یہ تو معلوم تھا کہ پولیس لیڈر شپ بہت زوال پذیرہوئی ہے مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ یونیفارم فورس کا جرنیل گالیاں کھاکر آجائیگااور وردی جھاڑ کر پھر اُسی کرسی پر جابیٹھے گا۔ بلوچستان کے انسپکٹر جنرل پولیس سیّد احسن محبوب کی کوئٹہ سانحہ کمیشن کے ارکان نے تذلیل کی جس کے کئی روز بعد سپریم کورٹ میں آئی جی نے واویلہ کیا اور ایک اخباری اطلاع کے مطابق روپڑے۔ پولیس افسروں کو ان کی صلاحیت کے بارے میں تحفّظات ہیں مگر احسن محبوب (جو لاء کالج میں راقم کے کلاس فیلو تھے اور ہم انھیں اسوقت سے شاہ جی کہتے ہیں) ایک شریف اور بھلے مانس آدمی ہیں۔
صوبے میں ہونے والے ہر جرم اور ہر سانحے کی ذمّہ داری آئی جی پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ وہ کوئی سپائیڈر مین یا مافوق الفطرت طاقت کا مالک نہیں ہوتاکہ جادو کی گن لے کر ہر جگہ پہنچ جائے۔ قانون کے مطابق کرائمز اور امن و امان کا ذمّہ دار ضلعی پولیس کا سربراہ ہوتا ہے۔کمیشن کے ارکان نے پولیس کمانڈر کی جو توہین کی وہ بہت غلط اور بہت بڑی زیادتی تھی مگر کمانڈر نے رونے دھونے سے جو اپنی جگ ہنسائی کی وہ اس سے کہیں زیادہ نامناسب ہے۔ آئی جی نے دہائی دیکر کہ “دیکھومجھے کتنا ذلیل کیا گیا ہے” اپنی فورس اور پورے ادارے کو مزید بے توقیرکیا ہے۔
شاہ جی! یونیفارم کے اور کندھوں پر لگے رَینکس کے کچھ تقاضے ہوتے ہیںجنہیں پورا کرنے کے لیے جوان اور افسرجاں سے گزر جاتے ہیں۔کندھوں پر جرنیل کے رینک لگانے والے نہ روتے ہیں اور نہ ہی بے عزتی کراتے ہیں۔ بے عزتی کراکے خاموش رہنا اور عہدے سے چمٹے رہنا جرنیلوں کا نہیں اردلیوں کا طرزِ عمل ہے۔آپ کو چاہیے تھا کہ بے عزتی کرنے والے کوو ہیںروک دیتے، احتجاجاً باہر نکل آتے اور اعلان کردیتے کہ جب تک کمیشن کے ممبر اپنے رویے پر معذرت نہیں کریں گے کوئی پولیس افسر ان کے سامنے پیش نہیں ہوگا۔
برسوں پہلے اُسی صوبے میں ایک اور شاہ صاحب آئی جی تھے۔ سعادت علی شاہ۔مگر وہ صرف وردی کی وجہ سے نہیں اپنے طرزِعمل سے بھی جرنیل تھے۔ ضیأالحق کے مارشل لاء دور میں گورنربلوچستان نے کسی تقریب میں (جس میں شاہ صاحب موجود تھے) پولیس کے بارے میں توہین آمیز فقرہ بولا تو آئی جی اسٹیج سے اُٹھ کر چلے گئے اور جاتے ہی گورنر کو استعفیٰ بھیج دیا۔گورنر نے جاکر معذرت کی تو پھر کام کرنے پر راضی ہوئے۔
یاد رکھیں! بے عزتی صرف ان کی کی جاتی ہے جو گوارہ کرلیتے ہیں۔ دباؤ صرف ان پر ڈالا جاتا ہے جو قبول کرتے ہیں۔ اگر سول سرونٹس ، ڈی سی، کمشنر، ڈی آئی جی اور آئی جی لگنے کے لیے حکمرانوں کے پیچھے دم ہلاتے ہوئے پھریں گے ، اُنکے مفادات کا تحفّظ کرنے کی یقین دھانیاں کراکے اور حکمرانوں کی شرائط مان کر لگیں گے تو وہ اخلاقی قوّت سے محروم ہوجائینگے۔
