تحریر : ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے نزدیک تصوف، ترک ِدنیا یا چاردیواری میں محدود ہونانہیں بلکہ آپ نے روح ِتصوف سے انقلاب کا کام لیااور اپنے افکارواشعار سے عوام کو آگاہ کیا کہ حقیقی زندگی ادنیٰ مادی خواہشات کا نام نہیںبلکہ اعلیٰ وارفع نصب العین کے حصول سے عبارت ہے ۔آپ تصوف میں لا محدود خصائص کے مالک تھے ۔اطاعت ِ الٰہی ،اتباع ِ رسولۖ،مودت فی القربیٰ،فکر ِفرقان،خدمت ِخلق،اطاعت ِوالدین اور دنیا میںترقی کرتے ہوئے دین ِمتین کی پیروی کی تلقین کرتے تھے۔آپ کے تصوفPractically Constructive Mysticism نے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر صوفیا ودانشوروں کومتاثر کیا ہے ۔آپ کی بیان کردہ اسلامی تعلیمات کے اثرات سندھ اوراہل سندھ میں صدیاں گزرنے پر بھی محسوس کیے جا تے ہیںاور اہل ِسندھ کی صلح جوئی ،مہمان نوازی ،دینداری،مودت فی القربیٰ،عشق ِحیدر کرّار اور اسلامی اصولوں کی پاسداری آپ ہی کی تعلیمات وافکار کا نتیجہ ہے ۔آپ کا تصوف زندگی آموز ہونے کے ساتھ زندگی آمیز بھی ہے۔
آپ خود بھی خدا کے سچے عاشق تھے اور آپ کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ سب لوگ بھی خدا کو صحیح طور پر اور بخوبی پہچان لیں تا کہ بے راہروی و گمراہی سے دور رہیں۔آپ قرآنی احکام کو ہی ہموار اور کشادہ راہ پر سفر کرنے کے لیے جذبہ حقیقی کا محرک سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جب یہ جذبہ کسی کے اندر پیدا ہو جائے تو پھر وہ اپنی منزل سے بھٹک نہیں سکتا ۔آپ سینہ بہ سینہ روایتی تصوف کے قائل نہ تھے بلکہ اکابر اصحاب ِرسولۖ سلمان ِفارسی ،ابوذرغفاری ،عمار یاسر ، اویس قرنی جیسے بلند پایہ صوفیا کی طریقت کے سرچشموں کے قائل تھے جس میں ہاشمی معرفت کی چمک تھی۔ جس کے رنگ وآہنگ کے پردہ میں سوزوساز اور نور وسرور پنہاں تھا ۔آپ کا نظریہ تصوف ہر انسان کو روحانی ترقی ،فکر وعمل ،مساوات،عرفان ِ حق ،عدل وانصاف ،ایثارِ نفس اور عشق ِحقیقی کی تعلیم دیتا ہے۔
فقر ذوق وشوق تسلیم ورضا است ما امینم ایں متاع ِمصطفٰی است شاہ عبداللطیف بھٹائی سچے عاشق ِرسول ۖتھے ۔آنحضرت کی ذات والا صفات سے انہیں والہانہ محبت تھی ۔آپ فرماتے ہیں کہ حضور ۖسے بڑھ کر طمانیت ِقلب کا ذریعہ اور کوئی ذات نہیں ۔جوشخص خدا کو نہیں مانتا ،حضور سرورِ کونین ۖپر ایمان نہیں لاتا وہ گمراہ ہے ۔وہ ہمیشہ قہر وذلت میںگرا رہتا ہے ۔سکون اس سے کوسوں دور رہتا ہے اور جو لوگ اپنے دلوں کو رسالت ما ب کی ضیا باری سے منور کرتے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے چین وآرام اور راحت وسکون حاصل کر لیتے ہیں۔آپ نے اپنے کلام میں کئی جگہ بڑی خوبصورت تشبیہات سے کام لیا ۔ آپ کے خیال میں انگارے حکمت اورمے عشق حقیقی ہے۔ان ہی دوراہوں پر چل کر سالکان ِ طریقت، نشہ الفت میں سرشار رہتے ہیں ۔آپ سرورِ کونین کی ذات کو ”کارئی”کے نام سے یاد کرتے ہیں۔”کارئی”کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت کی ذات ِاقدس ہی دنیا کی تخلیق کا باعث ہے ۔آپ پر درود وسلام بھیجنے والا ہی طمانیت ِقلب حاصل کرتا ہے۔
