سورلے کہتے ہیں؛”میرے نزدیک اولیت بھِٹ کے شاہ عبداللطیف کو جاتی ہے جن کے اشعار میں ترنم وتاثیر محسوس کرناناممکن نہیں ہے۔ وہ دنیا کے عظیم شعرا میں سے ایک ہیں۔”
سیرو سیاحت سیر و سیاحت صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کی سیرت کا اہم جزو رہی ہے۔ آپ کو بھی اکیس سال کی عمر میںخانہ بدوشوں اور یوگیوںکے ہمراہ ہِنگ لاج ، جوناگڑھ، لاہوت، لکھپت ،جیسلمیر، ملتان،بہاولپور، لسبیلہ ، مکران،کاٹھیاواڑ،کَچھ کے علاوہ تھرپارکر کے صحرائوں میں سیاحت کا موقع ملا۔آپ نے ان مقامات پر اولیاء اللہ اور صوفیا سے ملاقاتیں کیں ۔ ہِنگ لاج کی دوبارہ سیاحت کے موقع پر کسی اختلاف کے باعث یہ خانہ بدوش آپ کو سوتا چھوڑ کر چلے گئے ۔آپ عملی علم پر یقین رکھتے تھے اور مشاہدات و مکاشفات کے ذریعے علمی خزائن میں اضافہ کیا۔اسی سیاحت میں آپ نے عرفانی مطالب پہ غور وخوص کیا اور سلوک الی اللہ کے لیے بنیادی اصول دریافت کیے جن کا ذکر آپ نے سُر ساسوی ابڑی میں کیا ہے۔
ازدواج 1713ء میں کوٹری کے رئیس مغل بیگ کے محل پہ ڈاکہ پڑا۔ڈاکو مال وزر لوٹ کر مرزا مغل بیگ کو قت ل کر گئے ۔سب گھر بار تباہ ہو گیا ۔مرزامغل بیگ کی صاحبزادی سعیدہ بیگم غمزدہ ومصیبت آگیں تھیں ۔ جب شاہ صاحب کو مرزا مغل کے گھرانے کی بربادی اور بدحالی کی خبر ہوئی تو آپ ان کی صاحبزادی کے پاس گئے اور ان سے اظہار ِہمدردی کے ساتھ عقد کی پیشکش کی جو منظور کر لی گئی ۔اس طرح آپ نے ایک ستم رسیدہ ،خزاںزدہ لڑکی سے شادی کرکے سنت ِنبوی ادا فرمائی ۔آپ کی کوئی اولاد نہ ہوئی ۔ زوجہ آپ کی حیات میں ہی انتقال فرما گئیں۔عقد ثانی کے لیے مریدین کے بارہا اصرار اور اہتمام کے باوجود آپ آمادہ نہ ہوئے۔
بھِٹ آمد 1742ء میںآپ نے جھاڑیوں سے گھرے ایک ریتلے ٹیلے پر قیام کا فیصلہ کیاجسے سندھی زبان میں بھِٹ کہا جاتا ہے ۔ٹیلے کے نشیبی علاقہ میں بارش کا پانی جمع ہونے سے جھیل بن گئی تھی جسے آپ نے سیدنا حیدر کرار کی یاد میں ”کرار جھیل ”کا نام دیا ۔یہاں آپ نے اپنے اور مریدین کے لیے گھاس پھونس کے جھونپڑے بنا کر رہائش اختیار کی ۔ آپ کے ساتھ رہنے والے درویشوں اور فقرا نے مشترکہ کاوش سے اس ٹیلہ پر ایک خانقاہ اورمسجد تعمیر کی ۔ یہ آبادی پہلے ”بھِٹ شاہ لطیف” کہلائی بعد ازاں”بھِٹ شاہ ”کے نام سے معروف ہوئی ۔اسی سال آپ کے والد کا انتقال ہواجس کے بعد آپ بھِٹ میں مستقل قیام فرما ہوئے اور درگاہ ِبھٹائی آستانہ آباد کیا ۔اس درگاہ نے علوم ومعارف کے چشمے جاری کیے اور رشد وہدایت کی شمع روشن کی جس کی کرنیں سندھ سے نکل کر کئی ممالک تک پھیلیں جو آج تک ضوفشاں ہیں۔
تبلیغ ِدین ِمتین وداعی اتحاد ِبین الامم آپ تبلیغ اسلام کے لیے کوشاں رہے اور اس سلسلہ میں روزانہ کئی میل پیدل سفرکرتے اور راستے میں جتنے گائوں آتے ،قافلے ملتے یا کوئی بھی شخص ملتا اسے دین کی دعوت دیتے تھے ۔آپ نے پورے سندھ کے تبلیغی دورے کیے اور لوگوں میں جواہر ایمان انڈیلے ۔نگری نگری ،قریہ قریہ فیضان عام کرتے لوگوں میں نیکی ،اعتماداور پاکیزگی کی دولت تقسیم فرمائی ۔ آپ بین الامم اتحادکے داعی اور عالمی بھائی چارے Universal Brotherhood کے علم بردار رہے ۔آپ کے مقلدین ومتبعین میں نہ صرف اہل ِاسلام بلکہ ہندو،سکھ ،عیسائی اور بدھ مذاہب کے پیروکاروں کی بڑی تعدادشامل ہے جو نہ صرف آپ کی حیات ِطیبہ میں فیوض وبرکات حاصل کرتی رہی بلکہ آج تک آپ کے مزار ِاقد س پہ حاضری دیتی ہے۔
تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
ریکٹر وَالْعَصر اِسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