پھران کی عزّت نہیں کی جائے گی۔ ان سے ذاتی نوکروں کا سا سلوک کیا جائیگا، وہ ایسا سلوک سہنے کے لیے بھی تیار ہیں بس اس کے بدلے میں انھیں فیلڈ کی نوکری چاہیے۔ کس لیے؟ عزّت کے لیے؟ یا خلقِ خدا کی خدمت کے لیے؟ جی نہیں! بے تحاشا مال ، عیّاشانہ زندگی اور سماجی رتبے کی برترریٹنگ کے لیے ! لیکن اگروہ چاہیں کہ ان تمام چیزوں کے باوجود انھیں عزّت بھی ملے تو یہ ممکن نہیں ہے، عزّت تو کردار کی پاکیزگی اور پختگی ہی سے ملتی ہے۔عدلیہ ہم سب کی پناہ گاہ ہے۔ عدلیہ کی طاقت ہماری طاقت ہے۔ عدلیہ کی عزّت کے لیے راقم نے عملی طور پر حصہ ڈالا ہے اور جج صاحبان کی توہین پر ناچیز نے کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
مگر عدلیہ پر دوسرے اداروں کو عزّت دینا بھی لازم ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بھری عدالت میںسینئر افسروں کو بے عزّت کرکے حِظ اٹھاتا تھا۔ یہی حال اس کے دستِ راست کا تھا ۔ بہت سے صاحبانِ دانش اور سینئر جج صاحبان اُسوقت بھی کہتے تھے کہ یہ طرزِ عمل کم معیار انسانوں کا ہوتا ہے۔ وقت نے یہ بات ثابت بھی کردی۔ راقم کو طلبی پر دوبار جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں پیش ہونا پڑا، دونوں بار یہ ناچیز تہیّہ کرکے گیا تھا کہ اگر موصوف نے کیس سے ہٹ کر ذاتی طور پر توہین کرنے کی کوشش کی تو حساب برابر کردونگا اور اگر استعفیٰ بھی دینا پڑا تو بھی دے دونگا۔مگر اس کی نوبت نہ آئی۔
کالی بھیڑوں بلکہ شیطان صفت لوگوں سے کوئی ادارہ بھی پاک نہیں ہے۔ کوئی ایک بھی نہیں۔ ہر ادارے کو اپنے گھر کی صفائی کے لیے سخت آپریشن کی ضرورت ہے۔ لیکن ملک اور قوم کے تحفّظ کے لیے پولیس کی قربانیاں فوج کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔ اس دھرتی کے لیے اور یہاں کے باسیوں کی حفاظت کے لیے جتنا خون پولیس کے جوانوں اور افسروں نے دیا ہے شاید ہی کسی اور ادارے نے دیا ہو۔ مہذب معاشروں میں اپنے محافظ ادارے کے افسروں کو بے عزّت نہیں کیا جاتا انھیں عزّت اور احترام دیا جاتا ہے۔
کمیشن کے سامنے احسن محبوب اپنی ذاتی حیثیّت سے بیان ریکارڈ کرانے نہیں گئے تھے ، وہ مجرم یا ملزم کی حیثیّت سے پیش نہیں ہوئے تھے نہ ہی ان کی ذات پر کسی الزام کی تحقیق ہورہی تھی۔ وہ پولیس کے سربراہ کی حیثیّت سے گواہ کے طور پر گئے تھے اس لیے ان کی تحقیرکرنے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں تھا۔ ہم نے اعلیٰ عدلیہ میں بڑے بڑے باوقار جج صاحبان دیکھے ہیں جو علم، دانش اور حکمت کا مجسمہ ہوتے تھے۔ جو عدالت میں سول سرونٹس کو بے عزّت نہیں ایجوکیٹ کرتے تھے اور اکثر موقعوں پر وہ حقائق دریافت کرنے کے لیے انھیں چیمبر میں ہی بلالیا کرتے تھے۔
ایک نوجوان بازار میں تیزی سے جارہا تھا کہ کسی واقف کارنے پوچھا خیریت ہے؟ کہنے لگا ” میں اور ابّا جی آرہے تھے کہ پچھلے چوک میں مخالف فریق نے ہمیں گندی گالیاں دیں پھر وہ ابّا جی کو لٹا کے جوتے مارنے لگے تومیں عزّت بچا کے آگیا ہوں”۔ احسن محبوب صاحب ! آپ بھی وردی پہن کر ، جرنیل کے رینک لگا کر خاموشی سے گالیاں کھاتے رہے تاکہ “عزّت” بچا کے آسکیں ۔ شاہ جی! آپ پرانے کلاس فیلو بھی ہیں اور دوست بھی ! مگر میں بڑے افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوںکہ آپ نے یونیفارم اور رینک کو بے توقیر کیا ہے اس تذلیل کے ذمے دار آپ خود ہیں۔آپ کے بے وقار طرزِ عمل کی وجہ سے آپ کی کمانڈ ختم ہوچکی۔ اب آپ یہ یونیفارم پہننے اور جرنیلی رینک لگانے کے اہل نہیں رہے۔