شاہ صاحب محبوب کے استغنا اور شان ِجمال کو بڑے ہی دلکش انداز میں بیان کرتے ہیں ۔ منفرداندازِسخن میں فرماتے ہیں؛”میرا محبوب شان ِجمال کے ساتھ جب خراماں خراماں چلتا ہے تو زمین سے بھی بسم اللہ کی صدائیں اٹھتی ہیں اورجہاں میرے پیارے کے قدم پڑتے ہیں وہاں کی مٹی اس کے قدموں کوبوسہ دیتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے چاروں طرف حوریں ادب سے کھڑی ہوں۔”شاہ صاحب عاشق کے کردار کی رفعت ، درد ِفراق کی لذت اور دردمندوں سے الفت اور ایسی دیگر کیفیات بڑی نفاست ودلکشی کے ساتھ بیان کرتے فرماتے ہیں کہ محبوب کی باتیں سننا ضروری نہیں بلکہ محبوب کا سکوت ہی سلام اور پیار بھرا انداز ِگفتگو ہوتا ہے ۔آپ نے وحدت الوجود کو اعتدال واحتیاط کے ساتھ بیان کرتے اپنے کلام کو دلآویز طریقہ سے پیش کرتے ہوئے کہیں بھی احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا۔”معرفت ِحقیقی حاصل کرنے کے بہت سے راستے ہیں۔
کوئی بھی راہ اس کا مشاہدہ کرا سکتی ہے ۔ایک قصر ہے جس کے لاکھوں دروازے اور ہزاروںکھڑکیاںہیںاور جس طرف نظر اٹھاتا ہوں مجھے اس طرف خدا کے جلوے نظر آتے ہیں۔”عشق بیان فرماتے کہتے ہیں؛ ”محبت کے نام لیوائوں کو سولی چڑھنا پڑتا ہے بلکہ محبت دار اور سولی پہ چڑھنے کی دعوت ہے اور کارزارِعشق میں قدم رکھنے والے پہلے دار کی طرف جاتے ہیں پھر انہیںلذت ِوصل نصیب ہوتی ہے ۔اس لیے عاشقوں کو چاہئے کہ پہلے وہ اپنا سر تن سے جدا کر لیں پھر عشق کا نام لیں ۔یہ دار ورسن درحقیقت عاشقوں کے لیے زیب وزینت سے آراستہ ہار ہے جسے ہچکچا کریا پیچھے ہٹ کر پہننا ایک طرح کا عتاب ہے اور جو عتاب سے بچنا چاہتا ہے وہ برملا دار کی طرف آئے اور محبت کی راہ ورسم میں قربان ہوجائے ۔سر تن سے جدا کروانا عاشقی ہے ”۔ فرماتے ہیں کہ محبوب کو جنگلوں اور صحرائوں میں تلاش کرنا عقلمندی نہیں کیونکہ محبوب تو شہ رگ سے بھی قریب ہوتا ہے ۔ صرف نظر جھکانے کی دیر ہوتی ہے فوراََمحبوب کا مسکن نظر آجاتا ہے ۔آپ نے معرفت ِایزدی و اسرار ِالٰہی کو ایسی شگفتگی سے بیان کیا ہے کہ آپ کا کلام پڑھنے یاسننے والابے خود ہو جاتا ہے ۔آپ طالب ِمولا ،سچے عاشق ِرسول ۖتھے۔
سندھی زبان پر احسان
