قومی اسمبلی کے39ویں سیشن کی پہلی نشست ہی ہنگامہ آرائی کی نذر ہو گئی یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ماضی میں اس نوعیت کے واقعات پیش آتے رہے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اس وقت کی اپوزیشن کو ایوان سے باہر نکالنے کیلئے سارجنٹ ایٹ آرمز کی خدمات حاصل کرنا پڑیں، اپوزیشن رہنمائوں کو ایوان سے باہر اٹھا کر پھینکنے کا واقعہ اپنی نوعیت کا بد ترین واقعہ تھا، یہ میری آنکھوں دیکھا تھا۔ میری پارلیمانی رپورٹنگ کے دوران دوسرا واقعہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان لڑائی کے بعد پیش آیا جب فاروق لغاری صدر مملکت کی حیثیت سے قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے آئے تو ایوان میں اس وقت کی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ( ن) نے شدید احتجاج کیا، اس دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان درمیان ’’ہاتھا پائی‘‘ کی نوبت آگئی، پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے مسلم لیگ (ن) کی رہنما بیگم تہمینہ دولتانہ، اوکاڑہ سے سابق رکن قومی اسمبلی رائو قیصر علی اور سرگودھا کے ایک مسلم لیگی رکن اسمبلی کو زخمی کردیا، 2008 سے 2013 کے دوران پارلیمنٹ میں کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، پارلیمنٹ میں پیش آنے والا تیسرا واقعہ ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی ارکان ’’گتھم گتھا‘‘ ہو گئے، ’’مکوں، لاتوں اور گھونسوں‘‘ کی بارش ہوئی، یہ صورت حال تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے پہل کرنے سے پیدا ہوئی، وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی جو ایک صلح جو لیڈر ہیں، شاہ محمود قریشی کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی ایوان کی کارروائی پر امن طور پر چلنے کے لئے اپنے ارکان کو نشستوں پر بٹھائیں یا ایوان سے باہر چلے جائیں لیکن پی ٹی آئی کے رکن مراد سعید نے انہیں گھونسا مارا جب کہ شہریار آفریدی بھی اس دھکم پیل میں شامل تھے، انہیں مسلم لیگی رکن معین وٹو نے تھپڑ مار دیا جس کے باعث ہنگامہ آئی نے شدت اختیا کر لی پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر نوید قمر اور دیگر ارکان لڑائی ختم کرانے کی کوشش کرتے رہے، سپیکر سردار ایاز صادق جنہوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس پر امن طور پر چلانے کے لئے اپوزیشن کو پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی اجازت دی، ہنگامہ آرائی کی صورت حال میں بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے، جب ہنگامہ آئی نے شدت اختیار کر لی تو سارجنٹ ایٹ آرمز کی زیر قیادت قومی اسمبلی کا سکیورٹی سٹاف ایوان میں آگیا، حکومت اور اپوزیشن ارکان کو ایک دوسرے سے الگ کر کے ان کے درمیان ’’حصار‘‘ بنا لیا، شاہ محمود قریشی نعرے بازی سے آگ لگا کر ایوان سے باہر چلے گئے، اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے ارکان ایوان سے باہر چلے گئے، بعد ازاں ایک ایک کرکے پیپلز پارٹی کے ارکان بھی چلے گئے جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ بھی ناراضی کے عالم میں ایوان سے اٹھ کر چلے گئے البتہ ایم کیو ایم اور فاٹا کے ارکان بیٹھے رہے، ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی نے ہنگامہ آرائی پر افسوس کا اظہار کیا اور خطاب کرنے کے بعد ایوان سے واک آئوٹ کر دیا، البتہ پیپلز پارٹی کے چند ارکان ایوان میں واپس آگئے ،شاہ محمود قریشی نے اپنی 45منٹ کی تقریر کے اواخر میں وزیراعظم نوازشریف کے خلاف ’’گلی گلی شور ہے نواز شریف چور‘‘ کے نعرے لگوا کر ایوان کا ماحول خراب کر دیا، مسلم لیگی ارکان نے جوابی نعرے ’’گلی گلی شور ہے عمران خان چور ہے، کے نعرے لگائے ،تحریک انصاف کی قیادت ماحول پر امن طور پر چلانا چاہتی تو ہنگامہ آرائی کی نوبت نہ آتی، پیپلز پارٹی کے ’’غیر واضح ‘‘ رویے کی وجہ سے جمعرات کو تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کو پس منظر میں دھکیل دیا اور سارا میلہ خود لوٹنے کی کوشش کی، قائد حزب