ایک نہیں بیسیوں مثالیں ہیں جہاں پولیس افسروں نے ایسے موقعوں پر باوقار کمانڈروں کے سے طرزِعمل کا مظاہرہ کیا۔ چند سال قبل پرویز راٹھور لاہور پولیس کے سربراہ تھے وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے کسی میٹنگ میں ان کے بارے میں توہین آمیز رویہ اختیار کیا، تو پولیس کے باوقار کمانڈرنے واپس آتے ہی آئی جی اور چیف سیکریٹری کو کہہ دیا کہ کسی اور افسر کو تعیّنات کروالیں میں اب اس عہدے پر ھرگز کام نہیں کرونگا۔ اُسی شہر میں ڈی آئی جی چوہدری شفیق کے ساتھ ایک ’بڑے‘ نے اہانت آمیز روّیہ اختیار کیا تو اس نے فوراً استعفیٰ لکھ کر دے دیا۔ وہ کبھی یونیفارم پر حرف نہیں آنے دیگا۔
انحطاط کے باوجود آج بھی ہر صوبے میں ایسے آنریبل افسروں کی ہرگز کمی نہیں جو پوسٹنگ کے لیے کسی کے پیچھے نہیں بھاگتے ۔ جو اپنی یونیفارم اور فورس کی عزّت کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ سندھ کے افسروںمیں بشیر میمن، ڈاکٹر نجف مرزا ، اے ڈی خواجہ ، عبدالخالق شیخ اور غلام نبی میمن جیسے افسروں کے ساتھ کوئی توہین آمیز بات کرتا تو وہ ہرگز برداشت نہ کرتے اور نوکری پر عزّت کو ترجیح دیتے۔ پنجاب میں ڈی آئی جی احسان صادق ، طارق ملک ، کیپٹن شعیب یا بی اے ناصر کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ یونیفارم کی عزّت پامال نہ ہونے دیتے اور اس کے لیے نوکری کی قربانی سے بھی گریز نہ کرتے۔
میں نہیں جانتا ایڈیشنل آئی جی رینک کے افسر شعیب دستگیر ، راؤسردار آجکل کہاں ہیں لیکن اگر کسی فورم پر کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی ان کی توہین کرنے کی کوشش کرتا تو وہ وہیں حساب بیباک کردیتے اور اپنی یونیفارم اور ادارے کو کبھی بے توقیر نہ ہونے دیتے۔ یہ وہ افسر ہیں جو صوبائی پولیس کی قیادت کرنے کے اہل اور حقدار ہیں۔ مگر حکمرانوں کے لیے ایسے اَفسر کہاں قابلِ قبول ، انھیں تو ایسے لوگ چاہیںجو ان کی مکمل اطاعت کمپلیٹ سبمیشن کے لیے تیار ہوں ۔
ابھی ابھی ایک بہت سینئر ایڈووکیٹ کا میسج آیا ہے کہ’’ کمیشن نے کئی بار وزیرِ داخلہ کو بلایا مگر وہ گئے ہی نہیں ، کمیشن نے کیا کرلیاہے؟۔ کیا کمیشن کے ارکان نے اسی صوبے کے امن وامان میںپوری طرح حصّے دار ایف سی کے کسی سینئر افسر کو بلا کر اس کی توہین کی ؟ ہرگز نہیں ۔آج تک کسی بڑی سے بڑی عدالت میں فوج کے باوردی جنرل تو کیا کرنل کی بھی بے عزتی نہیں کی گئی اس لیے کہ ان کا ادارہ اپنی وردی کی توہین برداشت نہیں کرتا۔کمیشن کے ارکان نے سارا غصہ ایک ایسے ادارے پر نکال دیا ہے جو بدنام ہے اور ہر ایک کے لیے پنچینگ باکس بنا ہوا ہے‘‘۔
پولیس کے سربراہ کی تذلیل سے صوبے کی پوری فورس ڈی مورالائز ہوئی ہے، اگر محافظوں کا حوصلہ پست ہوگا تو امن وامان ابتر ہوگا لہٰذا بلوچستان میں امن وامان کی صورتِ حال بگڑی تو اس کے ذمّہ دار کوئٹہ کمیشن کے ارکان بھی ہوںگے!!!۔