تعلیماتِ قرآن کے فروغ کے لیے شاہ صاحب کی کاوشیں آب ِزرسے مرقوم ہیں۔سندھی زبان میں تبلیغ ِاسلام اور تعلیماتِ قرآن کے فروغ واشاعت نے اس زبان کو غیر معمولی بنا دیا۔ آپ کے افکارِ جلیلہ نے اس زبان کو منصب ِاولیٰ عطا کیا اورآپ کے باعث یہ زبان بھی زندہ وجاوید ہو گئی ۔آپ کی جدت ،ندرت اور اندازِ بیاں نے لوگوں کو مسخر کر دیا ۔آپ نے عملی طور پر ثابت کیا کہ سندھی اور عربی زبان کا مشن ایک ہی ہے کہ اسلام کی تبلیغ اور قرآنی تعلیمات کی ترویج واشاعت کی جائے ۔عربی کی طرح سندھی زبان بھی دلکش اور اپنی جامعیت کے سبب زندہ زبان کہلانے کی مستحق ہے اورشاہ عبداللطیف بھٹائی کی زندہ وجاوید شاعری نے اس استحقاق پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے ۔آپ کے اشعار میں علوم ومعارف کے بحر بیکراں موجزن ہیں۔ہر طبقہ فکر کے لوگ اپنے افکار وخیالات میںوزن اور تائید کے لیے اشعار ِشاہ لطیف پیش کرتے دکھلائی دیتے ہیں جو آپ کی ہمہ جہتی کی بین دلیل ہے ۔آپ سندھی قوم کی صحت،قوت اورشگفتگی کے ضامن ہیں۔آپ نہ صرف مذہبی،لسانی اور اخلاقی دروس کے شاعر ہیں بلکہ قومی اور سیاسی فکر کے بھی عکاس ہیں۔
فکر وتخیل
شاہ صاحب کی تمام شاعری اسلام کے بنیادی ارکان اور ایمانی اعتقادات کے عین مطابق ہے ۔آپ نے اپنی شاعری میں افکار ِرسالت ۖ واہل ِبیت ِرسالت کی بھرپور ترجمانی کی ہے اور یہ ترجمانی دل کی گہرائیوں سے نکلے جذبہ ایمانی کا ثمرہے جس میں انسانیت کے مرجھائے ہوئے پھولوں میں تازگی پیدا کرنے کے لیے مہران ِحیات موجزن ہے فرماتے ہیں؛ ”میرے اشعار قرآن ِمجید کی آیات کا ترجمہ ہیں اور یہی آیات خدا وبندے کے درمیان محبت کا رشتہ ہیںجنہیں جتنی گہرائی سے سمجھا جائے اتنی ہی سوچ وفکر تازہ ہو جاتی ہے۔ ” شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنے عقیدے اور شاعری میں جابجامحبوب ِحقیقی کی اطاعت کی تلقین کی ہے ۔آپ نے اللہ تعالیٰ سے اپنا سچا رشتہ قائم رکھا اور قرب ِالٰہی آپ کی منزل رہی ۔آپ نے اس منزل کے حصول کے لیے حضور کی ذات ِبابرکات کو وسیلہ بنایا۔آپ کے نزدیک خدا کی رضا حاصل کرنے کے صرف دو ہی ذریعے ہیں ۔ایک اسلامی لائحہ عمل ،جس کے تحت کلام ِحکیم خلوص،فہم اورمن حیث الجوع پڑھا اور سمجھا جائے اور پھر احکام ِخداوندی کی تعمیل کی جائے اور دوسرا ذریعہ سرور ِکائنات،فخر موجودات کی اطاعت واتباع کا ہے ۔ان دونوں ذرائع کا نام وحدت الوجود ہے ۔توحید کو قرآن کی بنیادی تعلیم قرار دیتے ہوئے شاہ صاحب فرماتے ہیں ؛”دنیا میں اضطراب وبے چینی کا صرف ایک علاج، حرفِ توحید کے عقیدہ کی استقامت ہے اور خدا کی ذات پر بھروسہ دلوں کی تسکین کا باعث ہے۔ ”
کلام ِشاہ لطیف