اختلاف خورشید شاہ تقریر کے بعد ایوان سے چلے گئے، ان کی عدم موجودگی میں صلح صفائی کرانے والا کوئی نہیں تھا ایسا دکھائی دیتا ہے تحریک انصاف ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیواں گے‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور وہ طے کر کے آئی تھی حکومت کو ایوان میں جواب کا حق استعمال نہیں کرنے دے گی، پی ٹی آئی کے شہریار آفریدی شاہد خاقان عباسی کے پاس گئے جو اس وقت شاہ محمود قریشی سے بات چیت کر رہے تھے، ان کی بدتمیزی سے دیکھتے ہی دیکھتے ایوان میدان کارزار بن گیا، قومی اسمبلی کے اجلاس میں لڑائی کرانے کے ذمہ دار سابق وفاقی وزراء کے بیٹے اور بھائی نکلے، سابق وفاقی وزیر شیرافگن نیازی کے بیٹے امجد نیازی نے شاہد خاقان عباسی پر حملہ کیا جبکہ سابق وفاقی وزیر یاسین وٹو کے بھائی معین وٹو نے تھپٹر مار کر بدلہ لے لیا۔ اس دوران پی ٹی آئی کے ارکان نے سیکرٹری کے ڈائس اور اردگرد میزوں پر پڑی آئین اور دیگر کتابوں اور دستاویزات کو بھی روند ڈالا۔ تحریک انصاف کے بعض ارکان اپنی نشستوں پر چڑھ گئے، وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی پی پی رہنما نوید قمر کے پاس گئے اور ان کو کہا وہ ان کو چپ کرائیں تاکہ وزیر دفاع خواجہ آصف بات کر سکیں۔ شاہد خاقان عباسی کو دیکھ کرتحریک انصاف کے رہنما شہر یار آفریدی نے درشت لہجے میں کہا ’’یہ کون ہوتے ہیں ہمیں چپ کرانے والے‘‘۔ سپیکر نے 15منٹ کیلئے کارروائی روک دی سپیکر کی ہدایت پر درجن سے زائد سارجنٹس ایوان میں سر گرم عمل ہو گئے۔ سارجنٹس کا پوزیشن لینے کا تیسرا واقعہ ہے۔ سپیکر سردار ایاز صادق اس بات پر نالاں تھے کہ شاہ محمود قریشی نے فلور دینے کا غلط فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ یہ سراسر زیادتی کی گئی وزیر اعظم کے خلاف نعروں کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی ‘ اے این پی‘ ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کا ساتھ نہیں دیا۔ اور تماشہ دیکھتے رہے ،تحریک انصاف کے ارکان کی ہنگامہ آرائی میں جمشید دستی پیش پیش تھے۔ اس سے قبل وزیر اعظم کے خلا ف تحریک استحقاق پر اظہار خیال کرتے ہوئے تحریک نصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے نواز شریف کے خلاف نعرے لگا کر ممکن ہے پارٹی لیڈر عمران خان سے داد لے لی ہو لیکن انہوں نے اپنے سیاسی مخالف کے خلاف دشنام طرازی کر لی اور ایوان سے چلے گئے ہیں، ان کا جواب دینے کے لئے حکومت نے جس شخصیت کا انتخاب کیا وہ خواجہ آصف تھے، خواجہ آصف نے جو کچھ شاہ محمود قریشی کے بار ے میں کہا کہ اسے سپپیکر نے کارروائی سے ہذف کیا اور نہ ہی انہیں روکا، خواجہ سعد رفیق کو اپنا غصہ نکالنے کا بہت کم وقت ملا تاہم انہوں نے شاہ محمود قریشی کا چڑھایا ہو ادھار اتار دیا۔ اب وقت آگیا ہے سپیکر سردار ایاز صادق کو ایوان کا ماحول پر امن رکھنے کے لئے سخت تادیبی کارروائی کرنا ہو گی اگر ایسا نہ کیا گیا تو آج (جمعہ) بھی ایوان میں ناخوشگوار صورت حال پیدا ہو سکتی ہے، تحریک انصاف کی ہنگامہ آرائی میں ملوث ارکان کی رکنیت ایک سیشن کے لئے معطل ہو سکتی ہے اسلام آباد کے سرد موسم میں پارلیمنٹ کے اندر ہنگامہ آرائی کے ملکی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی سردارایاز صادق نے قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی15 منٹ کیلئے ملتوی کی لیکن وہ 5 منٹ بعد ہی ایوان میں واپس آگئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ ’’دھواں دھار‘‘ خطاب کر کے ایوان سے چلے گئے خواجہ آصف نے ان کی عدم موجودگی میں پیپلزپارٹی کے بارے میں ’’زبان بندی‘‘ کا ذکر کیا اور کوئی جوابب دینے سے گریز کیا۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے وزیراعظم سے متعلق تحریک استحقاق کے بارے میں اپنی سابقہ رولنگ پر ممکنہ جائزہ لینے کیلئے قانونی ماہرین سے مشاورت کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں سے کہا ہے ایوان میں اس معامللہ پر بات کرنے کے لئے احتیاط سے کام لیا جائے۔ کوئی ایسی بات نہ کی جائے جس سے عدالتی کیس پراثر انداز ہونے کا تاثر جائے۔