آپ کا کلام اسلامی ادب وثقافت کی جامعیت اور یک رنگی کے باوجود تنوع اور متنوع یگانگت کا عکاس ہے ۔اولیاء اللہ اور صوفیا کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کی منزل ایک ہے۔ انہیں اسلام کی فکر ہے ۔اہل ِاسلام کی عظمت کا احساس ہے ۔ان کی ذہنی بیداری اور ان کے دلوں میں نئی روح پھونکنے کی سب نے کوشش کی ہے ۔ان بزرگان دین نے اپنے کلام سے مسلمانوں کے نفس کی تطہیر اور تقدیسِتفکیر کی ہے ۔مختلف زبانوں کے باوجود یہ بزرگ ایک ہی چشمہ سے فیضیاب اور ایک ہی جذبہ سے سرشار تھے ۔انسب کے کلام کا ایک ہی منبع ہے اور وہ ہے ذات ِالٰہی سے بے پناہ عشق۔ان کے کلام میں توحید ورسالت اورولایت کے رموز پائے جاتے ہیں ۔شاہ صاحب ہر داستان میں انسانوں کو صراط ِمستقیم پہ چلنے کا درس دیتے ہیں اور خدا کی خدائی اور وحدانیت کا والا وشیدا بنانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔شاہ صاحب نے سندھی یا دیگر زبانوں میں کہے گئے کلام کی دل گرفتگی اورسوز وحلاوت میں کوئی فرق نہیں آنے دیا ۔آپ کے الفا ظ ببانگ ِدرا ضربِ کلیم بن کر دلوں میں اتر جاتے ہیں۔
آپ فرماتے ہیں کہ جب انسان بے راہرو ہو جاتا ہے تو قدرت اسے کسی نہ کسی طرح ضرور سزا دیتی ہے ۔شاہ صاحب کا ایمان ہے کہ اگر کوئی شخص عشق کو اپنا رہنما اور ضابطہ اخلاق بنا لے تو وہ کامیاب وکامران ہو جاتا ہے ۔آپ کا اپنے دور کے مسلمانوں پر بڑا احسان ہے ۔آپ نے خدا ،رسول ۖ اور کتاب کا بیک وقت درس دیا ہے اسی درس کی بدولت وہ اقوام جو لسانی اعتبار سے جدا جدا ہیں نظریہ اسلام کی روشنی میں ایک امت کہلاتی ہیں ۔آپ کا کلام پڑھنے کے بعد فکر وتجسس کی راہیں ازخود واضح ہو جاتی ہیں ۔آپ عربی زبان کے شاعرانہ تلذزسے بھی آشنا تھے اور فارسی زبان وادب کا بھی فہم وادراک رکھتے تھے ۔آپ دین کو اخوت کا سرچشمہ سمجھتے اور اتحاد ویگانگت کا درس دیتے تھے ۔آپ کا نظریہ انسان دوستی سے عبارت تھا جس میں پاکیزگی بھی تھی اور سچائی بھی اور دردمندی کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔
خدارسیدہ درویشوں نے ہمیشہ اخلاق ِحسنہ کا ذکر کیا جو اسلامی تعلیمات کی اساس ہیں۔ ان لوگوں نے عشق ِالٰہی اور اعلیٰ وارفع اخلاق کو لازم وملزوم قرار دیتے کہا ہے کہ خدا نے یہ دنیا بلاوجہ پیدا نہیں کی بلکہ اسے پیدا کر نے کاایک بلند مقصد تھا اور اس مقصدکے لیے ایک ضابطہ اخلاق وضع کیا ۔اس ضابطہ اخلاق کی پابندی ہی سے اخلاق ِحسنہ اور بلند درجات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔شاہ صاحب نے لوگوں کو چند روزہ حیات کی حقیقت سے آگاہ کرنے اور زندگی کے وسیع ترجامع نظریہ کو سمجھانے کے لیے عشق ِحقیقی کا ذکر بڑے ہی پراثرانداز سے کیا ہے ۔آپ کا انداز، تصوف کے رنگ میں رنگا ہے ۔آپ نے اپنے کلام میں معرفت کے رنگ میں بنی نوع انسان کی تاریخ سموکر انسانوں کے لیے ایک مثالی معاشرہ کا مکمل اور واضح تصور پیش کیا ۔آپ نے تمام لوگوں کے عقائدو فرائض مدنظررکھتے ہوئے ایک ایسے مسلک کو پھیلانے کی والہانہ کوشش کی جو اعلیٰ اخلاقی اقدار کا سرچشمہ اور پوری انسانیت کی محبت واخوت کا منبع ہو ۔آپ نے حقیقی محبت کے لیے زندہ رہنے اور مر مٹنے والے انسانوںکے قصے سنا کر لوگوں کو محبت کی سچی عظمت ورفعت سے آگاہ کیا اور اسی وصف نے انہیں لافانیت بخشی۔
غریب نواز
شاہ عبداللطیف کا زمانہ انقلابات سے پر تھا جس میں ایک طرف سیاسی نظام متزلزل ہو رہا تھا تو دوسری طرف اخلاقی اقدار کی گرفت ڈھیلی پڑرہی تھی ۔فکر وعمل اور اخلاق و اقدار کا قوام بگڑ چکا تھا ۔ طبقاتی تفاوت نے غربا کے لیے زندگی کو عذاب بنا دیا تھا ۔زندگی کی تمام راحتیں امرا ودولت مند طبقے کے لیے تھیں اور غریب لوگ زمین کا بوجھ سمجھے جاتے تھے ۔ صوفیائے خام اور علمائے سو ء رشد وہدایت کے پردے میں گمراہی پھیلا رہے تھے ۔اس تمام منظر نے شاہ صاحب کے حساس دل کو بے حد متاثر کیا ۔انہوں نے وقت کی آواز کو پہچانا اور دکھی انسانیت کو محبت کا پیغام دیا ۔آپ کی ساری زندگی کا مقصد یہ تھا کہ انسانوں کے رشتے کو خدا سے جوڑ ا جائے ۔رسول اللہ کی محبت سے قلوب کو گرمایا جائے ۔بگڑتی اقدار کو حسن ِاخلاق اور پاکیزہ کردار سے آراستہ کیا جائے ۔ظلم کی خباثت مٹا کر انسانیت کو محبت وخلو ص سے آگاہ کیا جائے ۔اس مقصد کے لیے کی جانے والی کاوشوں پر آپ کے اشعار شاہدہیں ۔اس پیغام کو عام کرنے کے لیے آپ نے سندھ کی لوک داستانوں کو بیان کر کے عوام کے دکھ درد اور غموںکا مداوا کرتے ان میںزندگی کی نئی امنگ اور ولولہ پیدا کیا۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی غریب طبقہ سے بے حد محبت کرتے تھے ۔وہ ان کے دکھ درد کو محسوس کرتے اور اپنی شاعری میں غریب عوام کی ترجمانی کرتے تھے ۔ایک مرتبہ شاہ صاحب،”شابندر ”گئے اور ایک گائوں میں ٹھہرے ۔اس جگہ شتربانوں کے خیمے تھے شاہ صاحب کے سامنے کچھ اونٹ بلبلاتے آئے ۔آپ نے اونٹوں کے مالکان سے وجہ پوچھی توانہوں نے عرض کی؛ ”حضرت !یہاں ڈیرے نامی گائوں کا حاکم بڑا ظالم ہے ۔اس کے گائوں کی طرف سے جو بھی اونٹ گزرے وہ ان کی دموں میں کپڑے کے گولے بنوا کر ان گولوں میں آگ لگوا دیتا ہے ۔ جب وہ جلنے کی تکلیف سے بلبلاتے ہیں تووہ بہت خوش ہوتا ہے۔اس وقت بھی یہ اونٹ اسی تکلیف سے بلبلا رہے ہیں۔” شاہ عبداللطیف کو یہ بات سن کر بہت دکھ ہوا اور اونٹ پر رحم کھاتے ہوئے آپ نے سندھی میں ایک شعر کہا جس کا مطلب یہ تھا؛”خیموں والے آباد رہیں جب کہ محلوں والے غارت ہو جائیں ۔ میں نے اونٹوں کا دودھ پیا ہے ۔میں اس کی شیرینی کبھی نہیں بھول سکتا شتربان سداشادمان رہیں اور ان کو ستانے والے ہمیشہ دودھ کو ترستے رہیں۔” پھر شاہ صاحب نے ان اونٹوں کے مالکان سے کہا ؛ ”میرے بچو !صبر کرو کچھ دن تک یہ محل اجڑ جائیں گے اور سارا گائوں اونٹوں کے بیٹھنے کے لیے رہ جائے گا۔ ”شاہ صاحب کافرمان بہت جلد پورا ہوا اور گائوںویران ہوگیا اور وہاں ہر طرف اونٹ ہی اونٹ نظر آتے تھے۔
سماع سے رغبت
حضرت شاہ صاحب محفل ِسماع کا ذوق رکھتے اور خود بھی قوالی کیا کرتے تھے۔ آلات ِموسیقی و راگ وغیرہ سے بخوبی واقف تھے اور فن قوالی کو روحانی بلندی کا ذریعہ قرار دیتے تھے۔ آپ کتارہ بجایا کرتے اور اس پر قوالی کرتے تھے ۔آپ اور آپ کے مریدین کے زیر استعمال رہنے والے آلات ِموسیقی اب بھی بھِٹ میں محفوظ ہیں۔شمس العلما میرزا قَلِیْچ بیگ(٧اکتوبر١٨٥٣تا٣جولائی١٩٢٩ئ) ”حیات ِشاہ عبداللطیف بھٹائی”میں رقمطراز ہیں؛”آپ وسیع النظر،عالمی بصیرت اور روشن ذہن رکھنے والے حقیقی شاعر ہیں۔آپ کی سوچ میں ترنم،گفتار میں ترنم ، اعمال میں ترنم یہاں تک کہ سکوت میں بھی ترنم ہے۔ ”
عازم کرب وبلا
اے دل بگیردامن ِسلطان ِاولیا یعنی حسین ابن ِعلی جان ِاولیا
حضرت شاہ صاحب،امام ِعالی مقام،سیدنا امام حسین کی زیارت کے متمنی تھے اور ہر لمحہ یہ خواہش ان کے دل میںشدت پکڑتی تھی کہ وہ کربلائے معلی کی زیارت سے شرفیاب ہوںاور سیدناامام حسین کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کر سکیں۔ایک دن یہ خواہش اسقدر شدید ہوئی کہ آپ نے رخت ِسفر باندھا اور کَچھ کے قریب ونگ ولاسر پہنچے کہ وہاں سے کشتی پہ سوار ہو کر عراق جائیں۔ایک پرہیزگار شخصیت ظاہر ہوئی اور آپ کی زیارت کی قبولیت کا مژدہ سناکر کہا ؛”جناب!آپ تو لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ آپ کا مدفن بھٹ ہے۔ ”یہ سن کر آپ واپس تشریف لے آئے اور ابدی سفر کی تیاریاں شروع کر دیں۔
آخری لمحات و انتقال
وصال سے بیس دن قبل آپ مخصوص تہہ خانے میں تشریف لے گئے اورعبادات بجالاتے ،روزے رکھتے وقت گزارا۔بوقت ِافطار کم کھاتے اوربہ یاد ِعُطْشان ِکربلا چند قطرے پانی نوش فرماتے ۔اکیسویں دن، 14صفر ِمظفر 1165ھ مطابق3جنوری 1752ء آپ نے کھلے پانی سے غسل کیا اور اراد ت مندوں کو قوالی کرنے کاحکم دے کرسر کیڈارو ، داستان ِکربلا پڑھنے کاکہااور خود ایک سفید چادر اوڑ ھ کر مخصوص طریقہ نشست سے بیٹھ گئے۔ قوال، قوالی کرتے رہے اور شاہ صاحب بلاجنبش سماعت کرتے سر کیڈارو (بابِ سوئم) کے اشعار پڑھتے سید الشہدا کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش فرماتے رہے تین دن گزرنے کے بعد جب قوال تھک گئے تو انہوں نے شاہ صاحب کی جانب نظر کی مگر شاہ صاحب نہ جانے کس لمحہ واصل بحق ہو چکے تھے۔آپ کے کئی مرید جانگسل صدمے کی تاب نہ لاتے وفات پا گئے۔
آپ نے نہ صرف اتباع ِمحمد مصطفٰی ۖ کا زبانی درس دیا بلکہ عملی اتباع میںحیات ِفانی کے تریسٹھ سال گزار کر سرکار ِدوعالم ۖ کی ظاہری حیات ِمبارکہ سے ایک برس تجاوزکرنا بھی پسند نہ فرمایااور دم آخر نواسہ رسول ۖکی یاد،غم اور سوگ میں عازم ِفردوس بریں ہوئے ۔ محمد وآل محمدعَلَیْہِمُ الْصَّلوٰةُوَالْسَّلَامْ کے ساتھ آپ کاقرب ِ مودت اسقدر تھا کہ چودہ صفرپیدا ہوئے ،چودہ صفر ہی کو بارگاہ ِنبوی میں حاضر ہوئے اور چہاردہ معصومین ہی کاگلشن ِوحدت آپ کا لوح ِمزار ہے ۔ آپ کاسن وصال ان دو مصرعوں سے نکلتاہے ؛ گردیدہ محوعشق وجودِ لطیف میر 1165ھ ، شدمحودرمراقبہ صبح لطیفِ پاک 1165ھ تدفین و تعمیر ِمزار،سالانہ عرس آپ کو آپ کے مستقر”بھٹ”( ریت کا ٹیلہ) میں دفن کیا گیا جہاں آپ 1742ء کو مستقل طور پر رہائش پذیر ہو گئے تھے اور دس سال متواتر وہیں قیام فرمایا۔ آپ نے اپنے اور مریدین کے لیے چند جھونپڑے اور بعد ازاں کمرے اس ٹیلے پر تعمیرکیے تھے مگر آپ خود اس ٹیلے پر ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر ریگزارِ کربلا اور تکالیف ِامام عالی مقام یاد کرتے اور اس یاد میں زاروقطار روتے،گریہ زاری کرتے، آہیں بھرتے اور سسکیاں لیتے تھے۔شہید کربلا کے سوگ میں آپ نے سیاہ لباس زیب تن فرمایا۔
آپ کا مزار اقدس1754ء میں آپ کے عقیدت مند اور سندھ کے کلہوڑوخاندان کے چوتھے فرمانروا(١٧٥٧تا١٧٧٢ئ) میاں غلام شاہ کلہوڑو (وصال ١٧٧٢ء ) نے تعمیر کرایااور سکھر کے معروف ماہر تعمیرات عیدن کوذمہ داری سونپی جس نے تین سال میں مزار کی تعمیر مکمل کی ۔ میر ناصر خان ٹالپرنے اس کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کی۔راجہ جیسلمیر نے نوبت لگوائی ۔ روایتی سندھی طرز ِتعمیر اور فن ِمعماری کے باعث آپ کا روضہ اقدس سندھ کا خوبصورت ترین مزار ہے۔ آپ کا سالانہ عرس ِوصال ِ 14 صفر کو تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے جس میں نہ صرف ملک کے طول و عرض بلکہ بیرون ملک سے بھی آپ کے کروڑ وں عقیدت مند جبین ِ نیاز خم کیے حاضری دیتے ہیں۔عرس مبارک کی تقریبات تین دن جاری رہتی ہیںجس میں روایتی میلے کے علاوہ شاہ لطیف ادبی کانفرنس میں ملک و بیرون ملک کے دانشورشاہ صاحب کے علمی،ادبی و روحانی آثار پہ تحقیقی مقالات پیش کرتے ہیں۔شعرا منظوم نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیںتوصداکار وفن کار آپ کے اشعار سے عوام الناس کی سماعتوںمیں علم وعرفان کے موتی انڈیلتے ہیں۔
علمی آثار
شاہ صاحب کااہم علمی اثاثہ ” شاہ جو رسالو ” (شاہ کا رسالہ)کے نام سے علمی و ادبی حلقوں میں معروف ہے۔شاہ جو رسالو، مترنم افکارکا خزینہ ہے جس میں فکر انسانی کو جھنجوڑنے اور غافل بشریت کو بیدار کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے ۔سرزمین سندھ کے ہر طبقہ فکر اور ہر ذہنی سطح کے حامل لوگ اس سے فیضیاب ہوتے ہیں اور ہرنوعیت کی محفل میں ان کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔ نہ صرف سندھ بلکہ غرب کے جید دانشورمحققین بھی ان اشعار کے سحر میں مسحور رہے جن میں جرمن ڈاکٹر اینیمیر شیمیل ،ڈاکٹرارنسٹ ٹرمپ اور انگلینڈ کے ڈاکٹرایچ ٹی سورلے قابل ذکر ہیںجنہوںنے کلام ِلطیف کی آگہی کے لیے سندھی زبان سیکھی اور اپنے ممالک واقوام میں ان کے افکار وخیالات کی ترویج واشاعت کی۔
تحریر : ڈاکٹر سید علی عباس شاہ